از:جہاں زیب بٹ
وادی کشمیر کی تین پارلیمانی نشستوں پر بھاجپا امیدواروں کی غیر موجودگی کے باوجود انوکھا انتخابی معرکہ چل رہا ہےاور وہ علا قاءی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف شدید اور سنگین الزامات عا ءید کر رہی ہیں جو کل تک گپکار الاءنس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہویے دفعہ 370کی واپسی کو بڑا مدعا گردانتی تھیں۔این سی ،پی ڈی پی, پی سی اور اپنی پارٹی کسی بڑے عوامی مدعے پر متحد نہیں ہیں ۔این سی تمام مخالفین کو بھاجپا سے نتھی کررہی ہے کہ اسے جینے کا یہی اک سہارا نظر آرہا ہے ۔پی ڈی پی نے سود سمیت کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو واپس لانے کی باتیں کرنا فی الحال چھو ڑدیا ھے مگر وہ بھی بھاجپا کو نشانے پر رکھ کر اس زعم میں مبتلا نظر آتی ہے کہ کشمیری اس کو نجات دہندہ سمجھ کر سرخ رو کریں گے۔پی سی اور اپنی پارٹی روایتی سیاستدانوں کو کشمیریوں کے مصاءب کا ذمہ دار گردانتی ہیں اور اب تک بہے خون اور سابق حکمرانوں کی زیا دتیوں کا حساب لینے کے ساتھ ساتھ جیلوں میں مقید جوانوں کی رہائی اورلوگوں پولیس ویرفکیشن کا مسلہ حل کروانے کا وعدہ کررہی ہیں۔
علاقائی جماعتوں کی شدیدانتخابی دنگل ،رسہ کشی ،الزامات اور جوابی الزامات اور قسمیں وعدوں سے کس کو کتنا فائدہ ملے گا اس بارے یقین کے ساتھ کوءی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے کیو نکہ پا رلیمانی الیکشن مقامی طور بہت زیادہ اہمیت کا حامل گردانا نہیں جاتا۔دوم کشمیر ایک عرصے سے الیکشن بایکاٹ کے بے ہودہ موسم کا شکار رہا ہے ۔سوم 2019میں کشمیر کے حوالے سے مرکزی سرکار نے بہت بڑے فیصلے کیے اور غیر معمولی آءینی اقدامات اٹھائے ۔لہزاعلاقاءی جماعتوں کی انتخابی کامیابی اور ناکامی کےحوالے سے ووٹنگ کی شرح انتہائی اہمیتِ کا حامل فیکٹر ہوگا۔وادی میں پہلے مر حلے پر سرینگر انتخا پی حلقے میں 13مءی کو چناؤ ہو نا طے ہے’یہاں این سی کے آغا روح اللہ،پی ڈی پی کےوحید الرحمن پرہ اور اپنی پارٹی کے اشرف میر کے درمیا ن تکونی مقابلہ ہے ۔باور کیا جا تا ہے کہ شہر سرینگر میں کم پیما نے کی پولنگ ہوگی۔عمر عبداللہ کا سرینگر سے بھاگ نکلنا این سے کے لیے نیک شگون نہیں ہے ۔پلوامہ میں محمد خلیل بند اور محی الدین میر کا اثر و رسوخ ضرور ھے مگر مسلہ یہ ہے کہ آغا روح اللہ یہا ں کےووٹروں کے لیے اجنبی اور پرایہ ھے۔وحید پرہ سیاسی افق پر تو ابھر رہا ہے۔وہ بھی قیدیو ں وغیرہ کا مدعا اٹھارہا ہے تاکہ ممنوعہ جماعت اسلامی وغیرہ کا ووٹ مل سکے لیکن تا حال ایسا کوءی اشارہ نہیں کہ وہ اپنے حق میں بڑی عوامی لہر پیرا کر نے کا۔معرکہ سرکرنے میں کامیاب ہو گا۔اشرف میر کواشفاق جبار اور پی سی کی حمایت تو ملی ہے لیکن زمینی سطح پر اس کا نفاز ہونے کے بارے میں کوئی ضمانت نہیں ھے ۔ممکنہ طور پرکم پیمانے کی ووٹنگ کے درمیان سرینگر حلقے میں شیعہ برادری کاووٹ نتائج پر اثر انداز ہوگا۔
بارہ مولہ نشست پر عمر عبداللہ اور سجاد لون کے مابین براہ راست مقابلہ رہے گا ۔سجاد لون کی پوزیشن نسبتاً مستحکم ہے ۔ان کی ایک اچھی خاصی سیاسی کانسچو نسی ھے۔پٹن سے عمران رضا انصاری اور حاجن سے یاسر ریشی کی حمایت سود مند ثابت ہوگی پھر لون فیملی کا بانڑی پورہ سے کرناہ اور کپوارہ تک وسیع حلقہ اثر ھے۔اپنی پارٹی کا سپورٹ اضافی فاید ے کا حامل ھے۔ البتہ انجینیر رشید کی میدان میں موجودگی سےسجاد لون کےووٹ اکاؤنٹ پر منفی اثر پڑے بناء نہیں رہ سکتا۔این سی کا ووٹ بینک اپنی جگہ مگر عمر عبداللہ کو ماضی میں گانرربل اور سونہ وار میں جس طرح شکست کھانا پڑی اس کا اب کی بار بارہمو لہ میں اعادہ ہو نا خارج از امکان نہیں ھے۔
اننت ناگ پونچھ راجوری میں میاں الطاف،محبوبہ مفتی اور ظفر اقبال منہاس کے درمیان تکونی مقابلہ ہے۔محبوبہ مفتی کے لیے یہاں سے جیت درج کرنا وقار کا مسلہ بن چکا ہے کیوں کہ عمر عبداللہ نے پی ڈی پی کے لیے کوءی نشست نہ چھو ڑتے ہویے دعویٰ کیا ھے کہ پی ڈی پی کی عوامی ساکھ اس قابل نہیں ھے کہ اس کے ساتھ نشست بٹوارہ کیا جائے ۔محبوبہ ایک تجربہ کارفا ءیٹر اپنی جگہ مگر اس بار پلوامہ شوپیان سرینگر نشست میں ھے اور پونچھ راجوری سے وہ میدان مارنے کی ذیادہ امید نہیں کرسکتی۔ما ضی کی طرح اس کو جماعت ووٹ ملے بھی مگر پارلیمانی سطح پریہ فیصلہ کن فیکٹر ثابت نہیں ہو سکتا۔اس نشست میں کانگریس کا ووٹ اہمیت کاحامل ھے۔کانگریس کے ساتھ این سی کا انتخابی اتحاد تو بن چکا ہے مگر زمینی سطح پر اس کے مکمل نفاذ کی کوءی ضمانت نہیں ھے۔کل ملاکر دیکھا جاۓ تو میاں الطاف مضبو ط وکٹ پر کھڑا ھے۔
