تحریر: ش، م،احمد
7 مئی کو ملک کی کئی اہم ریاستوں میں سات مراحل پر محیط انتخابی عمل کا تیسرا دور بحسن وخوبی اختتام پذیرہوا۔ اس مرحلے پر پانچ سو تنتالیس نشستوںوالی پارلیمنٹ کی تریانوے سیٹوں پرالیکشن ہو ا‘ جب کہ سورت کی ایک سیٹ پر بھاجپا کے اُمیدوار پہلے ہی بلا مقابلہ منتخب قرار دئے گئے تھے۔ ا س میں دورائے نہیں کہ ہندی بیلٹ کہلا نے والی ریاستوں اُترپردیش ‘گجرات ،
مہاراشٹر ،مدھیہ پردیش( جہاں بھاجپا اور سنگھ پریوار کا خاصا اثر ونفوذ پایاجاتا ہے ‘ لہٰذا بی جے پی اُمیدواروں کا پلڑا روایتاً یہاں بھاری رہتا چلا آیا ہے) سمیت بنگال، بہار اور کرناٹک میں ووٹ ڈالے گئے ۔ کل ملاکر تیسرے مر حلے کے خاتمےتک دوسو بیاسی نشستوں پر ووٹنگ مکمل ہوئی ہے۔بالفاظ دیگر آج کی تاریخ میں پارلیمان کی باون فی صد سیٹوں کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ای وی ایم میں محفوظ ہو کر اُس لمحے کا انتظار کر رہاہے جب ہار اور جیت کا رازنتائج کی صورت میں ہمارے سامنے آئے گا ۔ یادرہے کہ پہلے کشمیر میں بھی اننت ناگ ۔راجوری کے پارلیمانی حلقہ ٔانتخاب پر ۷ ؍ مئی کو ہی ووٹنگ کا پروگرام طے تھا مگر بعض اُمیدواروں کے اصرار پر الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اس نشست پر انتخابات اگلی تاریخ تک موخر کئے۔
الیکشن کمیشن نے تیسرے دور کی رائے دہی کی شرح فی صد کے متعلق جوابتدائی اعداد وشمار منظر عام پر لائے ‘اُن سے کم وبیش پہلے دو ادوار کی طرح پولنگ کی شرح چونسٹھ فی صد رہی ۔ اس بناپر ہم کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ دو چرنوں کی مانند تازہ دور میں بھی ووٹروں نے زیادہ دلچسپی نہ دکھائی۔ اب اس وقت پولنگ کی شرح فی صد پر دماغ سوزیاں کر کے قیاسوں کے گھوڑ ے دوڑائے جارہے ہیں اور بتایا جارہاہےکہ چار جون کو غیر متوقع طور نتائج چونکا دینے والے ہوں گے اورکئی ایک نیتاؤں کوسیاسی جھٹکے لگیں گے ۔ چناں چہ سیاسی بُرج کہلانےوالے بعض سیاسی نیتاؤں اور اُمیدواروں کے دل کی دھڑکنیں تیز ہورہی ہیں ‘ بے چینی کی ملی جلی کیفیات کے زیر اثر اُن کی نیند یں بھی اُڑ رہی ہیں اور اپنے سیاسی مستقبل کا ڈر اُن کے لئے سوہان ِ روح بناہو اہے۔
الیکشن کے باقی ماندہ چار مراحل میں سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ‘اس بارے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ۔ اب تک پولنگ کے رُجحانات سے ہواؤں کا رُخ کس جانب اشارہ کرتاہے‘ اس بارے میں سیاسی گلیاروں میں مختلف دعوے ہورہے ہیں۔ ان پر میڈیا اور مبصرین رائے زنیوں کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔ دعوؤں اور جوابی دعوؤں سے قطع نظر زمینی حقیقت کیا ہے‘ چار جون کو لگ پتہ جائے گا جب ای وی ایم مشینوں میں مقفل سچائی کا سورج ملکی سیاست کے مطلع پرطلوع ہونا ہوگا ۔
