نئی دہلی، 30 اپریل :
وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلی عدالتوں کی کارروائی میں علاقائی زبانوں کو شامل کرنے اور عدالتی عمل کو آسان اور کم خرچ والا بنانے کے لیے جدید وسائل اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا ہے۔مسٹر مودی نےجیلوں میں انصاف کے منتظر قیدیوں کے معاملات میں حساس طریقہ اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جہاں تک ممکن ہو زیر سماعت قیدیوں کے مقدمات کا فیصلہ انسانی جذبات اور قانون کی بنیاد پر ترجیحی بنیادوں پر کیا جائے اور اگر ممکن ہو تو اس طرح کے قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔
مسٹر مودی ہفتہ کو وگیان بھون میں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ افتتاحی اجلاس سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا اور وزیر قانون کرن رجیجو نے بھی خطاب کیا۔
جسٹس رمنا نے مسٹر مودی کے سامنے اپنے بیان میں عدالتی عمل میں ہندوستانی زبانوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ ضلعی سطح کی عدالتوں کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور ججوں اور عدالتی افسران کی سیکورٹی کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
وزیر اعظم مودی نے وزرائے اعلیٰ سے یہ بھی اپیل کی کہ وہ لوگوں کو غیر ضروری قوانین کے چنگل سے نجات دلانے کے لیےان قوانین کو ختم کرنے کی پہل کریں جو اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2015 میں مرکزی حکومت نے 1,800 ایسے قوانین کی نشاندہی کی تھی جو اپنی اہمیت وافادیت گنوا چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے 1450 قوانین کو مرکز نے ختم کر دیا ہے لیکن ریاستوں کی طرف سے صرف 75 قوانین ختم کئے گئے ہیں۔
مسٹر مودی نے زیر سماعت قیدیوں کی حالتِ زار کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں تقریباً 3.5 لاکھ قیدی ایسے ہیں جن کے مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر غریب یا عام لوگ ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’میں تمام وزرائے اعلیٰ، ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز سے اپیل کروں گا کہ وہ انسانی جذبات اور قانون کی بنیاد پر ان معاملات کو ترجیح دیں۔‘‘
اس تناظر میں مسٹر مودی نے کہا کہ ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی ہوتی ہے جو اس طرح کے معاملات کا جائزہ لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک ممکن ہو، زیر سماعت قیدیوں کو ضمانت پر رہا کرنے پر غور کیا جاسکتا ہے۔
مسٹر مودی نےعدالتوں میں مقامی زبانوں کے فروغ پر زور دیتے ہوئے کہا، “اس سے ملک کے عام شہریوں کا نظام انصاف میں اعتماد بڑھے گا اور وہ اس سے جڑے ہوئے محسوس کریں گے۔” انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک میں سوراج کی بنیاد انصاف ہے۔ انصاف عوام کی زبان میں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ زبان سماجی انصاف کا مسئلہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زبان کی وجہ سے عدالتی فیصلوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے عام لوگ عدالتوں کے فیصلوں اور حکومتی احکامات میں فرق نہیں کر پاتے۔
مسٹر مودی نے کہا، ’’سماجی انصاف کے لیے عدلیہ کے ترازو تک جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، کئی بار زبان بھی سماجی انصاف کا ذریعہ ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ بہت سی ریاستوں نے مادری زبان میں تکنیکی اور طبی تعلیم فراہم کرنے کی پہل کی ہے۔
مسٹر مودی نےعدلیہ میں ٹکنالوجی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، “حکومت ہند بھی عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کو ڈیجیٹل انڈیا مشن کا ایک لازمی حصہ سمجھتی ہے۔” انہوں نے کہا ای – عدالت منصوبوں کو آج ایک مہم کی طرح نافذ کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم نےہندوستان میں ہو رہے ڈیجیٹل انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے شہروں اور یہاں تک کہ دیہاتوں میں بھی ڈیجیٹل لین دینا عام ہو گیا ہے۔ دنیا کے تمام ڈیجیٹل لین دین میں سے 40 فیصد لین دین ہندوستان میں ہوئے۔ اسی تناظر میں انہوں نے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی کے مطابق قانونی کورسز میں نئے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ آج کل بہت سے ممالک کی لاء یونیورسٹیوں میں بلاک چین، الیکٹرانک ڈسکوری، سائبر سکیورٹی، روبوٹکس، آرٹیفیشل کلاؤڈ اور بائیو ایتھکس جیسے مضامین پڑھائے جانے لگےہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہمارے ملک میں بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق قانونی تعلیم ہو۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں معاملات کے تصفیہ کے لئے ثالثی اہم ہے، ملک میں ثالثی کے ذریعہ اختلافات کو ختم کرنے کی پرانی روایت ہے۔ یہ انصاف کا ایک مختلف انسانی تصور ہے اور یہ روایت آج بھی ملک میں جاری ہے۔ ملک نے ان روایات کو کھویا نہیں ہے، ہمیں انہیں مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ثالثی کے ذریعے انصاف سستا اور قابل رسائی ہوتا ہے اور بروقت ملتا ہے۔ اس سے انسانی رشتوں کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔
مسٹر مودی نےپارلیمنٹ میں پیش کئے گئے ثالثی بل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان دنیا میں ثالثی کا مرکز بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی کانفرنس ہمارے آئینی حسن کی زندہ عکاسی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وزرائے اعلیٰ اور چیف جسٹسز کی یہ کانفرنس ملک میں ایک موثر اوروقت کے پابند عدالتی نظام کے لئے آگے کا خاکہ پیش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے لیے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور آئی ٹی کا استعمال شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سطح پر ججوں کی اسامیوں کو پر کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اس میں ریاستوں کا بڑا رول ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک میں عدلیہ کا کردار آئین کے محافظ کا ہے اور مقننہ عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ آزادی کے امرت میں ہمیں ایک ایسے عدالتی نظام کا خواب دیکھنا چاہیے جس میں انصاف فوری اور سب کے لیے ہو۔ مجھے یقین ہے کہ آئین کی ان دو ندیوں کا یہ سنگم، ملک میں موثر اور وقت کے پابند عدالتی نظام کے مستقبل کا نقشہ تیار کرے گا۔ آزادی کے گزشتہ 75 برسوں میں عدلیہ اور ایگزیکٹو دونوں کے کردار اور ذمہ داریوں کو واضح کیا گیا ہے۔ جب بھی ضرورت پڑی دونوں کے درمیان تعلقات مسلسل اس طرح پروان چڑھے کہ ملک کو درست سمت ملتی رہی۔
انہوں نے کہا، “ہماری ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہم اپنے عدالتی نظام کو کس طرح اس قابل بنائیں کہ یہ 2047 کی امنگوں پر پورا اتر سکے۔یو این آئی