پچھلے کئی روز سے الیکشن سرگرمیوں میں تیزی آنے لگی ہے ۔ مرکز کی دو بڑی جماعتوں بی جے پی اور کانگریس نے اپنے پتے کھول کے رکھ دئے ۔ کانگریس کی مرکزی قیادت نے جموں اور سرینگر کا دورہ کرکے انتخابات میں اپنی دلچسپی کا بھر پور اظہار کیا ۔ کانگریسی لیڈروں کا کہنا ہے کہ کشمیر انتخابات ان کی پارٹی کے مستقبل کا تعین کرنے کے لئے بڑے اہم ہیں ۔ بلکہ ان کا کہنا ہے کہ پورے ملک کی سیاست کا رخ کشمیر انتخابات ہی متعین کریں گے ۔ بی جے پی نے کسی مقامی جماعت سے اتحاد کرنے کے بجائے اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ۔ بی جے پی کے لئے انتخابات کے نتائج کانگریس سے کم اہم نہیں ہیں ۔ بی جے پی تو فی الوقت کشمیر کارڈ پر ملک میں سیاست کررہی ہے ۔ اس حوالے سے کشمیر الیکشن اس پارٹی کے لئے بڑے اہم ہیں ۔ ادھر مقامی پارٹیوں نے سب کچھ دھائو پر لگاکر انتخابی مہم کا آغاز کیا ۔ انتخابی مہم کے شروع میں ہی کئی پارٹیوں نے اپنے انتخابی منشور منظر عام پر لائے ۔ بعض پارٹیوں نے دفعہ 370 اور 35 A کو واپس لانے کا اعلان کیا ہے ۔ ایسے اعلانات یقینی طور ووٹروں پر اثر انداز ہونے کے لئے بڑے اہم ہیں ۔ تاہم بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ کانگریس نے اس حوالے سے خاموشی اختیار کی ہے ۔ کانگریس کی اس خاموشی کو معنی خیز قرار دیا جاتا ہے ۔ اس طرح کے کسی وعدے کے حوالے سے سنجیدہ حلقوں میں بھی شک و شبہ کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ ایس کہنا محض سیاسی نعرہ بازی ہے یا پارٹیاں اس حوالے سے سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ انتخابات کے بعد ہی ہوگا ۔ باقی نکات جو سیاسی پارٹیوں نے انتخابی منشوروں میں شامل کی ہیں روایتی نکات ہیں ۔ سڑک ، پانی ، بجلی وغیرہ ایسے مدعے ہیں جو پچھلے تیس چالیس سالوں سے انتخابات کا حصہ رہے ہیں ۔ آج ایک بار پھر ان مدعوں کو لے کر پارٹی منشوروں میں سنہرے خواب دکھائے گئے ہیں ۔ مفت بجلی اور پانی پر فیس کی منسوخی کے وعدے سبھی پارٹیوں نے کئے ہیں ۔ اسی طرح نوکریوں کے حوالے سے جھانسے دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ کسانوں کی ترقی اور باغات کے حوالے سے سبز باغ دکھائے گئے ہیں ۔ یہ ایسے مدعے ہیں جن پر ہر الیکشن لڑنے والی جماعت نے اپنے منشور میں بات کی ہے ۔ اسی طرح دوسرے کئی وعدے کئے گئے ۔ ایسے تمام وعدوں میں کسی طرح کی کوئی جدت دکھائی نہیں دیتی ہے ۔ وہی پرانے طرز کی نعرہ بازی اور مفروضے پیش کئے گئے ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پارٹی لیڈر شپ کو نوجوان نسل کی ضرورتوں کا اندازہ نہیں ہے ۔ اس سے ووٹروں خاص کر نوجوان ووٹروں کو بڑی مایوسی ہوئی ہے ۔ جدید تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی ہے ۔ نوجوانوں کے اندر جو بے چینی پائی جاتی ہے اس کا کوئی ٹھوس حل پیش نہیں کیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹروں کے درمیان ان الیکشن منشوروں کے حوالے سے تاحال کوئی بحث و مباحثہ دیکھنے کو نہیں مل رہاہے ۔
الیکشن مینی فیسٹو سیاسی پس منظر میں بڑے اہم ہوتے ہیں ۔ لیکن کشمیر میں مینی فیسٹو کی کوئی خاص اہمیت نہیں پائی جاتی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ماضی میں بی جے پی کے بغیر کسی بھی حکومت یا سیاسی جماعت نے اپنے الیکشن مینی فیسٹو کو مڑ کر نہیں دیکھا ۔ ایسے مینی فیسٹو صرف اور صرف الیکشن مہم تک محدود رہے ہیں ۔ حکومت سازی کے بعد ایک نیا روڈمیپ تیار کیا جاتا ہے جو پوری طرح سے الیکشن مینی فیسٹو سے یکسر مختلف ہوتا ہے ۔ بی جے پی نے پہلی بار دکھایا کہ حکومت بنانے کے بعد الیکشن وعدوں کو پورا کیا جاسکتا ہے ۔ اب تک سیاسی جماعتیں اور عوام یہی سمجھتے تھے کہ الیکشن مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کا حکومت کا کاروبار سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے ۔ عملی صورتحال یہی تھی کہ بعد کا طرز عمل الیکشن سے سراسر مختلف ہوتا تھا ۔ اگرچہ بی جے پی نے بھی عوام سے کئے گئے کئی وعدے نظر انداز کئے ۔ تاہم بڑے بڑے وعدوں پر من و عن عمل کیا گیا ۔ اس پر سیکولر حلقے حکومت سے ناراض ہوئے اور پچھلے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو نقصان پہنچایا ۔ تاہم یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ الیکشن مینی فیسٹو محض کاغذ کا کوئی ٹکڑا نہیں بلکہ قابل عمل دستاویز ہے ۔ کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے جو منشور عوام کے سامنے رکھے ہیں اس تناظر میں بڑے اہم ہیں ۔ مرکزی وزیر داخلہ نے این سی کے انتخابی منشور کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے علاحدگی پسندی سے تعبیر کیا ۔ اس کے جواب میں این سی کے نائب صدر نے وزیر داخلہ کا شکریہ کیا کہ اس نے منشور کو قابل اعتنا سمجھا اور اس کو سنجیدگی سے پڑھا ہے ۔ دوسری کئی سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے منشور سامنے لائے ہیں ۔ مجموعی طور ایسے تمام دستاویزات کے مضمون ایک جیسے ہیں ۔ بنیادی مدعے ایک ہی ہیں اور حل بھی یکساں قسم کے پیش کئے گئے ہیں ۔ انتظامیہ نے بھی اپنی تیاریوں اور انتظامات کے حوالے سے یقین دہانی کرائی ہے ۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ صاف و شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے گا ۔ اس طرح سے انتخابی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں ۔