تحریر: ش ،م ،احمد
شمالی کشمیر کے چوگل ہندوارہ میں ۲۵؍ اپریل کو قتل ِ عمد کی ایک دل دہلا دینے والی واردات رونماہوئی ۔ یہ الم انگیز خبر یکایک شہ سرخی بنی تو خلاصہ ہوا کہ گاؤں میں ایک ساٹھ سالہ دیہاتی خاتون عاتکہ بیگم کا قتل بڑی سفاکی سے’’ اپنےپیر ‘‘کے ہاتھوں ہو چکاہے ۔ سوشل میڈیا کی وساطت سے یہ بُری خبر گشت کر گئی تو لوگوں کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی ‘ جس نے سنا وہ کف ِ افسوس ملتا رہا ‘ انگشت بدنداں ہوا‘ دل دہل گئے ‘جذبات مجروح ہوئے۔ چناںچہ ہر خون کے پیچھے کوئی کہانی لازماً چھپی ہوتی ہے ۔ اس قتل کے پیچھے کی کہانی کے حوالے سے حسب ِدستور چہ مہ گوئیوں کا بازار گرم ہوا اور طرح طرح کے سوالا ت نے ذہنوں کا تعاقب شروع کیا ۔ قبل اس کے کہ پُر اسر ار قتل کے پس ِپردہ اصل کہانی کے تجسس میں بھانت بھانت کی بولیاں جنم لینے لگیں ‘ مقامی پولیس نے نہایت مستعدی سے سنگین جرم کا پردہ فاش کر کے کیس کے بارے میں اپنی ابتدائی تفصیلات منظر عام پرلائیں ۔ پولیس نے نہ صرف مبینہ قاتل غلام رسول عُرف لسہ بب کو فوراً گرفتار کرلیا بلکہ آلۂ قتل( کلہاڑی) بھی برآمد کرنے کادعویٰ کیا۔ شکر ہے کہ پولیس کی تیر بہدف کارروائی سے جوہِ قتل کی تہَ تک پہنچنے میں اسے فوری کا میابی حاصل ہوئی۔ غم کی پرچھائیوں اور خوف ودہشت کی لہر کے بیچ لوگوں کو پولیس کی زبانی پتہ چلا کہ مقتولہ طلاق یافتہ تھی اور پہلی شادی سے دوبچوں کی ماں تھی ۔ قاتل ’’پیر‘‘سے دیگربے شمار لوگوں کی طرح مقتولہ بھی اندھی عقیدت رکھتی تھی کہ لسہ بب پہنچا ہوا ملنگ ہے۔ سُوئے اتفاق سے قتل کی واردات کے دن مقتولہ کا نکاح ثانی ہواتھا۔ قاتل لسہ بب عاتکہ بیگم کے گھر گیا ‘ جہاں اپنی مریدن پر کلہاڑی سے دھاوابول کر اس کے بہیمانہ قتل کا مرتکب ہوا۔ پولیس کی تفتیشی رُوداد میں یہ اہم نکتہ بھی شامل ہے کہ قاتل کا دماغی توازن سے محروم ہے ۔ اب یہ قانون کا کام ہے کہ آیا اسےقتل ِعمد مانے یا قتل سہو سمجھے ۔
چوگل ہندوارہ میں پیش آیا المناک سانحہ اپنی نوعیت کا پہلا دردناک واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی اس طرح کی لرزہ خیز وارداتوں کی داستانیں گرد آلودہ تاریخ کا حصہ بنی ہوئی ہیں مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ بھولے بھالےلوگ اس سیاہ تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے ہر کس وناکس کو پیرو ملنگ اورخداترس روحانی پیشوا سمجھ کراس کی عقیدت میں عقل کے دروازے اور فہم کی کھڑکیاں بند کر جاتے ہیں ۔ بے شک مختلف انسانی سماجوں میںروحانی پیشوا اور مردِقلندر ہوا کرتے تھے اور اب بھی کہیں کہیں ایسا کوئی خدا رسیدہ غار نشین یا خلوت گزیں ہوکر محو عبادت ہو مگر اسے خدائیت کا ہمسر بنانا قطعی طور اس کی شخصیت سے ناانصافی اور خود سے زیادتی ہے ۔ ہر ایرے غیر نتھو خیرے کو روحانی امام کادرجہ دینا ، ہر چرسی اور نشہ باز کو درویش خدامست سمجھنا ‘ ہر بدطینت ‘ بدباطن اور ہوس کے پجاری کو سادھو سنت کے رُتبے پر فائز جاننے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں آسارام اور رام رحیم جیسے لوگ گمراہی اور غلط کاری کے گہرے گڑھے میںزندہ گاڑ جاتے ہیں ۔ آستھا اور عقیدت اپنی جگہ مگر آنکھیں بند کر کے ہر چمکنے والی چیز کو سونا سمجھنا بہت بڑی بھول ہے ‘جس کی وقت آنے پرہمیں بھاری قیمت بھی چکانی پڑتی ہے ۔ ہندوارہ کا واقعہ اسی طرف اشارہ کرتاہے۔
