سیدہ طیبہ کاظمی
کینسر ایک ایسی بیماری ہے جو جسم کے خلیوں میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے، جس کی وجہ سے خلیے بے قابو ہو کر بڑھتے اور پھیلتے ہیں۔ یہ بیماری دنیا بھر میں موت کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ اس کے مختلف اقسام ہیں جیسے پھیپھڑوں، چھاتی، جگر، اور جلد کا کینسر، اور ان سب کا علاج مختلف ہوتا ہے۔ مصر میں 5000 سال پہلے، پہلی بار ظاہر ہونے والی بیماری نے اب دنیا کے بیشتر گھرانوں میں اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ کینسر اس وقت ہوتا ہے جب خلیات جو نارمل نہیں ہوتے، بہت تیزی سے بڑھتے اور پھیلتے ہیں۔ عام خلیات کے برعکس، کینسر کے خلیات صرف بڑھتے رہتے ہیں اور کنٹرول سے باہر تقسیم ہوتے رہتے ہیں۔ نیز یہ خلیات دوسرے اعضاء کے معمول کے کام میں مداخلت کرتے ہیں۔ اس کی وجوہات میں جینیاتی، ماحولیاتی اور طرز زندگی کے عوامل شامل ہیں۔ تمباکو نوشی، شراب نوشی، فضائی آلودگی، غیر متوازن غذا، اور ورزش کی کمی اس کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ بعض صورتوں میں، جینیاتی عوامل بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، جن کی وجہ سے بعض خاندانوں میں کینسر کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی علامات کا انحصار اس کی قسم اور اس کے پھیلاؤ پر ہوتا ہے۔ عام علامات میں جسم میں گلٹیاں،غیر معمولی خون بہنا، جلد پردھبے یا دانے، وزن میں غیرضروری کمی یا زیادتی، اور مسلسل تھکن شامل ہیں۔ ان علامات کو نظرانداز کرنا خطرناک ہوسکتا ہے، اس لیے وقت پر ڈاکٹروں سے مشورہ لینا ضروری ہے۔
یہ بیماری مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین میں بھی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ملک کے سب سے بڑے طبی اداروں میں سے ایک میدانتا کی 2023 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملک میں موجود غیر متعدی امراض میں دل کی بیماری کے بعد کینسر کے کیسز سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ 2014 سے 2018 تک کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ہندوستان میں کینسر کے تقریباً 2.25 ملین کیسز سامنے آئے ہیں۔ صرف 2018 میں ہندوستان میں کینسر کے نئے کیسز کی تعداد 11.57 لاکھ تھی۔ جس میں 5.87 لاکھ خواتین کے کینسر کے کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ یہ ہندوستان میں کینسر کے کل کیسز کا 50.7 فیصد ہے۔ چھاتی، بچہ دانی، بیضہ دانی اور کولوریکٹل کینسر خواتین میں سب سے زیادہ عام ہیں۔ صرف چھاتی کا کینسر خواتین میں کینسر کے کل تعداد کا 27.7 فیصد بنتا ہے، اس کے بعد بچہ دانی (16.5%) اور رحم کا کینسر (6.2%) ہوتا ہے۔رپورٹس کے مطابق 2018 میں سروائیکل کینسر نے ملک میں تقریباً 97,000 خواتین کو متاثر کیا۔ طبی سہولیات تک محدود رسائی اورزیادہ طبی اخراجات کی وجہ سے، شہری خواتین کے مقابلے دیہی علاقوں کی خواتین میں سروائیکل کینسر کا خطرہ زیادہ پایا گیا ہے۔ملک کے دیگر ریاستوں کی طرح یوٹی جموں و کشمیر میں بھی پچھلے چار سالوں (2019-2023) میں کینسر کے تقریباً 51000 کیس رپورٹ درج ہوئے ہیں۔ مرکزی وزارت صحت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سال 2019 میں 12396 کیسز، 2020 میں 12726 کیسز، 2021 میں 13060 کیسز اور 2022 میں 13,395 کیسز اور 2023 میں تقریباً 13744 کینسر کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار واضح طور پر ہر سال کینسر کے متاثرین کی تعداد میں اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس اضافے کے ساتھ بہت سی وجوہات اور ماحولیاتی عوامل ذمہ دار ہیں۔ میں نے خود بھی اپنے خاندان میں کینسر کی وجہ سے 3 اموات دیکھی ہیں۔ اس تعلق سے پونچھ کی ایک باشندہ جس نے حال ہی میں اپنی والدہ کو کینسر کی وجہ سے کھو دیا ہے، ان کی والدہ پیٹ کے کینسر میں مبتلا تھیں۔ انہوں نے اپنی والدہ کے بارے میں کہا کہ”کینسر سے ان کی جنگ دلیرانہ تھی۔ ان کی جدوجہد کا مشاہدہ دل کو جھنجوڈ دینے والا تھا۔“
