نئی دہلی، 09 اگست (یو این آئی) سپریم کورٹ نے جمعہ کو ممبئی کے ایک کالج میں طالب علموں کے حجاب، نقاب، ٹوپی یا مذہبی بیجز کے استعمال پر پابندی لگانے والے ایک سرکلر کے ذریعے جاری حکم پر روک لگا دی جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے کالج کے اس طرح کا سرکلر جاری کرنے پر حیرت کا اظہار کیا اور اسے جاری کرنے والے افسران کی سرزنش کرتے ہوئے کئی سوالات پوچھے بنچ نے کالج انتظامیہ سے یہ بھی پوچھا کہ انہوں نے آزادی کے اتنے سالوں کے بعد اچانک یہ سرکلر جاری کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس پر کالج کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا کہ کالج کا قیام 2008 میں ہوا تھا۔
سرکلر پر عبوری روک لگاتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ اس معاملے کی اگلی سماعت 18 نومبر 2024 کو کرے گی۔ تاہم بنچ نے واضح کیا کہ کلاس رومز میں برقع کی اجازت نہیں دی جا سکتی
اس کے ساتھ ہی بنچ نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ کوئی بھی اس حکم کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔
جیسے ہی سماعت شروع ہوئی بنچ نے کالج کی طرف سے پیش ہونے والی سینئر ایڈوکیٹ مادھوی دیوان سے پوچھاکہ ”یہ کیا ہدایت ہے؟ کوئی ایسی چیز نہ پہنیں جس سے مذہبی شناخت ظاہر ہو۔ کیا نام مذہبی شناخت کو ظاہر نہیں کرے گا؟”
اس پر وکیل نے کہا کہ یہ مذاکرات میں رکاوٹیں ہیں۔ کالج ایک شریک تعلیمی نجی غیر امدادی ادارہ ہے، جس کی خود مختاری نہیں چھینی جا سکتی۔ لڑکیاں ہمیشہ اسے نہیں پہنتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف تین لڑکیوں کو اس میں مسئلہ ہے۔
بنچ نے وکیل سے پوچھاکہ ”کیا یہ لڑکی پر منحصر نہیں ہے کہ وہ کیا پہننا چاہتی ہے؟ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ تلک لگانے والے شخص کو اجازت نہیں ہونی چاہئے؟”
ان دلائل کے بعد بنچ نے کہا کہ وہ سرکلر پر روک لگائے گا۔متاثرہ طالبات کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ کولن گونسالویس نے عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
کالج کی طالبات نے بامبے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا، جس نے ممبئی کے ایک نجی کالج کی طرف سے اپنے کیمپس میں طالبات کے حجاب، نقاب، برقع، ٹوپی وغیرہ پہننے پر عائد پابندی کو برقرار رکھا تھا۔
ممبئی کے این جی آچاریہ اور ڈی کے مراٹھے کالج کے حکام نے ایک ڈریس کوڈ مقرر کیا تھا جس کے تحت ان کے طالب علموں کو کیمپس میں حجاب، نقاب، برقع، ٹوپی وغیرہ پہننے سے روک دیا گیا تھا۔
نو طالبات نے اس ڈریس کوڈ کو بامبے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جہاں جسٹس اے ایس چندورکر راجیش ایس پاٹل کی بنچ نے 26 جون کو درخواست پر غور کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ڈریس کوڈ پر عمل کرنے پر اصرار کالج کے احاطے میں ہے اور اس سے درخواست گزاروں کی پسند اور اظہار رائے کی آزادی متاثر نہیں ہوتی ہے۔
ہائی کورٹ کے اس موقف کے بعد طالبات نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔درخواست گزاروں نے اپنی درخواست میں کہا کہ ڈریس کوڈ اور احاطے میں حجاب، نقاب، برقع وغیرہ پر پابندی ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
طالبات نے دلیل دی کہ ڈریس کوڈ من مانی اور امتیازی ہے۔ کالج ڈریس کوڈ نافذ کرنے کا حکم غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ ”یہ ضابطہ ان کے لباس کا انتخاب کرنے کے ان کے حق، آرٹیکل 19(1)(اے) کے تحت ان کی رازداری اور اظہار رائے کی آزادی اور آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔”