از:فاروق بانڈے
2024 کے پارلیمانی انتخابات میں اب تک تین دور گزر چکے ہیں۔ جموں کشمیر کی پانچ سیٹوں میں سے پہلے دو مرحلے میں جموں اور ادھمپور کی سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی۔ انتخابات کے تیسرے مرحلے میں اننت ناگ۔ راجوری سیٹ پر ووٹنگ ہونی تھی مگر موسم میں خرابی اور مغل روڈ کے بند ہونے کی وجہ سے ووٹنگ ملتوی کی گئی اور اب وہاں چھٹے مرحلے میں 25 مئی کو ووٹنگ ہوگی۔ ان انتخابات کے چوتھے مرحلے میں سرینگر پارلیمانی حلقے سے سوموار 13 مئی کو ووٹنگ ہونے جارہی ہے۔ سرینگرپارلیمانی انتخابات میں 17,43,845ووٹر ان 24 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں۔مجموعی طور پر2لاکھ سے زیادہ پہلی بار ووٹ دینے والے ہیں، جو 18سے 20سال کی عمر کے گروپ میں ہیں اور 13 مئی کو پہلی بار اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ان ووٹران میں 8,73,426 مرد اور 8,70,368 خواتین ہیں جبکہ 51 دیگر ان ہیں۔سرینگر پارلیمانی حلقے میں نئی حد بندی کے بعد 19اسمبلی حلقے شامل کئے گئے ہیں جن میں ضلع گاندربل میں کنگن اور گاندربل، ضلع سرینگر میں حضرت بل، خانیار، حبہ کدل، لال چوک، چھانہ پورہ، زیڈی بل، عیدگاہ، سنٹرل شالہٹینگ، ضلع بڈگام میں خانصاحب، چرار شریف،چاڈورہ، ضلع پلوامہ میں پانپور،ترال، پلوامہ، راجپورہ اور ضلع شوپیاں میں زینہ پورہ اور شوپیان شامل ہیں۔ سرینگر پارلیمانی نشست کو1967میں قائم کیا گیا تھا۔ اگر چہ کہ ملک میں 2024 کے الیکشن 18ویں لوک سبھا چننے کے لئے ہو رہے ہیں مگر سرینگر کی نشست پر 16ویں مرتبہ کوئی امیدوار چن کر جاسکتا ہے۔ 1967 کے انتخابات میں اس وقت کی نیشنل کانفرنس کے روح روان اور سابق وزیر اعظم بخشی غلام محمد پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے تھے۔ اگلے ہی الیکشن یعنی 1971 میں بخشی غلام محمد کو ایک نوجوان وکیل،شعلہ بیان مقرر اور قلم کار شمیم احمد شمیم نے پارلیمنٹ جانے سے روکا تھا۔ 1975 کے اندرا۔ عبداللہ ایکارڈ کے بعد نیشنل کانفرنس کو ایک نیا وجود ملا اور1977 میں اسی پارٹی کی بیگم اکبر جہاں سرینگر سے پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوئی۔ یہ الیکشن معروف شعیہ لیڈر مولویافتخار حسین انصاری کے لئے بھی بہت ہی اہم ثابت ہوا۔اگرچہ کہ وہ شیخ محمد عبداللہ کی غیر معمولی عوامی مقبولیت کا مقابلہ کرکے سیٹ جیتنے میں کامیاب نہ ہوئے مگر سیاسی میدان میں اپنے قدم رکھنے کا اعلان نہا یت ہی شاندار انداز میں کیا اور اب تک وہ عوامی حلقوں میں اپنی
مقبولیت کو بنائے ہوئے ہیں جس کا براہ راست فائدہ ان کے بھائی اور بیٹے کو بھی حاصل ہو رہا ہے۔1980 سے 2019 تک بارہ مرتبہ پارلیمانی الیکشن ہوئے جن میں دس مرتبہ نیشنل کانفرنس کے امیدوار میدان مار گئے۔ 1996میں این سی نے پارلیمانی الیکشن میں حصہ نہیں لیا اور اس وقت کانگریس کے میر غلام محمد ماگامی کامیاب ہوئے۔ اس سیٹ پر 2014 میں پہلی دفعہ این سی کو پیلز ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار طارق حمید قرہ نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو ہرا یا تھا۔ اس حلقے میں آنے والے انتخابات میں نیشنل کانفرنس کے آغا سید روح اللہ مہدی، پی ڈی پی کے وحید الرحمان پرا اور اپنی پارٹی کے محمد اشرف میر کے درمیاں سخت مقابلے کی توقع ہے۔ نئی حد بندی کی وجہ سے اس الیکشن میں نیشنل کانفرنس کے لئے یہ سیٹ اتنی آسان نہیں رہی ہے جتنی کہ یہ ان کے لئے ہوا کرتی تھی۔ 