چٹان ویب مانیٹرینگ
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) نے کہا ہے کہ طالبان حکمران اپنے موجودہ اقتدار کے 10 ماہ کے دوران ماورائے عدالت قتل، تشدد، بلا قانونی جواز گرفتاریوں اور انسانیت سوز سزاؤں کے ذمہ دار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یو این اے ایم اے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی جانب سے متعدد گروہوں کو ان خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا، ہدف بنائے گئے افراد میں برطرف کی گئی حکومت سے وابستہ عہدیدار، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن اور صحافی شامل ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے دور حکمرانی میں خواتین کے حقوق بھی غصب کیے گئے ہیں۔جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ (یو این اے ایم اے) کوانسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ڈی فیکٹو حکام کو سزائیں نہ ملنے پر تحفظات ہیں۔
‘ڈی فیکٹو اتھارٹیز’ کی اصطلاح سے مراد موجودہ طالبان انتظامیہ ہے جس نے گزشتہ سال اگست میں غیر ملکی افواج کے انخلا اور منتخب حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کی حکومت سنبھالی تھی۔
دوسری جانب طالبان حکومت کے ترجمان نے رپورٹ کے مندرجات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلا جواز غیر قانونی گرفتاریوں اور ماورائے عدالت قتل کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو بھی اس طرح کی قانونی خلاف ورزیوں کا مرتکب پایا جائے گا اسے مجرم سمجھا جائے گا اور اس کے ساتھ شرعی قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔طالبان حکام ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ انتقامی حملے ان کی قیادت کی رضامندی سے نہیں ہو رہے اور انہوں نے جنگجوؤں کو ایسی کارروائیوں سے روک دیا ہے۔
طالبان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ انہوں نے اپنی صفوں سے ایسے عناصر کو نکال باہر کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے جو دی گئی ہدایات پر مکمل طور پر عمل نہیں کرتے۔اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں طالبان حکام کے اٹھائے گئے ان اقدامات کا اعتراف کیا گیا ہے جن کا مقصد بظاہر انسانی حقوق کے تحفظ کے ساتھ مسلح تشدد میں کمی ہے، بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکام ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔
یو این اے ایم اے کی رپورٹ میں خاص طور پر خلاف ورزیوں میں ملوث 2 اداروں کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں سے ایک وزارت امر بالمعروف ہے جب کہ دسرا ادارہ جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان کی جانب سے کی گئی ان خلاف ورزیوں کا شکار بننے والے سب سے زیادہ وہ لوگ تھے جو سابق حکومت اور اس کی سیکیورٹی فورسز سے وابستہ تھے۔
رپورٹ میں 160 ماورائے عدالت قتل، 178 بلا قانونی جواز گرفتاریاں اور سابق سرکاری ملازمین کے ساتھ تشدد اور ناروا سلوک کے 56 واقعات درج کیے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے 173 صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو بھی متاثر کیا، 173 میں سے 163 خلاف ورزیوں کو طالبان حکام سے منسوب کیا گیا ہے جب کہ ان خلاف ورزیوں میں 122 بلا قانونی جواز گرفتاریاں اور دھمکیوں کے 33 واقعات بھی شامل ہیں۔
یو این اے ایم اے نے اپنی رپورٹ میں خواتین کے حقوق کی پامالی پر بھی زور دیا۔
