اسمبلی انتخابات کی سرگرمیاں شروع ہونے کے ساتھ ہی سیاسی جماعتیں ووٹ حاصل کرنے کے لئے لوگوں سے بڑے بڑے وعدے کررہی ہیں ۔ جموں کشمیر کے لئے ریاستی درجے کی بحالی سب کا مشترکہ پروگرام ہے ۔ موجودہ مرکزی سرکار پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ اسمبلی انتخابات کے بعد نئی سرکار بننے کے ساتھ ہی ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا ۔ جموں کشمیر کو پانچ سال پہلے اس وقت دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے یونین ٹیریٹی بنایا گیا جب اندرونی خود مختاری کی قانونی شق دفعہ 370 اور 35 A ختم کردی گئی ۔ اس سے پہلے ہی ریاستی اسمبلی کو تحلیل کرکے پہلے گورنر راج پھر صدارتی راج نافذ کیا گیا ۔ اب الیکشن کمیشن نے ستمبر کے آخر تک اسمبلی انتخابات منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس دوران سیاسی جماعتیں اپنا ووٹ بینک بنانے میں مصروف ہیں ۔ اس غرض سے لوگوں سے کئی طرح کے وعدے کئے جارہے ہیں ۔ ایک اہم وعدہ بے روزگاروں کے ساتھ کیا جارہاہے ۔ ایسے نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر سرکاری نوکریاں فراہم کرنے کے اعلانات کئے جارہے ہیں ۔ اس حوالے سے نیشنل کانفرنس نے اپنے الیکشن مینی فیسٹو میں یہ بات کہی ہے کہ حکومت بنانے کی صورت میں چھ مہینوں کے اندر ایک لاکھ نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کی جائیں گی ۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ سرکاری سیکٹر میں خالی پڑی تمام اسامیوں کو پر کیا جائے گا ۔الیکشن مینی فیسٹو جاری کرتے ہوئے پارٹی کے نائب صدر نے نوجوانوں کو یقین دلایا کہ ان کے روزگار کے وسائل پیدا کئے جائیں گے ۔ این سی کی طرف سے اس طرح کے اعلان کے فوری بعد دوسرے سیاسی حلقے متحرک ہوگئے اور نوکریاں فراہم کرنے کے حوالے سے ایک سے بڑھ کر ایک اعلان کرنے لگے ۔ پیوپلز ڈیموکریٹک فرنٹ نے این سی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یہ دو بنگ اعلان کیا کہ حکومت بنانے کے چھ مہینوں کے اندر دو لاکھ سرکاری نوکریاں فراہم کی جائیں گی ۔ اگرچہ اس پارٹی کے الیکشن میں کامیابی اور حکومت بنانے کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے ہیں ۔ اس کے باوجود اپنے انتخابی منشور میں پارٹی سربراہ نے دو لاکھ نوکریاں فراہم کرنے کا اعلان کیا ۔ اسی طرح اپنی پارٹی نے بے روزگار وں کو روزگار اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کرنے کی بات کی ہے ۔
جموں کشمیر میں اگرچہ روزگار کے کافی مواقع ہیں ۔ یہاں قدرتی وسائل کا کوئی فقدان نہیں ۔ بلکہ ایسے بہت سے وسائل ہیں جن سے لوگوں کی ضروریات فراہم کی جاسکتی ہیں ۔ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ قدرتی وسائل کو اچھی نیت سے استعمال میں لایا جائے تو خلیجی ممالک سے بڑھ کر آمدنی کے وسائل پیدا کئے جاسکتے ہیں ۔ اس حوالے سے صاف پانی ، پن بجلی ، جنگلات ، سیاحت ، معدنیات وغیرہ کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ جن دوسرے ممالک میں کس آمدنی ہم سے زیادہ ہے ان کے پاس کشمیر سے کم قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں ۔ ایسے وسائل کے حوالے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ صرف کشمیر کے عوام کے لئے مختص نہیں ہیں ۔ بلکہ قومی اور سرمایہ بنادئے گئے ہیں ۔ ان وسائل کو کشمیر کے اندر آمدنی کا وسیلہ نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔ ان حقایق کو مدنظر رکھ کر اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ مقامی جماعتیں لوگوں کے لئے روزگار کے وسائل خاص کر سرکاری نوکریاں کہاں سے فراہم کریں گی ۔ نوکریاں درختوں پر پتوں کی طرح نہیں اگتی ہیں ۔ جو بڑی علاقائی پارٹیاں اس وقت الیکشن لڑرہی ہیں پہلے بھی اقتدار میں رہ چکی ہیں ۔ اس زمانے میں ریاست کی اندرونی مختاری بھی بحال تھی ۔ ایسی حکومتیں سب سیاہ و سفید کی مالک تھیں ۔ ایسے سنہری موقعوں پر نوجوانوں کو نوکریوں کے پیکیج نہیں دئے جاسکے ۔ بلکہ سرکاری محکموں میں خالی اسامیوں کو فریز اور منجمد کرنے کا کام ایسی ہی حکومتوں نے کیا ۔ کانگریس کی ساجھے داری میں بنی حکومتوں نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئے کہ بے روزگار نوجوان بھیک مانگنے کی حد تک پہنچ گئے ۔ نوجوان جس صورتحال سے دوچار ہیں وہ ایسی حکومتوں کی پیداوار ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو نوکریاں فراہم کرنے کے اعلانات الیکشن نعروں کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتے ۔ سیاسی جماعتیں خود واویلا کرتی ہیں کہ مقامی حکومت کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے ۔ ایل جی کو ایسے اختیارات دئے گئے کہ وزیراعلیٰ کو کسی بھی فائل پر اس کے دستخط حاصل کرنے کے لئے لائن میں کھڑا رہنا پڑے گا ۔ جب حکومت ایسی بے بس ہوگی تو نوکریاں فراہم کرنے کا کام کیسے انجام دیا جائے گا یہ ایک معمہ ہے ۔ ایسے وعدے کیا الیکشن اور ووٹ بینک بنانے تک محدود ہیں ۔ یا ان پر کبھی عمل بھی ہوگا ۔ اس حوالے سے ابھی کچھ کہنا مشکل ہے ۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ ہر کوئی نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کررہاہے ۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جو ووٹر فہرست جاری کئے گئے ان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوان بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کا حق رکھتے ہیں ۔ بلکہ ان کا ووٹ شیئے فیصلہ کن ثابت ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں خوش کرنے کے لئے نوکریاں فراہم کرنے کے وعدے دھڑا دھڑ کئے جاتے ہیں ۔ یہ الیکشن کے چھ ماہ بعد ہی معلوم ہوگا کہ اس وعدے پر کون کتنا عمل کرے گا ۔