از:منظور الہٰی
ایک تعویل عرصہ تقرباً 10 سال کے بعد الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے جموں کشمیر میں اسمبلی انتخاب کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا سال 2014 کے بعد جموں کشمیر میں پہلی بار اسمبلی چناوؑ کیے جارہے ہیں الیکشن کمیشن راجیو کمار کی جانب سے 18 ستمبر سے یکم اکتوبر تک تین مرحولوں میں یہ الیکشن کیے جائیں گے
جموں و کشمیر کی 90 اسمبلی سیٹوں کے لیے تین مراحل میں انتخاب ہوں گے۔ پہلے مرحلہ میں 18 ستمبر کو، جبکہ 25 ستمبر کو دوسرے اور یکم اکتوبر کو تیسرے مرحلہ کی ووٹنگ ہوگی۔ 4 اکتوبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ مرکز کے زیر انتظام خطہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی جموں وکشمیر کا سیاسی منظرنامہ ایک بار پھر گرم ہو رہا ہے۔ جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کئی طریقوں سے تاریخی ہیں کیونکہ یہ جموں و کشمیر میں گزشتہ پانچ سالوں میں گہری تبدیلیوں کے بعد ہو رہے ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی تھی، جس کی وجہ سے ریاست کو یونین ٹیریٹری میں منتقل کر دیا گیا اور جموں وکشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔انتخابات کے اعلان کے بعد جموں کشمیر کے سیاست دان خوش نظر آرہے ہیں اور الیکشن کمیشن اف انڈیا کا شکریہ بھی آدا کر رہے ہیں کئی سیاست دان کہہ رہے ہیں کہ دیر آیا درست آیا کئی کہتے ہیں کہ شکر ہے اعلان ہو گیا اس دوران جموں کشمیر کی سیاسی پارٹنوں میں اوچل فیری بڑے پیمانے پر جاری ہے رات ایک پارٹی کو ایک لیڈر چھوڑ کر جا رہا اور صبح دوسری پارٹی کو اختیار کر رہا ہے بڑی پیمانے پر پارٹیوں کا تبادلہ ہو رہا ہے تاریخوں کے اعلان کے چند چند گھنٹے بعد ہی جموں کشمیر پردیس کانگرس نے پارٹی کے سابق صدر وقار رسول وانی کو ہٹا کر نیاء صدر طارق حمید قرہ کو صدر رکھ دیا ہے ادھر نئی دلی سے کانگریس صدر ملکارجن کھرگے اور راہل گاندھی دو دن کے دورہ پر جموں کشمیر پہنچے جہاں انہوں نے نیشنل کانفرنس کے ساتھ الائنس کرنے کے لیے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی این سی کے ساتھ کانگرس نے 90 سیٹوں پر الائنس کرنے کا فیصلہ کیا ہے ادھر پیوپلس ڈیموکراکے پارٹی پی ڈی پی میں جہاں ایک طرف سے پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی پرانے بھاگے ہوئے لیڈروں کو پارٹی میں واپس لانے کے لیے خیر مقدم کر رہی ہے وہیں دوسری جانب سے پی ڈی پی کے کئی سینیئر لیڈر پارٹی کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں شویاں اور پلوامہ سے پی ڈی پی کے کئی ڈی ڈی سی بی ڈی سی اور سابق ایم ایل اے پارٹی کو چھوڑ کر عوامی اتحاد پارٹی کو قبول کر لیا ہے جموں کشمیر اپنی پارٹی کا حال بے حال ہوتا جا رہا ہے پارٹی کو کئی سینیئر لیڈروں نے خیر بات کر کے دوسری پارٹیوں میں شامل ہو گئے ہیں ہیں ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی کی بھی الٹی گنتی شروع ہوئی ہے ڈی پی اے پی سے بھی کئی لیڈر بنیادی رکنیت سے استعفی دے چکے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ سے یہ خبریں بھی آتی ہیں کہ ڈی پی اے پی کے صدر اور سابق وزیراعلی غلام نبی آزاد دوبارہ کانگرس میں جانے کی سوچ رہے ہیں ادھر انجینیئر رشید کی پارٹی عوامی اتحاد پارٹی کہیں نہ کہیں اگے آرہی