تحریر:جہاں زیب بٹ
پی ڈی پی کے بغیر ہی این سی اور کانگریس کے درمیان قبل از الیکشن سیٹوں کی باہم تقسیم پر سمجھوتہ ہو نے کے صرف کچھ دن بعد پی ڈی پی نے انتخابی منشور جاری کردیا ہے جو اس اعتبار سے بقیہ سیاسی جماعتوں سے مختلف ہے کہ اس میں آءینی حدود کے اندر مسلہ کشمیر کے پرامن حل اور کشمیر کے قدرتی راستے
کھو لنے کی زوردار وکالت کی گیی ہے۔فی الوقت محبوبہ جی واحد کشمیر ی لیڈر ہیں جو مسلہ کشمیر چھیڑ رہی ہے اس پر بول رہی ہے اس کو حرز جان بنا رہی ہےاور اس کا پرامن حل تلاشنے کا مطا لبہ کررہی ہے۔مسلہ کشمیر کہتے کہتے زبانیں خشک اورہمارے کان سنتے سنتے پک گیے ہیں۔مسلہ کشمیر یہاں کی سیاست کی وہ خیالی لیلی ہے جس پر ہزارہا مجنو ن فریفتہ ہو گیے ،فدا ہوگیے۔کچھ جیلوں میں سڑے گلے ،کچھ قبرستانوں میں پہنچ گیے ۔کچھ عزت واکرام سے ہا تھ دھو بیٹھے ،کچھ بے آرام و بے مراد ہوگیے ،کچھ جسمانی و ذہنی طور معذور ہو گیے ۔کچھ بے گھر ہویے کچھ بے وطن۔ ہزاروں ماییں بہنیں بیوہ ہو گیں اور ہزاروں یتیم ہو گیے۔ المیہ یہ ہے کہ مسلہ کشمیر تیس سال تک مکمل طور پر کشمیر سیاست پر چھا یا رہا ۔اس پر بے تحاشہ خون بہایا گیا ۔اس پر سیاسی دکانیں چلیں ۔ مال و ذر کی ریل پیل
ہو یی ۔کو یی لیڑر بن گیا۔ کویی لومڑ یا ہاتھی ،کویی جواں مرگ ہو گیا تو کویی بڑھا پے میں فربہ جوان ہو گیا۔کویی جنگ کا ایندھن بن گیا تو کویی خون کا دلال اور تاجر۔ مسلہ کشمیر ملک الموت بن کر کشمیریوں پر ٹوٹ پڑا اور ان کو نگلتا رہا۔یہ قدرتی آفت کی طرح آیا اور سب کچھ بہا کر لے گیا۔ اس کے جیتے جی کویی دن کویی رات کویی صبح کویی شام سکھ چین سے نہیں گزری ۔حالات قابو نہ ہو تے، قانون کی عمل داری کے دن نہ لو ٹتے ،حریت اور پاکستان برہنہ نہ
ہو تے تو مسلہ کشمیر یہاں کی سیاست سے نکلنے کا نام نہ لیتا۔ اسے دل و دماغ سے نکالنے اور یکسر بھو ل
جا نے میں وقت لگ سکتا ہے ۔ لیکن اس میں شک وشبہ نہیں کہ مسلہ کشمیر کافی حد تک کشمیر کی سیاست سے نکل چکا ہے ۔زبان سے اتر چکا ہے ،قلم کاغذ سے محو ہو چکا ہے ۔یہ فی الوقت جذبات کو کھینچتا ہے نہ ان کو آگ لگا دیتا ہے اور نہ ہی یہ اب حریت اور پا کستان کی کا نسچو نسی بنا پا تا ہے ۔حا لانکہ دیوار پر عبارت کندہ ہے کہ مسلہ کشمیر فی الوقت مردہ گھو ڑا ہے جو محبوبہ جی یا کسی اور چھو ٹے بڑے لیڈر کے چابک مارنے سے کھڑا نہیں ہو سکتا ۔ا س کے باوجود محبوبہ مفتی مسلہ کشمیر کو اپنی سیاست سے الگ کر نے کے لیے تیار نہیں ہے۔وہ اس پر اتنی اڈ ی ہویی ہے اور اس سے اتنا پیار جتلا رہی ہے کہ این سی کانگریس اتحاد کو چلینج کررہی ہے کہ جموں و کشمیر 370اورسٹیٹ ہڈکی بازیافت یا سیٹ شیرنگ
کا معاملہ نہیں ہے بلکہ
یہ ایک انسانی مسلہ ہے جسے ا یڈ ر س کرنے کی ضرورت ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ محبوبہ جی نے مسلہ کشمیر کو اپنی سیاست کا محور بنا نے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ وہ این سی کانگریس کو کھلے عام کہہ رہی ہے کہ آکر مسلہ کشمیر کے پرامن حل اور 370اور 35 اے وغیرہ پر مشتمل پی ڈی پی ایجنڈا قبول کر لو تو بدلے میں ان کی جماعت نوے کی نوے اسمبلی نشستوں پر نوزاءید اتحا د کی حمایت کرے گی اور ا نکے لیے میدان کھلا چھوڑدے گی۔مسلہ کشمیر کے پرامن حل کو الیکشن ایجنڈا میں سر فہرست رکھ کر محبوبہ جی اپنے لیےنرم علاحدگی پسندی کی حامل لیڈر ایسا پراناخطاب برقرار رکھنے اور ووٹروں کو مایل اور متاثر کر نے میں کامیاب ہو نہ ہو لیکن محبوبہ جی یہ تاثر ضرور دے رہی ہے کہ وہ مسلہ کشمیرکے ساتھ عہد بستہ ہے ۔اور اس کو سیاسی ایجنڈا سے مٹا نے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
شیخ محمد عبداللہ سے گیلانی
تک چھوٹے بڑے سیاسی لیڈروں کی ایک لمبی فہرست بنتی ہے جنھوں نے کشمیریوں کو مسلہ کشمیر کے ساتھ مکمل طور پر مشغول رکھنے کی سنگین غلطی کی جس پر تاریخ انھیں معاف نہیں کر سکتی ۔مسلہ کشمیر پر فریب ایجنڈا ثابت ہوا۔اس کے بطن سے بدامنی اور مارا ماری کا شوق پیدا ہوا جس نے کشمیر کو جہنم زار بنایا اور کشمیری نام کا رہا نہ کسی کام کا۔یہ کہنا غلط نہ
ہو گا کہ کشمیری قوم نے مسلہ کشمیر پر گمراہ ہو کر نسلیں اور عمریں ضایع کردیں ۔لہذا سیاستدان کیا کہیں کشمیری اس مسلے کے ساتھ مزید مشغول رہنے کا متحمل ہو سکتاہے نہ شوقین ۔