تحریر:مدثر احمد قاسمی
معاشرے میں خوشگوار ماحول پیدا کرنے اور کبھی تفریح طبع کے لئےمزاح و مذاق جو ایک حد میں ہو قابل اعتراض نہیں بلکہ ضروری ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ اگر وہ کسی ایک کام میں مستقل لگا رہے تو تھک جاتا ہے اور اس کا کام بھی متاثر ہو جاتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے کچھ اور مقاصد ہیں جس کی وجہ سے شریعت اسلامیہ میں مزاح و مذاق کو حدود و قیود کے ساتھ جائز قرار دیا گیاہے۔ خود صاحب شریعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عملاً کچھ موقعوں پر کیا ہے۔ مثال کے طور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سواری کے لئے جانور مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مزاحاً) فرمایا: میں تجھے اُونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا۔ اُس نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! میں اُونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اُونٹنیاں ہی تو اُونٹ پیدا کرتی ہیں (لہٰذا ہر اُونٹ اُونٹنی کا بچہ ہوا)۔‘‘(ترمذی)
یہاں اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ اگر ہمارے مزاج میں سختی ہے اور ہم لوگوں سےمزاح و مذاق اور گھل مل کر رہنا پسند نہیں کرتے تو یہ ہمارے لئےعیب کی بات ہے؛ کیونکہ اس صورت میں ہم دوسروں کے لئےنافع نہیں بن سکتے اور ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہوسکتا۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہم مثبت سوچ اور طرز عمل کے ساتھ وقتاً فوقتاًمزاح و مذاق تو کریں لیکن اس میں اس حد تک آگے نہ بڑھ جائیں کہ وہ دوسروں کے لئےباعث اذیت بن جائے؛ کیونکہ شریعت نے ہمیں اس باب میں حد سے تجاوز کرنے سے روکا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے:
’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں ) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں ) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں ) سے بہتر ہوں ، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں ۔‘‘ (الحجرات:۱۱)
زیر بحث موضوع کا ایک اہم پہلو جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے یہ ہے کہ یہاں جس مزاح و مذاق کی بات ہورہی ہے وہ عام حالات میں اپنے شناسا، دوست اور رشتے داروں کے تعلق سے ہے۔ اس مزاح و مذاق کا اطلاق قطعاً ان لوگوں پر نہیں ہوگا جو ذہنی طور پر کمزور ہیں اور یوں ہی ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں ۔ کیونکہ ان لوگوں سے الگ الگ انداز سے مذاق کرنا اور انہیں مزاحیہ ناموں سے پکارنا درست نہیں کیونکہ یہ از راہ مزاح نہیں ہوتا بلکہ انہیں تنگ کرنے کے لئےہوتا ہے جس کو کسی بھی صورت میں صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ہم جب اپنے شناسا سے مزاح و مذاق کرتے ہیں تو اس کے لئےبھی موقع اور محل کا موزوں ہونا ضروری ہے؛ کیونکہ بسا اوقات بے موقع اور بے محل مذاق ماحول کو خوشگوار بنانے کے بجائے تلخ بنا دیتے ہیں اورمزاح و مذاق کا مقصد اصلی فوت ہوجاتا ہے۔اسی طرح ہمیں اس معاملے میں مدمقابل کے مزاج کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ ہمارے مثبت عمل کا منفی ردعمل سامنے آجائے۔ اسی طرح مزاح و مذاق کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم جھوٹ کا سہارا لے کر لوگوں کو خوش کریں اور انہیں ہنسائیں ۔ ایسا کرنے والے لوگ نبی اکرم ﷺکی اس حدیث کو ضرور دھیان میں رکھیں : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! آپؐ ہم سے مزاح فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میں (مزاح میں بھی) سچی بات کے سوا کچھ نہیں کہتا۔‘‘ (الادب المفرد)
خلاصہ یہ ہے کہ ہم بالکل خشک مزاج بھی نہ بنیں اور مذاق ومزاح میں اس قدر بھی آگے نہ بڑھ جائیں کہ حدود شریعت سے باہر نکل جائیں اور دوسروں کے لئےباعث اذیت بن جائیں ۔ اس سلسلے میں بھی حدیث میں ہمارے لئےصاف ہدایت موجود ہے:’’اپنے بھائی کو ہنسی مذاق کر کے ناراض نہ کرو اور اسے اذیت نہ دو، اور نہ اس سے وعدہ کر کے وعدہ خلافی کرو۔‘‘ (ترمذی)