1996 کے الیکشن سے لیکر 2019 کے الیکشن تک سرینگر ضلع جو کبھی این سی کا گڑھ مانا جاتا تھا، میں بہت کم تعداد میں لوگ پولنگ میں حصہ لیتے ہیں۔ کم شرح پولنگ کا اثر دیگر پارٹیوں سے زیادہ این سی پر پڑ سکتا ہے۔ ضلع بڈگام کی تین اور ضلع گاندربل کی دو اسمبلی سیٹوں پر اچھے خاصی پولنگ ہوتی ہے جس کا فائدہ این سی کو زیادہ، اپنی پارٹی اور پی ڈی پی کو اس سے کم ہو سکتا ہے۔ جہاں تک ضلع پلوامہ اور شوپیاں کا تعلق ہے وہاں پر بھی لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے باہر آتے ہیں۔ ان اسمبلی سیٹوں پر این سی کو پی ڈی پی کے ساتھ سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 2019 کے پارلیمانی الیکشن میں عام ووٹر پی ڈی پی سے ناراض ہونے کی وجہ سے ووٹ ڈالنے کے لئے زیادہ تعداد میں گھروں سے باہر نہیں آئے جس کا فائدہ این سی کے امیدوار حسنین مسعودی کو حاصل ہوا۔ کیا اب کی بار بھی وہاں کے بیشتر ووٹر اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرنے کے لئے پولنگ بوتھوں کا رخ کرنے سے احتراز کریں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا مثبت یا منفی ہونے کا اثر پی ڈی پی کے امیدوار پر پڑے گا۔ وادی کے مشہور سیاسی مبصر احمد علی فیاض کے مطابق ”ا ین سی کے آغا روح اللہ، پی ڈی پی کے وحید الرحمن پرہ اور اپنی پارٹی کے محمد اشرف میر – پہلی بار لوک سبھا کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وحید نے کبھی کوئی اسمبلی یا پارلیمانی الیکشن نہیں لڑا۔ آغا اور اشرف نے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی اور کابینہ کے وزیر کے طور پر کام کیا۔“ ان کے مطابق ”کم از کم 10 دیہی حصوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجودہ انتخابات میں مصروف ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں،(این سی اور پی ڈی پی) اہم مدمقابل ایک ہی بنیاد پر مقابلہ کر رہے ہیں – بی جے پی کی قیادت والی مودی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کے خلاف سخت گیر موقف، آرٹیکل 370 اور 35-A کی منسوخی اور سابقہ ریاست جموں کی تنظیم نو کے خلاف۔ اور کشمیر جس کا خلاصہ وہ ”کشمیریوں کی بے اختیاری” کے طور پر کرتے ہیں۔ وہ موجودہ انتخابات کو ہمیشہ ”ریفرنڈم“ قرار دیتے ہیں۔ ایک دہشت گردی سے متعلق مقدمے میں ضمانت پر رہا ملزم ہے (وحید پرہ)اور دوسرا دہشت گردی کا شکار (آغا روح اللہ) لیکن دونوں یکساں طور پر زیادہ سے زیادہ نام نہاد جذباتی ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کبھی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے تھے لیکن اب آزادی کی حفاظت کی بات کر رہے ہیں۔ ”ہندوستانی آئین کے اندر کشمیریوں کا وقار، شناخت اور بااختیار بنانا”۔“جہاں تک اپنی پارٹی کا تعلق ہے وہ ”خاندانی راج“ کو ختم کرنے کے لئے، بقول ان کے، میدان میں آئی ہے۔
ہر ایک سیاسی جماعت اپنا اپنا اجنڈا لیکر لوگوں کر سامنے جا رہے ہیں۔ شاید ان میں سے کوئی جماعت یا امیدوار عام ووٹر سے یہ پوچھتا ہو کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ان پارٹیوں کا کام آسان ہوتا۔ وہ اپنی تقاریر میں نہ صرف اپنے مخصوص ایجنڈے کی بات کرتے بلکہ، لوگ کیا چاہتے ہیں، اس کی بھی بات کر کے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ 13 مئی کو سری نگر،گاندربل، بڈگام، پلوامہ اور شوپیاں اضلاع کے لوگ ایک ایسے شخص کا انتخاب کریں گے جو 543 اراکین پارلیمنٹ کے ہال میں جموں کشمیر کے لئے اپنی آواز اٹھائے گا۔