تحریر:جی ایم بٹ
جب سے سرکار نے اپنے الیکشن منشور پر عمل شروع کیا اور لوگوں سے کئے گئے وعدے پورا کرنے کی کوشش کی کئی حلقے پریشان دکھائی دیتے ہیں ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی اپنی ایک تہذیب اور ثقافت ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے قدیم اور مضبوط ثقافت ہے ۔ حکومت اس کو بحال کرنے کا عوام سے وعدہ کرچکی ہے ۔ لوگوں نے دوسرے تمام نظریات کو مسترد کیا ۔ سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دینے کے بجائے ہندو احیائے نو کی طاقتوں کو اپنا آشیرباد دیا ۔ حکومت اپنے وعدوں سے مکرنے کے بجائے ان پر عمل کرنا چاہتی ہے ۔ یہ سرکار کی خواہش بھی ہے اور اس کی ذمہ داری بھی ۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے الیکشن مینی فیسٹو کو ایسی دستاویز سمجھا جاتا تھا جو محض اقتدار میں آنے کا کھلونا ہے ۔ لوگوں سے بڑے بڑے وعدے کئے جاتے ۔ الیکشن ختم ہوتے ہی یہ باب بند کیا جاتا تھا اور نئی ضرورتوں کے مطابق عمل شروع کیا جاتا ۔ بی جے پی کی سرکار نے پہلی بار یہ سکھایا کہ جو کچھ الیکشن کے دوران عوام کے سامنے کہا گیا وہی حکومت کا پروگرام ہونا چاہئے ۔ سرکار نے پہلے رام مندر تعمیر کرنے کا کام انجام دیا ۔ بعد میں کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرکے پورے ملک کے لئے ایک پرچم اور ایک آئین کا وعدہ پورا کیا ۔ اس دوران گاؤ کشی پر پابندی اور مشترکہ سیول کوڈ پر بھی عمل در آمد شروع کیا گیا ۔ مسلمانوں نے ہر ایسے موقعے پر بے قراری دکھائی ۔ علما کونسل نے بیانات جاری کئے ۔ لیکن حکومت نے اپنی پالیسی بدلنے سے انکار کیا اور لوگوں سے کئے گئے تمام وعدوں کو عملانے کا کام جاری رکھا ۔ مسلمان اس پر خوش ہیں کہ نہیں ۔ اس کی کسی کے سامنے کوئی اہمیت نہیں ۔ بس اتنا کافی ہے کہ حکومت کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ۔ پرانی حکومتوں کو اس پر آڑے ہاتھوں لیا جاتا تھا ۔ بلکہ سب سے زیادہ مسلمان ہی اس پر چیختے چلاتے تھے کہ حکومت جو وعدے الیکشن مہم کے دوران عوام سے کرتی ہے بعد میں ان پر عمل نہیں ہوتا ۔ سیکولر جماعتوں کی شدید مخالفت کی جاتی کہ مسلمانوں سے ووٹ لے کر ان سے روگردانی کی جاتی ہے ۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ حکومت اپنے وعدوں پر عمل کررہی ہے ۔ اس عمل سے یقینی طور کچھ لوگوں کو فائدہ اور کئی ایک کو نقصان ہوگا ۔ یہ سب کے لئے پسندیدہ عمل نہیں ہوسکتا ہے ۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ عوامی اکثریت نے سیکولر ایجنڈا مسترد کرکے ہندوتواکے لئے اپنا ووٹ دیا ۔ ووٹ کی قدر یہی ہے کہ اس کے لئے کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں ۔ اس کی مخالفت کے بجائے اس کی حمایت کی جانی چاہئے ۔ موجودہ سرکار نے مسلمانوں کو سبز باغ دکھا کر ان سے ووٹ لینے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی ۔ بلکہ ان سے واضح کیا گیا کہ 1947 میں ملک کی تقسیم کے بعد ہندوستان ہر کسی کی لونڈی نہیں ۔ بلکہ ہندو اکثریت کا ملک ہے ۔ یہاں جمہوری تقاضوں کی مطابق اکثریتی طبقے کی اجارہ داری قائم ہوگی ۔ مسلمانوں کو یہ بات قبول نہیں ۔ لیکن ہر جمہوری ملک میں عملی طور یہی ہوتا ہے ۔ جمہوریت کی یہی روح ہے ۔ جس جمہوریت کا ملک پر راج ہے وہ اسی کی روا دار ہے کہ اکثریتی طبقے کی آرا کو قبول کیا جائے ۔ رہا ملکی مفادتو یہ طے کرنا حکومت کا کام ہے ۔