وادی ٔکشمیر کی تین نشستوں پر قسمت آزمائی کر نے والے امیدواروں کی انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں ‘ یہ لوگ کہیں کہیں ریلیاں اورروڈشوز بھی کر رہے ہیں ‘ لیڈروں کی بیان بازیاں بھی سیاسی ماحول کو گرما رہی ہیں ‘ مصروف شاہراؤں پربڑی بڑی ہوڈنگس سے وادی میں انتخابی حرارت کا تاثر بخوبی اخذ کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک یہاں کسی خاص سیاسی پارٹی یا کسی خاص اُمیدوار کے حق میں کوئی لہر نہیں پائی جارہی ۔ لوگ شایدخاموشی سے اپنا من بنا چکے ہیں کہ اپنا ووٹ کس اُمیدوار کے حق میں کاسٹ کریں گے ۔الیکشن میدان میں صف آرا پارٹیوں کو سلگتے عوامی مسائل پر اپنے موقف اورمنشورانتخابی ایجنڈے کی صورت میں رائے دہندگان تک پہنچانا لازم وملزوم ہے ۔
بلا شبہ انتخابی دَنگل میں شریک لیڈر جانتے ہیں کہ یہاں عام جنتا کو کونسی جان گسل دشواریاں سہہ رہی ہیں‘ عام آدمی کو سنہ نوے سے کن مصائب و شدائد کا سامنا ہے۔اُنہیں اس منہ بولتی حقیقت سے بھی آشنائی ہے کہ نامساعدحالات کے متاثرین اپنی بپتا کے تھپیڑوں میں خود کو کس کس عنوان سے بے یارومدد گار محسوس کر رہے ہیں۔ سیاسی طوائف الملوکی اور بدامنی کے ما بعد بے شک حالات میں بدلاؤ آچکا ہے اورامن وقانون کی صورت حال قدرے تسلی بخش ہے ‘تاہم اس سب کےباوجود مہنگائی کا عفریت غریبوں کا کچومر نکالے جارہاہے، تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری کے دلدل میں پھنس کر نشے با زبنتے جارہے ہیں ، بجلی کٹوتیوں کا بے ہنگم سلسلہ عوام کی معاشی شہَ ر گ کاٹے جارہاہے‘ سماجی نابرابری کاپریشان کن ماحول دن بہ دن شدت اختیار کرتا جارہاہے‘ صحت مراکز میں جدید طبی سہولیات کی کم یابی کا مسئلہ بھی عوام الناس کے گلے پڑا ہواہے ۔ وو ٹنگ کا ثمرہ یہ ہو نا چاہیے کہ عوامی مسائل درد ِلا دوا نہ بنیں بلکہ ان کے انبار سے لوگوں کو عملی طورچھٹکارا ملے ۔ یہ ایک عیاں وبیاں حقیقت ہے کہ سمارٹ سٹی جیسے ترقی پسند انہ پروجیکٹ کےضمن میں سڑکوں کی جابجا اُکھاڑ پچھاڑ جاری ہے ۔اس پروجیکٹ کوٹائم باؤنڈ انداز میں پایہ ٔ تکمیل تک پہنچانے کی اَشد ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو نقل وحرکت میں جو صدہا مشکلات آرہی ہیں‘ خاص کر محنت کش طبقے کو دووقت کی روٹی کمانے میں جن مختلف پیچیدگیوں کا سامنا کر نا پڑرہاہے ‘ان مسئلوں کا ازالہ ہو ۔ عوامی مسائل کے ضمن میں ایک موقع پراپنی پارٹی کے سربراہ سید محمد الطاف بخاری نے اپنی تقریر میں برمحل کہا کہ میں بے روزگار نوجوانوں کو یقین دلاتاہوں کہ اُن کے لئے روزگار اسکیمیں لائی جائیں گی ۔ علاوہ بریں سیاسی قیدیوں اور سنتیس ہزارکشمیریوں کی
رُکی پڑیں پولیس ویری فکیشن یا پولیس کلیر نس سرٹیفکیٹ کاذکر چھیڑ کر بخاری صاحب نے عوام کی دُکھتی رَگ پر اُنگلی رکھی ۔ بذات خود یہ ایک حوصلہ
افزا پیش رفت ہے کہ موجودہ ڈائرکٹر جنرل پولیس آر آر سیون نے پولیس محکمے میں عوامی دربار
جیسےعوام دوستانہ پروگرام متعارف کر کے پہلے ہی ان حوالوں سے لوگوں کو بڑا ریلف دے چکےہیں۔ بعینہٖ سری نگر ۔ بڈگام حلقہ ٔ انتخاب کے لئے اپنی پارٹی اُمیدوار محمد اشرف میرنے ایک دوسرے موقع پر وعدہ دیا کہ منتخب ہوئے تو پانچ سو یونٹ بجلی صارفین کو مفت فراہم کرائی جائے گی ۔ یہ ایک اہم خدمت ہوگی اگر عملاً وعدہ وفا ہوا۔ ماضی کی طرح اب تک سری نگر کے قلب لال چوک میں کوئی بڑا انتخابی جلسہ منعقد نہ ہو ا۔ آگے اس کا کوئی امکان نظر ہے یا نہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل ا ز وقت ہوگا۔بایں ہمہ لوگوں میں پارلیمانی الیکشن زور وشور سےموضوع بحث بنا ہواہے ۔
جمہوریت اگر حقیقی اسپرٹ کے ساتھ قائم ہو تو یہ ایک نعمت ِکبریٰ ہے ۔انسانی سماج کوابتدائے آفرینش سے ایک ایسے متوازن ومعتدل اسلوبِ زندگی اورنظم ِمملکت کی تلاش رہی جہاں قانون کی بالادستی ہو ‘ مساوات کی بہاریں ہوں‘عدل وانصاف کی پُروائیاںچلتی ہوں ‘ آئین وقانون کی حکمرانی ہو ۔انسان کی اس تلاش وجستجو نے آج تک بہت سارے نظاموں کی چوکھٹ پر انسان سے جبہ سائی کرائی۔ اُسے بادشاہت ‘ آمریت ‘خلافت اور جمہوریت جیسے سیاسی نظاموں کا دامن گرفتہ کیا۔ بنی آدم یکے بعد دیگرے ان نظاموں کے واسطے تجربہ گاہ بنا رہا ۔ جب کہ زمانے کا مورخ بھیڑ سے الگ دیکھتا رہا کہ کس طرح بادشاہت نے زیادہ سے زیادہ شاہی خانوادے کے اُس لاڈلے طبقے کو جنم دیا جس نے مسند ِاقتدار کو صرف مال وزر سمیٹنے پر مرکوز کیا ‘ رعایا کو غربت ومظلومیت کی اندھی کھائی پھینک دیا اور بادشاہوں نےاپنے لئے عیش کوشی کے بہانے ڈھونڈنے‘ اپنےحرم سرا ؤںکی زینت بڑھانے اور اپنے لئےفلک بوس محلات و مزارات کی تعمیر کرانے میں کیا کیا گل کھلائے۔ فراعنہ مصر تا شاہان ِ مغل کی ناقابل فراموش یا دگاریں جواہرام مصر سے لے کر تاج محل تک کی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں ‘ اسی ایک بکھری داستان کی گواہ ہیں ۔ آمریت نے بس اتنا کمال دکھایاکہ انسان کو گوشت وپوست والی یک نفری طاقت وجبریت کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر مجبورکیا‘ کمزور لوگوں کو جنگل کے قانون کا غلام بنا یا‘ طاقت وروں کےزورِبازو کی دھاک بٹھاکر ضعیفوں کےدلوں میں خوف ودہشت کے پہرے ڈال دئے‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانی سماج کے لئے’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ‘‘کا آمرانہ فارمولہ اصول ِ زندگی وضع ہوا ۔ خلافت نے مذہبی تعلیمات کی گودمیں پرورش پا کر اعلیٰ اخلاقی قدروں کا بول بالا کیا ‘ انسانیت اور انصاف پسندی کی درخشندہ مثالیں تاریخ کے سینے میں رقم کر دیںمگر ایک انتہائی مختصر مدت تک دنیا کو جنت کا نمونہ بناکر پھر دنیا ومافیہا سے لمبی رخصت لے لی ۔ اس وقت دنیا میں بادشاہتیں بھی قائم ہیں اور آمریتیں بھی اور جمہوریتیں بھی مگر خلافت صرف ایک بھولی بسری یاد ہے جو گرد آلودہ کتابوں میں مقید ہے ۔ دنیا میں جمہوریت یونانی تہذیب کی کوکھ میں جنم پاگئی‘سقراط‘ افلاطون اور ارسطور جیسے عظیم فلسفہ دانوں نے اسے اپنے علم وفلسفے اور فکرونظر کا دودھ پلا پلاکر پالاپوسا ۔ چلتے چلتے 1215کو برطانیہ کے کنگ جان نے بادل نخواستہ ملک کے باغی جاگیرداروں کے سیاسی مطالبات تسلیم کر کے آزادی اور سیاسی حقوق پر مبنی اولین معاہدے’’میگنا کارٹا‘‘( لاطینی زبان کی اس اصطلاح کا مطلب عظیم معاہدہ ہے)پر اپنے دستخط ثبت کئے اور اپنے غیر محدود اختیارات سے تھوڑا بہت دستبردار ہوکر لوگوں کو بعض اختیارات منتقل کئے ۔ واضح رہے کہ مغرب میں جمہوریت کی آمد کوئی آسمانی من وسلویٰ نہیں بلکہ وہاںرہنے والے عام آدمی کی بیش بہا قربانیوں اور کشمکش کی رہین ِمنت ہے۔ جدید دنیا میں میگنا کارٹا میثاقِ جمہوریت کی وہ پہلی تاریخ سازدستاویز ہے جو صرف سیاسی معنوں تک محدود نہ ر ہی بلکہ حیات آفریں روح بن کر مغربی طرز ِزندگی کے جسم میں بھی حلول کر گئی کہ آج تک تقدیس ِانسانیت اُن کا اوڑھنا بچھونا بناہوا ہے۔ کیایہ جمہوریت کا حسن ِ کرشمہ سازنہیں کہ آج کی دنیا میںہر مطلق العنان بادشاہ بلکہ ہر کھلا آمر بھی اپنے آپ کو جمہوریت پسند اورجمہوری اصول واقدار کا پاسدار جتلانے میں زمین وآسمان کے قلابے ملا تا پھرتاہے ؟ آج دنیا بھر میں جمہوریت کو معاشی وسماجی ترقی ‘ تہذیب یافتگی‘ انسانی حقوق ‘ تکریم ِآدمیت کا ضامن اور پرچم ِ انسانیت کا ہم پلہ مانا جاتا ہے ۔
اہل ِکشمیر نے بھی آج تک جمہوریت جمہوریت کی بہت ساری گردانیں اور آوازیں سنیں مگر حق بات یہ ہے کہ بانہال کے اِس پار جمہوریت کی ہوائیں اپنا سفر تسلی بخش اندازمیں جاری نہ رکھ سکیں۔ تاریخ کے ہر نازک موڑ اور ہر فیصلہ ساز گھڑی پر کشمیری عوام اپنے ہی بلند قامت قائدین کے ہاتھوں جذباتی استحصال کا شکار ہوتے رہے ‘ کھوکھلے نعروں کی بھول بھلیوں کی نذر ہوتے رہے‘ خوف ناک سبز باغوں اور ذاتی مفادات کے گورکھ دھندوں میں اُلجھتے رہے کہ وقت پر وہ یہ فیصلہ ہی نہ کر پائے کہ اُنہیں کب اپنے ذہن کے دریچے کھلے چھوڑنے ہیں اور کب اپنے گھروں کے بند دروازے تازہ ہواؤں کے استقبال میں کھولنے ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ ا ہل کشمیر کے لئے جمہوریت کا مفہوم صرف سبز رومالوں اور نمک کی ڈَلیوں جیسے تماشوں تک محدود رہا ۔ بہرکیف اب حالات یکسر بدل گئے ہیں ۔ان دنوں یہاں پارلیمانی الیکشن کا غلغلہ ہورہا ہےمگر آج وقت کا مورخ منتظر بیٹھاہے اور زمانے کی آنکھ تاک میں لگی ہےتا کہ یہ جھانک سکیں آیا نامساعد حالات کی بھٹی میں مدتوں تپ کر اور چوٹوں اور صدموں کی طویل برساتیں سہہ کر لوگ اب بہ دل وجان جمہوریت کی شاہراہ پر آبلہ پائی کرکے اپنے دردکا درماں ڈھونڈ نےمیں دلچسپی لیتے ہیں؟ کیا وہ آئینی حقوق سے استفادے کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟ کیا وہ اپنے حق رائے دہندگی کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہتے ہیں؟ یہ لوگوں کے لئے آزمائش کاپل ِ صراط پارکر نے کا معاملہ بھی ہے اور نئے زریںمواقع تلاشنے کا نقشِ راہ بھی۔ اُمید یہی کی جانی چاہیے کہ لوگ اب کی بار شعور کی گہرائی کے ساتھ ووٹ کریں گے‘ جوق درجوق کریں گے‘ بصد شوق کریں گے ‘ اور اپنے جمہوری حق کا آپ احترام کریں گے۔ ۔