سرینگر، : جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے شما لی قصبہ پٹن میں ایک بڑے اجتماع سے ایک پرجوش خطاب کیا، جو موجودہ پارلیمانی انتخابی مہم کے دوران کشمیر میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا عوامی کنونشن ریکارڈ ہوا۔ پی سی کے سینئر جنرل سکریٹری عمران رضا انصاری، سینئر لیڈر عابد انصاری، ریاستی سکریٹری محمد عباس وانی نے بھی جلسے سے خطاب کیا جبکہ پی سی کے سینئر لیڈر یاسر ریشی، عرفان انصاری، ترجمان عدنان اشرف میر، تصدق یاسین، یوتھ صدر مدثر کریم، یوتھ وی پی ریدھام سنگھ، یوتھ جی ایس آزاد پرویز سمیت دیگر موجود تھے۔
لوک سبھا انتخابات کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے، لون نے 1947 کے بعد خاص طور پر اسمبلی انتخابات کی غیر موجودگی کے پیش نظر اس کی اہمیت پر زور دیا۔
۔انہوں نے این سے مخاطب ہوتے کہا کہ میں این سی قیادت سے صرف یہ کہتا ہوں کہ وہ عوامی بھلائی کے لیے اپنی پارلیمانی کامیابیوں کا شفاف حساب کتاب فراہم کریں۔ پارلیمنٹ میں اپنے دورِ اقتدار کے دوران، خاص طور پر 5 اگست کے بعد، وہ خاموش تماشائی بنے رہے، اور ہمارے لوگوں کے حقوق اور امنگوں کی وکالت کرنے میں کوتاہی کرتے رہے۔ ان کی بے عملی انہیں پارلیمنٹ کے لیے دوبارہ انتخاب کے لیے نااہل قرار دیتی ہے۔
سال 1987 کی دھاندلی کا حوالہ دیتے ہوئے، لون نے زور دے کر کہا کہ کشمیر میں بندوق کے کلچر کو زندہ کرنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی خونریزی کی ذمہ داری اسی جماعت پر عائد ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں سماجی تقسیم بالکل واضح تھی، انہوں نے اسکی وضاحت کر تے ہوئے کہا کہ آبادی کے ایک طبقے نے مسلسل ظلم و ستم کا سامنا کیا چیکنگ، اور کریک ڈاؤن کے دوران قتل، تشدد، پھانسیاں، اور مسلسل صدمے اسی اکثریت کی نمائندگی والے طبقے نے کی جس کا میں ایک حصہ ہوں۔ اس کے برعکس، ایک فی صدکی نمائندگی کرتا ہے جو فاتح رہے ہیں اور باقی کا استحصال کیا ہے۔
اس نے جاری رکھتے ہوئے، ایسے ظالموں کو بطور نمائندے منتخب کرنے کے اثرات پر زور دیا ہم اپنی قیادت کے لیے این سی کا دوبارہ انتخاب جاری رکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایسا کرنے کا مطلب ہمارے معاشرے پر غلامی کے طوق کو برقرار رکھنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فاروق عبداللہ 1996 سے 2002 تک بطور وزیر اعلیٰ اپنے دور میں 7000 شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث رہے جب کہ ان کا بیٹا 2008 سے 2014 تک سینکڑوں شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ میں عہد کرتا ہوں کہ ایک بار جب میں پارلیمنٹ میں داخل ہوں گا، نیشنل کانفرنس کی طرف سے بنائے گئے ہر جابرانہ قانون کو ختم کر دیا جائے گا۔ ہم اپنے وقار پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
عمر عبداللہ پر ایک سوائپ میں لون نے اپنی جڑوں اور عمر کے درمیان بالکل فرق کو اجاگر کیا، جسے انہوں نے ایک سیاح کے طور پر ہد ف کا نشانہ بنایا ۔
انہوں نے کہا کہ عمر کی جابرانہ حکومت نے انہیں بدنام کیا ہے اور انہیں عوام کا نجات دہندہ ہونے کا دعوی کرنے سے نااہل قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عمر کی مجھے کمزور اور بدنام کرنے کی ناکام کوششیں جاری ہیں ایک ریلی میں مجھے البرق کے طور پر لیبل لگا دی جاتی ہے اور دوسری میں مجھے بی جے پی سے جوڑنا اس کی بو کھلاہٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ تاہم، 20 مئی کو عوام کا مینڈیٹ اس کی اس کی بو کھلاہٹ ہمیشہ کے لئے ختم کردے گا