ہے اے ائی پی پارٹی میں لگاتار جوائننگ ہو رہی ہے کئی بڑی پارٹیوں کو چھوڑ کر لے لیڈر اس میں شامل ہو رہے ہیں اس بیچ پارٹی کی جانب سے پہلے مرحلے کے لیے تمام امیدوارہوں کا اعلان بھی کر دیا ہے بھارتی جنتا پارٹی بی جے پی کی اسمبلی الیکشن میں کوئی خاص پیش رف نہیں دکھ رہی ہے وادی میں بی جے پی اپنی موجودگی کو مضبوط بنانے کی کوششوں کے باوجود، بی جے پی نے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں وادی کے تین پارلیمانی حلقوں میں سے کسی بھی نشست پر نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس جیسی علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوششوں کے ساتھ محدود کامیابی حاصل کرنے کے بعد، بی جے پی نے اب تنہا چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا پارٹی کشمیر میں امیدوار کھڑا کرے گی یا لوک سبھا انتخابات کی طرح اسمبلی انتخابات میں بھی ایسا ہی طریقہ اختیار کرے گی۔ پارٹی کے صدر رویندر رائنا کی جانب سے اس بار 50 پار کا دعوی بھی کیا گیا ہے وہاں ہی نیشنل کانفرنس کی جانب سے جموں کشمیر کی عوام کو پانی بجلی کے 200 یونٹ راشن فی صارف (بی پی ایل) 10 کلو ماہانہ رسوئی گیس (ای ڈبلیو ایس) 12 سلینڈر سالانہ مفت دینے کا وعدہ کیا ہے جموں کشمیر کی دوسری پارٹی بھی دعوے اور وعدے کر رہی ہیں جموں کشمیر اپنی پارٹی صدر الطاف بخاری کی جانب سے بھی کئی بڑے وعدے کیے گئے ہیں انتخابی مہم میں آنے والے سب سے بڑے سیاسی مسئلوں میں سے ایک آرٹیکل 370 کی منسوخی ہے۔ این سی پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی ان کے انتخابی منشور میں اولین ترجیح ہے۔ علاقائی جماعتوں کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ ابھی بھی رائے دہندوں کے دلوں کی گہرائی میں گونجتا ہے، اور وہ ترقی، سڑکوں، بجلی اور پانی جیسے روایتی خدشات کے ساتھ ساتھ اسے اپنی مہم کا مرکزی موضوع بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں ایسے میں اگر دیکھا جائے تو حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ریکارڈ ٹرن آؤٹ نے آنے والے اسمبلی انتخابات میں اسی طرح کی اعلیٰ سطح کی کارکردگی کی امیدیں بڑھا دی ہیں۔ جب ہم اس تاریخی انتخابی معرکے کے قریب پہنچتے ہیں تو کئی اہم سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا نیشنل کانفرنس اور بھارتیہ جنتا پارٹی بالترتیب کشمیر اور جموں خطوں میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھریں گی ؟ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں، این سی نے وادی کے تین حصوں میں سے دو میں کامیابی حاصل کی ہے، انت ناگ اور سرینگر پارلیمانی نشستوں پر جب کہ بی جے پی نے جموں کی دونوں نشستوں پر کامیابی پائی ۔ جموں اور ادھم پور سے اگر ووٹنگ کا یہ نمونہ اسمبلی انتخابات میں دہرایا جاتا ہے تو یہ یونین ٹیریٹری کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کو تشکیل دے سکتا ہے۔ یہاں اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ کرسی ہوگی کس کے ہاتھ عبداللہ، مفتی، بخاری، لون، آزاد، یا پھر رہنا، کے ہاتھ تاہم یہ بات کہنا قابل از وقت ہوگا کہ جموں کشمیر کا آنے والا چیف منسٹر کون ہوگا اور کس کی سرکار بر سر اختیار میں آئے گی یہ دیکھنے والی بات ہوگی کہ جموں کشمیر کی عوام اب کس کو اپنی رہنمائی کے لیے چنیں گی