
واری پورہ پائین تحصیل کریری سے تقریباً آدھا کلو میٹر دور کریری کا ہی ایک محلہ گراں جاتا ہے جو لگ بھگ 60 چولہوں پر مشتمل نالہ فرستہار کے کنارے آباد ہے۔یہاں کے 95 فیصد لوگ مزدوری پر ہی اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتے ہیں۔اس گاؤں میں صرف ایک ملازم ہے جو سرکاری سکول میں بحیثیت استاد کام کررہا ہے اور اس مزدور پیشہ اور غریب بستی کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی جدو جہد میں مشغول ہے تاکہ مستقبل میں یہ بچے اپنی اور اس غریب گاؤں کی نمائندگی کرسکیں۔
یہ گاؤں سیاستدانوں کی نظر سے ہمیشہ اوجھل رہا ہے اور صرف ووٹ ڈالنے کے وقت یاد کیا جاتا ہے۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی یہ گاؤں لگ بھگ ہر ضروری سہولیت سے محروم ہے۔اس گاؤں سے گزرنے والا ایک لنک روڑ جو کریری،تلگام اور دیگر دیہات کو آپس میں جوڑتا ہے سالوں کی خستہ حالی سے اپنی آپ بیتی آپ بیان کررہا ہے۔سالوں سے ووٹ ڈالنے اور سیاستدانوں کے آگے آگے چلنے والا یہ گاؤں آج بھی طبی سہولیات جیسے ڈسپنسری،ایمبولینس وغیرہ سے محروم ہے جس سے آج تک کئی قیمتی جانیں وقت پر علاج و معالجہ یا ٹریفک سہولیات بہم نہ ہونے کی صورت میں ضیاع ہوچکی ہیں۔اگرچہ یہ گاؤں ہر لحاظ سے تحصیل کریری کا ایک اٹوٹ انگ مانا جاتا ہے مگر پھر بھی کسی غلط پالسی کے تحت اسکی بجلی تحصیل پٹن کے ساتھ جبرا جوڑ کر اسے گھپ اندھیرے میں رکھا گیا ہے اور خمیازہ آج بھی یہاں کی غریب عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔بجلی کی ترسیلی لائینیں بجلی کے کھمبوں کے بجائے درختوں،دیواروں اور مکانوں کے چھتوں پر لٹکی ہوئی ہیں جس سے گاؤں میں ہر طرح کا مالی و جانی خطرہ منڈلا رہا ہے۔بجلی کا تو حال ہی برا ہے سالوں سے بجلی بہران نے یہاں کے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔بقول کسے "بجلی وقت پر آئے یا نہ آئے بجلی کا بل وقت پر ضرور آتا ہے” حالانکہ یہاں کے غریب اور مزدور پیشہ لوگ غربت کے باوجود بجلی فیس وقت پر ادا کرتے ہیں۔ہزاروں شکایات کے باوجود محکمہ بجلی کے افسران اور ملازمین ٹس سے مس نہیں ہوتے۔سیاستدان اپنی سیاست گرم کرنے میں مشغول رہتے ہیں اور ہمیشہ اس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ ہر کام کا Credit انہیں ہی ملتا رہے جس کا پورا خمیازہ اس غریب گاؤں کے مزدور و غریب طبقے اور انکے بچوں کو جو سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں کو اٹھانا پڑتا ہے۔اس سے ان کی تعلیم پر بھی بہت ہی برا اثر پڑ رہا ہے۔یہاں یہ بات رقم کرنا لازمی ہے کہ کئی سیاستدانوں کے بقول اگر کریری میں ایک Reserve Panel واری پورہ پائین کے لئے اس وقت موجود ہے جسکا وہ سالوں سے اعتراف بھی کرتے آئے ہیں تو تلگام سے موجودہ کھمبے منتقل کرکے کریری کی اس Reserve Panel سے واری پورہ پائین کو بجلی فراہم کرنے میں کیا قباحت ہورہی ہی یا اسے آج تک بحال کرنے میں انہیں کیا دقت پیش آرہی ہے جبکہ واری پورہ پائین بھی کریری کا ہی ایک حصہ یا محلہ ہے۔یہی حال یہاں کی Water Supply سکیم کا بھی ہے۔پانی بھی ملازمین کی مرضی کے مطابق ہی چلایا جاتا ہے جس سے یہاں کی خواتین کو آدھے کلو میٹر کی دوری سے نالہ فرستہار کا گندہ اور آلودہ پانی لاکر گھروں میں استعمال کرنا پڑتا ہے جس سے یہاں کے لوگوں کی صحت پر کافی برا اثر پڑتا ہے اور بزرگ و چھوٹے بچے اکثر طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں۔
یہ گاؤں تعلیمی،اقتصادی،سیاسی،سماجی،روزگار وغیرہ غرض ہر لحاظ سے پسماندہ ہونے کے باوجود بھی کئی مفاد پرستوں کی کارستانیوں اور سرکار کی عدم توجہی کی وجہ سے backward status سے آج بھی محروم ہے۔جس سے اس گاؤں کا مستقبل بھی واقعی گھپ اندھیرے میں پڑا ہوا ہے۔خاموش طبیعت،کم علمی اور مزدوری میں مگن یہاں کے لوگوں کو دیکھ دیگر گاؤں کے ٹھیکے دار اور موقعہ پرست لوگ ان کا حق مارنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔اس گاؤں کو ایک نذدیکی حلقہ کے ساتھ جوڑ کر سیاسی چیلے یہاں کی ہر سکیم کا بھرپور فائدہ اٹھاکر اپنا اور اپنے رشتہ داروں کے گھر آباد کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔
مذید کسی تاخیر اور استحصال کے یہاں کی غریب اور جفاکش عوام سرکار بلخصوص ڈپٹی کمشنر بارہمولہ محترمہ سید سحرش اصغر صاحبہ سے ہاتھ جوڑ گزارش اور پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ وہ بذات خود یہاں آکر ہماری خستہ حالی کا جائزہ لیں اور ہمارے ان کئی مطالبات کا سنگین نوٹس لے کر یہاں کی آبادی کو مذید جہنم کی زندگی سے نجات دلانے میں اپنا کلیدی رول ادا کریں اور ازراہ انسانیت اس بچھڑے،لاچار اور درماندہ گاؤں کو نقشے پر لاکر تواریخ قائم کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکریہ
