از:جہاں زیب بٹ
اسمبلی الیکشن کا بغل بجنے کی دیر تھی کہ کانگریس رہنما راہول گاندھی پارٹی صدر کھرگے کو ساتھ لاکر کشمیر آیے ۔ دورے کا مقصد کارکنوں کی پیٹھ تھپتھپانا ان کی حوصلہ افزایی کر نا اور انھیں اسمبلی چناؤ کے لیے چاک و چوبند کرنا تو تھا ہی ۔یہ بھی سچ ہے کہ الیکشن کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی یہاں سیاسی جماعتوں میں خلفشار ،جو ڑ توڑ اور منڈیٹو ں کی تقسیم سے بھونچال آنے اور بحرانی کیفیتوں کا سلسلہ چل پڑا اس کا جایزہ بھی لینا تھا اور پتہ لگانا تھا کہ بقیہ جماعتوں کی اندرونی افراتفری کے بیچ کانگریس کے لیے افرادی اور انتخابی فایدہ حاصل کرنے کی کتنی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔کانگریس نے الیکشن اعلان کے فوراً بعد پردیش چیف کا عہدہ وقار رسول وانی سے چھین لیا اور اس پر وادی البنیاد سیاستدان طارق حمید قرہ کو بٹھادیا ۔اگر غلام نبی آذاد کی
کا نگر یس میں گھر واپسی کی رپورٹ صحیح ہو تو یہ ایک اور وجہ ہوگی جس بناء پر وقار رسول وانی کو معزول کر نا پڑا ہو گا جو بطور پردیش کا نگر یس چیف آزاد صا حب کو زمین بوس کر نے کا کویی موقعہ نہیں گنوا دیتے تھے۔ قرہ صاحب کو اس بناء پر بھی بہتر آپشن سمجھا گیا کہ دیگر جماعتوں سے ممکنہ طورپر علاحدہ ہونے والے وادی البنیاد سیاسی لیڈر وں کو کانگریس دایرے میں لانا آسان ہوگا۔راہول کے کشمیر دورے کا مقصدکانگریس میں سیاسی بھگو ڑو ں کی شمولیت کے امکانات اور کوششوں کا
جا یزہ لینا تو تھا ہی لیکن بڑا ایجنڈا این سی کے ساتھ قبل از انتخاب الاءنس قایم کر نا تھا ۔ڈاکٹر فاروق کے مطابق الاءنس کے طور طریقوں کو حتمی شکل دی گیی جو پارٹی حلقوں کے مطابق راہو ل کی بڑی
کا میابی ہے ۔کیو ں کہ اس سے فی الحال کے طور پر
بھا جپا کے ساتھ این سی اتحاد کا امکان مسدود ہو گیا ۔
راہول گاندھی نے سرینگر میں پارٹی کارکنوں کے مجمع میں بو لتے ہو یے کہا کہ وہ کشمیریوں سے محبت کرتے ہیں لیکن یہ نری جملہ باذی ہے اگر محبت کا دعویٰ دلیل سے ثا بت نہ ہوا ہو یا آیندہ اس کا ثبوت نہ ملے۔راہول نے کشمیریوں کے دکھوں اور زخموں کی با ت کی اور اشارہ بھا جپا کی طرف ہی ہو سکتا ہے ۔وہ یہ بتاتے تو کیا ہی اچھا ہو تا کہ کانگریس نے کشمیریوں پر کون سے پھول برسا یے ہیں؟۔راہول کی یہ بات غلط نہیں ہے کہ آزاد ہندوستان میں پہلی بار کسی سٹیٹ کو یوٹی درجہ پر گرایا گیا لیکن خود کانگریس نے اپنے دور حکومتوں میں یہاں جمہوریت کی عزت جس ڈھٹا یی کے ساتھ لوٹی وہ کیا ناقابل فراموش ہے ؟سنہ ستاسی میں این سی کے ساتھ مل کر جو انتخا بی دھاندلی کی وہ کیا کشمیریوں کو لہو لہان کر نے والا کویی معمولی واقعہ تھا ؟آج ووٹ کے بدلے سٹیٹ ہڈ کا گفٹ دینے کا انتخابی وعدہ ہے مگروہ تو پرایم منسٹر مودی اور ہوم منسٹر امت شاہ کا وعدہ بھی ہے۔ نیا کیا ہے؟وہ بتایے۔2014کے الیکشن مینی فیسٹو میں دفعہ 370کے تحفظ کا وعدہ تھا آج اس کا ذکر کہیں نہیں ہے.کشمیریوں سے محبت کا دعویٰ صحیح ہو تو بھا جپا سے ذیادہ ہمدردی ،رفاقت ،زخموں کی مرہم پٹی کا کویی ایجنڈا ہو نا چا ہیے تھا تاکہ کشمیریوں کو لگتا کہ کانگریس واقعی ان کی خیر خواہ جماعت ہے۔این سی کے الیکشن مینی فیسٹو میں کشمیر کا خصوصی درجہ واپس لا نے کا وعدہ ہے کانگریس کے پاس بھا جپا سے ذیادہ دینے کو کچھ نہیں ۔با ا یں ہمہ دو جماعتوں نے
اتحا د بنانے کا فیصلہ کیا جو اقتدار کی مجبوری ہے اور مفا دات کا گٹھ جو ڑ۔
خود حکمرانی حق کے ساتھ سٹیٹ کی واپسی کے ساتھ ساتھ ہمیں گڈ گورننس کی ضرورت ہے۔ماضی میں کانگریس یا این سی کا نگر یس مخلو ط حکومتوں میں ایسی کویی مثال نہیں کہ وہ فخر کر تے کہ انصاف کی حامل بد عنوانی سے پاک سرکار کشمیریوں کو فراہم کرنے کا سہرا ان کے سر ہے۔یہ کویی چھپا راز نہیں ہے کہ کشمیر میں با ر بار سیاسی پیادوں کی فصلیں اگاتے ہویے کانگریس کے ہاتھوں کشمیر میں کرپٹ سیاسی کلچر پروان چڑھا جس نے کشمیر کو
بر باد کر ڈالا۔ان حقائق کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ این سی کانگریس اتحاد ٹھیک ٹھاک چل سکا تو اس بار کے اسمبلی الیکشن میں اس کی بہتر کارکردگی کہیں نہیں گیی ہے ۔