
اِس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کی ہمہ جہت ترقی کے لئے محکمہ دیہی ترقی کے تحت اربوں کھربوں روپے کی رقومات سالانہ حکومت واگذار کرتی ہے لیکن اِس کا فائدہ بے سہارا، غریب افراد کو نہیں ملتا۔ جب تک آپ محکمہ میں تعینات راشی آفیسران کو کمیشن نہیں دیتے تب تک آپ کی معذوری، بے بسی، مالی خستہ حالی، غریبی، مفلسی، لاچارگی بھی بے رحم افسران کو نہیں دکھائی دیتی۔ایک مستحق یا غریب شخص اپنا حق حاصل کرنے کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھاتا ہے لیکن یا تو وہ انصاف سے محروم ہوکر خاموش بیٹھتا ہے یا پھرحصول ِ انصاف کی خاطرسرکاری بابوؤں کی جھوٹی یقین دہانیوں اور تلخ رویوں کو سہتے سہتے ’’مرحوم ‘‘ہو جاتا ہے۔
ایک طرف سے ایل جی انتظامیہ کی جانب سے رشوت خوری اور بدعنوانی کے خلاف سختی کاشور سنائی دیتا ہے اور دوسری جانب سسٹم میں موجود کچھ سرکاری آفیسران رشوت کی دیمک بن کر سرکار کے تمام تر دعوؤں کی قلعی کھولنے میں کوئی بھی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔ ایسے کرپٹ آفیسران نے غریبوں کا جینا محال کر دیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ سسٹم میں موجود ایسے کرپٹ آفسران کی وجہ سے جہاں عام انسان کو شدید پریشانی کا سامنا رہتا ہے وہیں اُن آفیسران کا کام کاج بھی بری طرح متاثر ہوکر رہ جاتا ہے جو ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے فرائض صحیح ڈھنگ سے انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں ، کیونکہ راشی بابوؤں نے سسٹم کو اِس قدر ،بدنظمی ، بد عنوانی اور رشوت خوری سے میلا کر دیا ہے کہ ایماندارآفیسران اپنا کام کاج دیانتداری سے انجام دینے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست میں اِس وقت بھی ایسے آفیسران موجود ہیں جن کی ایمانداری و دیانتداری مثالی ہے لیکن اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ سرکاری اداروں میں سائیلان کیساتھ سرکاری بابوؤں کی جانب سے برتی جانی والی ناانصافیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کی اصل وجہ یہ ہے کہ سرکار بدعنوانی کے خلاف جو بھی مہم چلاتی ہے اُسے زمین پر عملانے میں ناکام رہ جاتی ہے،یہاں اگر ’’جموں و کشمیرگورنمنٹ شکایت سیل‘‘ کی بات کی جائے تو اِس شکایت سیل کو اگر بدعنوانی کا ایک اہم اڈہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ کوئی بھی شکایت کنندہ جب کسی آفیسرکی لاپرواہی کے خلاف اپنی شکایت درج کرتا ہے تو بدلےاُسی آفیسر کو تحقیقاتی آفیسر بنایا جاتا ہے جس آفیسر کی لاپرواہی کے خلاف شکایت کنندہ نے شکایت سیل میں اپنی شکایت درج کرائی ہوتی ہے۔ یہ تحقیقات کے نام پر اگر عوام کے ساتھ بھدا مذاق نہیں تو اور کیا ہو سکتاہے؟؟سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اِس جہاں میں ایسے کسی سرکاری آفیسریا ملازم نے جنم لیا ہے جو اپنی ہی کوتاہیوں ، لاپرواہیوں اور بدعنوانیوں کی تحقیقات کرے اور پھر ایمانداری سے تحقیقات کرکے خود ہی جج بن کر خود کو قصوروار ثابت کرے، موجودہ دور میں ایسی کوئی مثال ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہےـ یہاں تو انصاف کے مندروں سے بھی انصاف لیتے لیتےسینکڑوں قیمتی جانوں کا زیاں ہوتا ہے پھر جہاں انصاف نام کی چڑیا کو پھڑکنے نہ دیا جاتا ہو وہاں انصاف کی اُمید لگانا بے سود ہے، جب صورتحال ایسی ہو کہ دام کے بغیر کام ہونا ناممکن سی بات ہو جائے تب انصاف کی اُمیدیں باندھنا محض دل کو خوش کرنے کا ایک بہانہ ہے اور کچھ نہیں۔ لہٰذا سرکار کو چاہیے کہ وہ کسی بھی ایسی مہم کو شروع کرنے سے پہلے اُس کے فائدے اور نقصانات کا بھرپور محاسبہ کرے۔کیونکہ سرکاری کی اکثر اسکیمیں جو عوامی فلاح و بہبود کے لئےشروع کی جاتی ہیں زمینی سطح پر اُن کا ناجائز استعمال ہوتا ہے جبکہ غریب عوام کی کہیں بھی سنوائی نہیں ہوتی ، عام انسان صرف سرکاری دفاتروں کے چکر کاٹتارہتا ہے۔
دور دراز علاقوں میں غریب لوگوں کو سرکاری آفیسران کی بے رُخی اور ہٹ دھرمی کا سامنا کس طرح سے کرنا پڑرہا ہے اِس کی ایک مثال ایل جی انتظامیہ کے گوش گزار کی جا رہی ہے تاکہ زمینی سطح پر کس طرح سرکاری آفیسران سرکاری اسکیموں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے غریبوں کا استحصال کر رہے ہیں ایل جی انتظامیہ اس سے واقف ہوجائے اور غریبوں کے ساتھ ہورہے مظالم کو روکنے کیلئے لاپرواہ سرکاری آفسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائے ۔قابل ذکر ہے کہ گزشتہ روز ضلع رام بن کے گول علاقہ سے ایک دلدوز کہانی سامنے آئی ہے جس کوسن کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ محکمہ دیہی ترقی کی لاپرواہی ، بدنظمی اور بدعنوانی کا معاملہ اُس وقت سامنے آیا جب داچھن گول کے ایک غریب مفلس و معذور شخص محمد سلطان قاضی کی وفات ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق محمد سطان قاضی خود بھی معذور تھے اور جبکہ مرحو م کی اہلیہ قوت ِ بینائی سے اور بیٹا قوتِ گویائی سے محروم ہے۔مرحوم محمد سلطان قاضی سے متعلق بی ڈی سی چیئر پرسن گول شکیلہ اختر نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کے حق میں PMAYکے تحت دوبرس قبل پیسہ منظور ہوا تھا لیکن محکمہ دیہی ترقی کی لاپرواہی کی وجہ سے مرحوم کا پیسہ کسی دوسرے شخص کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کیا گیا۔جسے محکمہ متعلقہ آج دو برس گزرنے کے باجود بھی واپس نہیں لا سکا۔بی ڈی سی چیئرپرسن موصوفہ کے مطابق مرحوم انتہائی غریب شخص تھا اور مومی لفانے کے ایک شیڈ میں اپنی زندگی بسر کر رہا تھا اور PMAYکے تحت مکان اُس کا حق تھااور وہ صد فیصد مستحق بھی تھا لیکن مرحوم دو برس لگاتار بی ڈی دفتر گول کے چکر کاٹتا رہا اور سینکڑوں مرتبہ میرے پاس بھی اپنی روداد لیکر آیا لیکن بی ڈی او دفتر گول میں مرحوم کی روداد نہیں سنی گئی ، بلآخر گزشتہ برس مرحوم میرے ہمراہ ڈپٹی کمیشنر رام بن کے پاس اپنی فریاد لیکر پہنچا جہاں ڈی سی موصوف نے مرحوم محمد سلطان قاضی کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ 5روز کے اندر اندر آپ کے مکان کا پیسہ آپ کے بینک اکاونٹ میں آجائے گا لیکن ڈی سی رام بن کی یقین دہانی بھی کام نہ آئی اور محمد سلطان قاضی PMAYاسکیم کے تحت مکان بنانے کی اپنی خواہش و تمنا لئے اِس دُنیا سے کوچ کر گیا۔ شکیلہ اختر کا کہنا تھا کہ انتظامیہ اور بالخصوص محکمہ دیہی ترقی نے انتہا درجے کی لاپرواہی کا مظاہر ہ روا رکھا ہے جس وجہ سے پورے بلاک گول میں غریب لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے انھوں نےکہا کہ محکمہ متعلقہ بے لگام ہو چکا ہے اور سرکاری خزانہ کی لوٹ کھسوٹ دھڑلے سے کر رہا ہے، کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔
ای میل پتہ[email protected]:
