تحریر:ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری
ہرسال یکم مئی دنیا بھر میں لیبر ڈے (مزدوروں کا دن) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لوگوں کو اس روز مزدوروں کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ محض رسمی طور پر مزدوروں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ کر اگلے روز سے ہی مزدوروں کا استحصال شروع کر دیا جاتا ہے۔ حیرت واستعجاب ہے کہ مزدوروں کے حقوق کے علمبردار لوگ وادارے خود اپنے ماتحتوں، ملازموں، مزدوروں اور کارکنوں کا استحصال کرتے ہیں۔
اسلام محنت اور محنت کشی کو سراہتے ہوئے محنت کشوں اور مزدوروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ محنت کا مقام اور محنت کرنے کی ترغیب کے حوالے سے ارشادات ربانی ملاحظہ ہوں۔ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا، جس کی اس نے کوشش کی ہو۔( سورۃ النجم)ایک مقام پر فرمایاگیا:’’ اور دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھول۔ ( سورۃ القصص) نیز فرمایا گیا! ’’اور پھر جب نماز (جمعہ) ختم ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور پھر ﷲ کا فضل یعنی رزق تلاش کرنے لگو‘‘۔(سورۃ الجمعہ) ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔‘‘(سورۃ النساء) ’’پس تم ﷲ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجایا لایا کرو‘‘۔(سورۃ العنکبوت)
انسان دنیا میں بہتر سے بہتر زندگی گزارنے، ہر طرح کے عیش و آرام اور دنیاوی آسائشوں کے حصول کی خاطر ہمہ وقت مصروف عمل رہتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مادی فوائد حاصل کر لے، تاکہ بیوی بچوں والدین، بہن بھائیوں ،خویش و اقارب وغیرہ بلند معیاری زندگی حاصل کرسکیں۔ ان خواہشات کی تکمیل ظاہری طو ر پرمحنت اور کسب معاش کے بغیر ممکن نہیں ہوتی، چنانچہ ہر شخص کسی نہ کسی انداز میں زندگی گزارنے اورمن چاہی سہولیات کے حصول میں سرگرداں رہتا ہے اور بعض نفس پرست اس سلسلے میں تمام دینی شرعی، اخلاقی، قانونی حدود بھی پھلانگ کرسب کچھ حاصل کرنے کی سعی و جہد میں جتے رہتے ہیں اور بس دنیا ہی کے ہو کررہ جاتے ہیں ‘ جبکہ سلیم الفطرت بالخصوص اہل ایمان دنیاوی ضروریات کے لئے کسب حلال کو ترجیح د یتے ہیں، وہ ہر حال میں پاکیزہ اور حلال روزی کمانے کو ہی پسند کرتے ہیں اور ایسے پاک باز لوگوں کے مال میں اللہ تعالیٰ خیر و برکت عطا فرماتا اور انہیں اطمینان قلب نصیب فرما دیتا ہے۔
ہادی عالم ‘ نبی رحمت‘ سرکار دو عالمﷺ نے محنت کرنے والوں کو جو جاں فشانی سے رزق حلال کماتے ہیں، ﷲ کا دوست و محبوب قرار دیا ہے اور خود آپ ﷺ نے محنت کرنے والے ہاتھوں کو چوم کر تاقیامت انہیں عظمت عطا فرمائی اور محنت کشوں کے حقوق کو ان الفاظ سے سند عطا فرمائی’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو‘‘۔( بیہقی‘ شعب الایمان)
آپ ﷺ کے چند ارشادات گرامی ملاحظہ ہوں۔٭’’رزق حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد سب سے بڑا فریضہ ہے‘‘۔ (طبرانی)٭’’رزق زمین کے پوشیدہ خزانوں میں تلاش کرو‘‘۔ ( طبرانی‘المعجم الاوسط)٭ ’’کسی شخص نے کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے کماکر کھائے‘ ﷲ کے نبی حضرت دائودؑ اپنے ہاتھوں سے کما کر کھایا کرتے تھے‘‘ (الجامع الصحیح)٭ ’’بعض گناہ ایسے ہیں جنہیں سوائے رزق حلال اورطلب معیشت کے اور کوئی چیز نہیں دور کرتی‘‘۔(طبرانی)٭ ’’بے شک ﷲ محنت کرنے والے مومن کو محبوب رکھتا ہے‘‘۔(طبرانی)٭’’بہترین کمائی مزدور کی کمائی ہے بشرط یہ کہ کام خلوص اور خیرخواہی سے کرے‘‘۔ (دیلمی‘ الفردوس)٭’’فجر کی نماز سے لے کر طلوع شمس تک رزق کی جدوجہد کیے بغیر نیند نہ کرو‘‘۔(عسقلانی‘القول المسدود)
رسول پاک ﷺ سے منقول کئی احادیث مبارکہ میں اس کمائی کی سب سے زیادہ تعریف مروی ہے جسے انسان اپنے ہاتھ کے ہنر اور محنت ومزدوری سے حاصل کرتا ہے ،بیشتر انبیاء اپنے ہاتھ کے ہنر سے کسب معاش فرماتے تھے ، حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت زکریاعلیہ السلام نجار تھے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر کئی انبیاء نے بکریاں چرائی تھیں ، حضرت داودعلیہ السلام لوہار تھے ، حضرت ایوب علیہ السلام کپڑے کے کاروباری تھے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ سوت کاتا کرتے تھے ،اور رسول اکرمﷺ چمڑے اور کپڑے کا کاروبار فرماتے تھے۔
حضرت مقدام بن معدیکرب سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ کسی شخص نے آج تک اپنے ہاتھ کی کمائی ہوئی غذا سے زیادہ بہتر غذا نہیں کھائی ہے ، اور اللہ کے نبی حضرت داودعلیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے‘‘(صحیح بخاری)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاکیزہ کو ہی قبول کرتا ہے ، اس نے اس معاملے میں مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جوکہ اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے ،پھر آپ نے ایسے شخص کا تذکرہ فرمایا جو لمبا سفر(حج) کرتا ہے ، پریشان حال اور غبار آلود جسم کے ساتھ (میدان عرفات میں) کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھوں کو دعا کے لئے بلند کرکے کہتا ہے کہ اے میرے رب! اے میرے پالنہار! لیکن اس کی دعا کہاں سے قبول ہوگی ،جب کہ اس کا کھانا ، پینا ، لباس اور غذا سب حرام کا ہے ۔(صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکویہ فرماتے ہوئے سنا ’’ تم میں سے کوئی صبح صبح جنگل جائے ، اور اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا ایک گٹھا لاد لائے اور اسے بیچ کر اس سے صدقہ وخیرات بھی کرے اور لوگوں کے مال سے بے پروا ہوجائے تو یہ اس کے حق میں اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ وہ کسی سے بھیک مانگے چاہے، وہ اسے دے یا نہ دے‘‘
اسلام میں جہاں محنت کی عظمت اورکسبِ حلال کی اہمیت بیان کی گئی ہے،وہاں حرام مال اور ناجائز آمدنی سے حاصل ہونے والے رزق اور مال و جائیداد کو انسان کی تباہی ،اس کی نیکیوں کی بربادی اور اس کے تباہ کن اثرات کو بھی پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے،چناں چہ کسب ِ حلال کو ایک عظیم نیکی ،باعثِ اجرو ثواب عمل قرار دیا گیااور دوسری جانب ناجائز اور حرام مال کو وبال اور گناہ کا بنیادی سبب قرار دیا گیا۔ جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ بندۂ مومن کی زندگی میں کسبِ حلال کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