مسلمانوں کی یہ منطق عجیب ہے کہ مذہبی منافرت انہیں قبول نہیں ۔ لیکن اندرون خانہ مسلکی تنازعات ان کا اصل دین ہے ۔ مذہب کے نام اور تحفظ پر اٹھائے جانے والے سرکاری اقدامات ماننے سے انکاری ہیں ۔ لیکن مسلکی منافرت پر مر مٹنے کو تیار ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ دیوبندی حلقے جو ساری عمر مسلکی تضاد کو ہوا دیتے رہے ۔ اسی بنیاد پر جنت جہنم بانٹتے رہے ۔ سرکار کی مذہبی عصبیت کے خلاف صف آرا ہیں ۔ ساری عمر مسلکی منافرت پر پلتے رہے ۔ اس کو بڑھاوا دینے کے لئے سب سے زیادہ سرمایہ خرچ کرتے رہے ۔ آج حکومت کو اس بنیاد پر نالائق قرار دیتے ہیں کہ اس کی پالیسی مذہبی عصبیت پر قائم ہے ۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ خود مسلمانوں کے تمام علما اور لیڈر اسی وجہ سے بحال ہیں کہ یہ امت کو کئی گروہوں میں تقسیم کرکے ان کے درمیان سرپھٹول میں مشغول ہے ۔ مسلمانوں کے اندر مسلکی منافرت ختم ہوجائے تو ان کا استحصال کرنے والے علما کا رول ختم ہوجائے گا ۔ یہ صرف دیوبندی علما کا کردار نہیں ۔ شروعات تو بلا شک وہیں سے ہوئی ۔ لیکن اس پر سب سے زیادہ تنازعات اور لڑائی جھگڑا بریلویوں کا کام ہے ۔ اب اللہ والے کہلانے والے بھی اس کار خیر کو بڑی خوبی سے انجام دے رہے ہیں ۔ انہوں نے بیرونی خطرات کو بے ضرر قرار دے کر اندرونی منافرت پھیلانے کا کام بڑی خوبی سے انجام دیا ۔ اس گروہ نے عالم گیر سطح پر نوجوانوں کو خیر کے تمام کاموں کو خیر باد کہنے اور مخصوص طرز زندگی اپنانے پر جہاد کرنے کی طرف راغب کیا ۔ اب ہر وہ مسلمان جو ان کا حلیہ اختیار کرنے کو تیار نہیں اسلام سے خارج ہے ۔ اس کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں اور گشت و چلوں کے بغیر کوئی عبادت ہرگز عبادت نہیں ۔ یہ سب تنازعات ، لڑائی جھگڑے اور نفرتیں اسلام کا حصہ بنادی گئی ہیں ۔ یہی اسلام کی اصل خدمت ہے ۔ لیکن ہندو ، سکھ یا صلیبی اپنے مذاہب کے لئے یہ چیز اختیار کریں تو اس کو مسترد کرنا ضروری ہے ۔ یہ عجیب منطق ہے کہ ہر مسلمان کو اپنے مسلک کا پرچار کرنے اور دوسرے مسلکوں کے خلاف زہر اگلنے کا استحقاق ہے ۔ لیکن دوسرے مذاہب والوں کا اس کو ہر گز کوئی حق نہیں ۔ شیعہ سنی منافرت عین جہاد ہے ۔ حنفی اہل حدیث رقابت عین اسلام ہے ۔ بریلوی دیوبندی جھگڑے جہاد اکبر ہے ۔ یہ سب قابل قبول ۔ لیکن اس دائرے سے باہر کسی کی منافرت قبول نہیں ۔خیال رہے دنیا بدل چکی ہے ۔ ایسی منافقت کہیں بھی قابل قبول نہیں ۔ اس پر تجارت کے مراکز عنقریب لپیٹ دئے جائیں گے ۔