از : پی ڈینیئل
بدعنوانی سے پاک معاشرے کی مہم کے ایک حصے کے طور پر، حکومت ہند کی طرف سے انسداد بدعنوانی کے فریم ورک کو مضبوط کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ملک کے اعلیٰ دیانت داری والے ادارے کے طور پر، سنٹرل ویجیلنس کمیشن ان میں سے زیادہ تر اقدامات میں پیش پیش رہا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران، بدعنوانی سے متعلق کاموں میں سزا دینے اوربدعنوانی سے متعلق کاموں کو بے نقاب کرنے جیسے اقدامات کی بجائے انسدادی اقدامات کو ادارہ جاتی شکل دینے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ایسے اقدامات میں گورننس کو جدید بنانا، اطلاعاتی ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھانا، طریقہ کار کی ری انجینئرنگ اور چیک اینڈ بیلنس کو منظم کرنے جیسی کارروائیاں شامل ہیں ۔تاہم، پیغام کو اندرونی بنانے اور نافذ کرنے میں شہریوں کی شرکت اور اجتماعی قوت ارادی ، بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹالرنس سے متعلق تمام اقدامات کا مرکز ہونا چاہیے۔
سنٹرل ویجیلنس کمیشن، بدعنوانی کے خلاف اپنی لڑائی میں، تمام حصص داروں کو شامل کرنے اور عوامی نظم و نسق میں شفافیت اور دیانتداری کو فروغ دینے کی خاطر اپنے عزم کا اعادہ کرنے کے لیے شراکتی چوکسی کے طریقہ کار کا استعمال کرتا ہے۔ ویجیلنس بیداری ہفتہ، جو اس مقصد کے لیے، ایک بڑے پیمانے والا سالانہ آؤٹ ریچ اقدام ہے، اس سال 30 اکتوبر سے 5 نومبر تک منایا جا رہا ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران، ویجیلنس آگاہی ہفتہ میں سرکاری اور غیر سرکاری حصص داروں نے یکساں طور پر پرجوش شرکت کی ہےاوراسے اپنی حمایت دی ہے۔ تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ سیمینار، بیداری گرام سبھا کا انعقاد کریں اور زندگی کے تمام شعبوں میں دیانت داری کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے پروگرام شروع کریں۔ ای-انٹیگریٹی حلف اب تک 16 ملین سے زیادہ شہریوں اور 250,000 سے زیادہ تنظیموں کے ذریعے لیا جا چکا ہے۔
یہ اقدامات بدعنوانی کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کے آرٹیکل 13 کی روح سے بھی ہم آہنگ ہیں جو کہ ‘‘…معاشرے کی شراکت داری کا التزام کرتا ہےاور عوامی شعبے سے باہر افراد اور گروہوں، جیسے سول سوسائٹی، غیر سرکاری تنظیموں اور کمیونٹی پر مبنی تنظیموں کو فروغ دیتا ہے تاکہ بدعنوانی کی روک تھام اور اس کے خلاف جنگ اور بدعنوانی کے وجود، اسباب اور کمیت اور اس سے لاحق خطرات کے بارے میں عوام میں شعور بیدار کیا جاسکے۔
ایک ایک ہفتہ پرمحیط ، تین ماہ پر مشتمل ایک مہم شروع کی گئی ہےجس میں چھ انسدادی احتیاطی تدابیر کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں، جنہیں تنظیموں کے کام کرنے کے لیے فوکس ایریاز کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ ان میں وسل بلور کی شکایات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا، صلاحیت سازی کے پروگرام، نظامی بہتری کے اقدامات، شکایات کو نمٹانے کے لیے آئی ٹی کا فائدہ اٹھانا، سرکلر کو اپ ڈیٹ کرنا، رہنما خطوط، مینوئلز اور زیر التواء شکایات کو نمٹانا شامل ہیں۔
یہ انسدادی اقدامات طریقہ کار کو بہتر بنانے اور نظامی تبدیلی لانے پر زور دینے کے لیے کیے گئے ہیں۔اس کا مقصد گورننس میں ایسی تبدیلی لانا ہے جس سے حکومتی کام کاج میں شفافیت اور جوابدہی میں اضافہ ہو گا۔
2022 میں، سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) کے تعاون سے، سنٹرل ویجیلنس کمیشن کے ذریعہ ملک گیر مضمون نویسی کا مقابلہ منعقد ہوا۔ ملک بھر کے دس ہزار سے زائد اسکولوں کے تقریباً 7.6 لاکھ طلباء نے اس میں حصہ لیا۔
کمیشن کا کمپلینٹ مینجمنٹ پورٹل، جس کا افتتاح پچھلے سال وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے کیا تھا، بدعنوانی کے خلاف جنگ میں شہریوں کی شمولیت کو اجاگر کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ اس پورٹل کے ذریعے، کوئی بھی شہری جس نے مرکزی حکومت کے لیے کام کرنے والے کسی اہلکار کے ذریعے غلط کام کرتے دیکھا ہے، وہ براہ راست کمیشن کے پاس شکایت درج کرا سکتا ہے۔ اگر شہری، کسی بھی وجہ سے، اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا ہے، تو وہ کمیشن کے پاس براہ راست ایک وہسل بلور شکایت درج کر سکتا ہے، جس سے اعلیٰ ادارے کو عوام تک رسائی حاصل ہو گی۔
ہندوستان میں، وہسل بلوئنگ کے عمل کو عوامی مفاد میں انکشاف اور مخبروں کے تحفظ (پی آئی ڈی پی آئی) کی قرارداد سے قانونی حمایت حاصل ہے۔ قرارداد کے ذریعے، شکایت کنندہ کی شناخت کو خفیہ رکھا جاتا ہےاور اگر وہ تحفظ حاصل کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، تو کمیشن ضروری اقدامات کر سکتا ہے۔ اس سے شہریوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ اپنے پاس موجود کسی بھی معلومات کے ساتھ آگے آئیں جبکہ اس سے گمنام یا فرضی شکایات درج کرانے کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔
یہ اقدامات بدعنوانی کو مسترد کرنے کے کلچر کے ساتھ کمیونٹیز اور معاشروں کی تعمیر کی وکالت کرتے ہیں۔ آخر کار، اگرچہ سنٹرل ویجیلنس کمیشن اور دیگر سرکاری ادارے بدعنوانی کی روک تھام کرنے اور اس سے لڑنے کے لئےمسلسل سرگرم ہیں تاہم حقیقی طاقت شہریوں کے ہاتھ میں ہے ۔ ایک حقیقی اورپائیدار تبدیلی کے لیے شہریوں کو مسلسل تعاون دیا جانا چاہئے اورانہیں بااختیار بنایا جانا چاہیے۔