یہاں سوال یہ ہے کہ اس بیماری میں اتنا اضافہ کیوں ہورہا ہے اور ہمارا طبی نظام اس کے خلاف کیا اقدام کررہا ہے؟ ضلع پونچھ کے گاؤں قصبہ کے باشندے شکیل رضانے بتایا کہ ”کچھ سال قبل انہوں نے اپنے والد کو کینسر کی وجہ سے کھو دیا، مالی جدوجہد اور والد کی بیماری دونوں نا قابلِ برداشت تھیں۔ ان کی بیماری کی وجہ سے میرے خاندان پر جذباتی اور مالی طور پر جو دباؤ پڑتا تھا، اس کا مشاہدہ کرنا دل دہلا دینے والا تھا۔ دواؤں کا خرچ، روزمرہ کے اخراجات، اور میرے والد کے لیے بہترین نگہداشت فراہم کرنے کی میری خواہش، ہم جیسے غر یبوں کے لئے زندگی گزارنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔“ کینسرکی تشخیص کے لیے جدید ٹیکنالوجی جیسے کہ بایوپسی، سی ٹی سکین، ایم آر آئی اورخون کے ٹیسٹ استعمال ہوتے ہیں۔ علاج کے مختلف طریقے ہیں، جن میں کیمو تھراپی، ریڈیوتھراپی، اور سرجری شامل ہیں۔ بعض صورتوں میں امیونوتھراپی اور ہارمون تھراپی بھی موثر ثابت ہوتی ہے۔موجودہ حالات اور کینسر کے علاج پر ہونے والے اخراجات کے لیے مالی امداد فراہم کرنے کا نظام کیا جانا چاہئے۔ اس کو ہم مقامی طور پر اپنے اپنے علاقاجات میں بھی سماجی تنظیم بناکر یا پہلے سے موجود تنظیموں کے کاموں میں اضافہ کرتے ہوئے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر آپ کے علاقے میں کسی سماجی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں، وہاں لوگوں سے بات کرکے اور انہیں مہم سے جوڑ کر ایک فنڈ قائم کیا جا سکتا ہے۔جس سے کینسر کے مریضوں کے لئے تعاون یکجا کیا جاسکتا ہے جس میں کم لاگت والی دوائیں، کیموتھراپی، ریڈی ایشن تھراپی، اور سرجری کو شامل کیا جانا چاہئے۔ یہ پروگرام تمام شہریوں کے لیے قابلِ رسائی ہونے چاہئیں۔
مرکزی حکومت کی جانب سے بھی کینسر کے مریضوں کے علاج کے لئے کافی مدد کی جاتی ہے۔ اس کے لئے آیوشمان بھارت کے تحت ان مریضوں کی مالی مدد کی جاتی ہے۔ انہیں بہت کم پیسے میں ادویات مہیا کرائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ ملک کی تمام ریاستی حکومت بھی اپنی جانب سے کینسر کے مریضوں کے لئے ہر ممکن مالی مددفراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی سطح پر صحت عامہ کے نظام کے تحت ہرا ضلاع میں کینسر کے علاج کے خصوصی مراکز تیار ہونے چاہئے۔ ممکن ہے اس سے کینسر کے علاج کے اخراجات کی وجہ سے مالی بوجھ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔کینسر سے بچاؤ کے لیے بیداری بھی بہت ضروری ہے۔ صحت مند طرز زندگی اپنانا، باقاعدگی سے طبی معائنے کروانا، اور نقصان دہ عادات سے پرہیز کرنا کینسر کے خطرے کو کم کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ،اس کے متعلق ابتدائی معلومات رکھنا اور بروقت علاج کروانا بیماری کے علاج میں کامیابی کے امکانات کو بڑھا سکتا ہے۔ کینسر ایک مہلک بیماری ہے لیکن اس کا بروقت علاج ممکن ہے۔ جدید میڈیکل سائنس کی ترقی کے باعث اب کئی اقسام کے کینسر کا علاج ممکن ہو چکا ہے، اور لاکھوں مریضوں کو صحت یاب کیا جا رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس بیماری کے بارے میں لوگوں خصوصاً دیہی خواتین کو بیدار کریں۔ انہیں احتیاطی تدابیر اپنانے کے بارے میں بتائیں تاکہ انہیں اس مہلک بیماری کے اثرات سے وقت رہتے بچیا جا سکے۔ (چرخہ فیچرس)