نقلی ملنگ، جعلی درویش،ڈھونڈنگی بابا ،جیب تراش نجومی ، جھوٹےعامل ‘جادو ٹونے کےخود ساختہ ماہر اور اسی قبیل کے دیگر بدمعاش اصل میں رنگے سیار ہوتے ہیں ۔ فریب کاری اِن کی غذا ‘ لوٹ کھسوٹ ان کا دَھندا ‘ مکر وجعل سازی ان کا مشغلہ ہوتا ہے ۔ یہ دھوکےباز اپنےتوہم پرست مریدوں اور اَندھ وشواسی عوام کو ٹھگنے کے گورکھ دھندوں میں پوری مہارت سےبڑے بڑوں کو مات دیتے ہیں۔ اکثر وبیش تران کے شیطانی فن کا ٹریڈ مارک یہ ہوتاہےکہ اپنے اردگرد جمع تو ہم پرستوں کو سبز باغ دکھا ؤ ‘ اُنہیں جھوٹ کی وادیوں میں خوب گھماؤ پھراؤ‘ ایک بار وہ رام ہوگئے تو پھر جتنا چاہو اور جیسےجی کرے اُن پر ہاتھ صاف کرو ۔ اندھے مقلدین کے درمیان یہ سار اکچھ کر گزرنا اُن کے لئے گویابائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے ۔
دورِ جدید میںعلم ‘سائنس ‘ تعلیم‘ میڈیا اور مواصلات کی وسیع وعریض کائنات میں برق رفتار ترقی سے اگرچہ سماج میں توہم پرستی کا اندھیرا تقریباً چھٹ چکا ہے‘ لوگ جان چکے ہیں کہ خدا سے تعلق ‘ روح کی صفائی ِ‘ روزمرہ مسائل کا حل‘ مشکلات کا نپٹارا صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ انسان نہ صرف اچھا عمل کرےِ محنت ومشقت سے اپنا فریضہ انجام دے بلکہ اپنا بھلا چاہنے کے علاوہ دوسروں کے حق میں بھی بھلائی کا ہی سوچتا رہے۔بالفاظ دیگر روحانی عرفان اور قلب کی تسکین محض ایک نجی معاملہ ہے ۔ بلاشبہ آج بھی روحانیت کے حوالےسے سمجھ دار لوگ مولانا عبدالستار ایدھی اور مدر ٹریسا کی مثالی روح پرور اورخدمت گزار زندگیوںسے انسپائر ہوتے ہیں ؎
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں‘ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
(علامہ اقبال)
بہرصورت زیادہ تر پڑھے لکھے اور فہمیدہ لوگ رنگے سیاروں کی سیہ کرتوتوں کے ہتھے چڑھ نہیں جاتے مگر افسوس کہ کچھ سادہ لوح اَن پڑھ یا اَدھ پڑھ اور خواب وخیال کی دنیا میں رہنے والےکم فہم وناداں لوگ اُن کے مکر وفریب کے چکر میں ضرور پھنس جاتے ہیں۔ان کے مایا جال میں پھنسنے والے زیادہ تروہ بدنصیب افراد شامل ہوتے ہیں جو یاتو اپنے فرضی حریفوں کے قیاسی سحرجادو سے نجات پانے کے خواہش مند ہوتے ہیںیا خوداپنے مخالفین کو جادوٹونے سے پچھاڑکر اُن سے بدلہ لینے کی آرزو دل میںپالے ہوتے ہیں۔وہ بے اولاد میاں بیوی بھی اس صف میں شامل ہوتے ہیں جواولاد پانے کے فطری خواب کو شرمندہ ٔ تعبیر کر نے کے لئے بہت ہاتھ پیر مار نے کے باوجود ناکام ہوں تو ان بدقماشوں کے دھوکے میں صرف اس غرض سے آجاتے ہیں کہ سنتان کا سکھ پاسکیں۔ کچھ وہ عقل کےا ندھے دل کے فریبی بھی اس قطار میں کھڑا ہوتے ہیں جوراتوں رات سیم وزر کے محلات بنانے کی غرض سے ابلیس کے ان ہرکاروں کے دام ِ ہم رنگ زمین میں آ جاتے ہیں۔ بعضے ناکامیٔ محبت ، ملازمت کے حصول ‘ خانگی لڑائی جھگڑے سے گلوخلاصی حاصل کرنے ‘ کاروبار میں ترقی پانے‘ کسی موذی مرض سے شفایاب ہونے وغیر ہ وغیرہ وجوہ کی بنا پر اس استحصالی چنڈال چوکھڑی کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ اکثرالاوقات ڈھونگی ٹولے کی اندھی پیروی کر کرکے ان عقیدت مندوں کی جان ومال پر بھی بن آتی ہے، ان کا عزت و وقار بھی خاک میں مل جاتا ہے ، ان کا سکون وچین بھی چھن جاتا ہے‘ ان کی زندگیاں بھی اجیرن ہو کررہ جاتی ہیں۔ حد یہ کہ ان ڈھونگیوں کے پاؤں چاٹتے چاٹتے ان کے مریدوںکی روحیں اتنی بھٹک جاتی ہیں کہ ایسی الم ناک خبریں جنم لیتی ہیں کہ قلم میں انہیں بیان کرنے کایارا نہیں۔حتیٰ کہ ایسی دلدوز خبریں بھی بارہا بن جاتی ہیں کہ کوئی پاگل مرید اپنے من کی مراد پانے کے لئے ڈھونگی کے بہکاوے میں آیاتو بغیر سوچے سمجھےاپنے یا کسی غیر کےپیارے پیارے بچے کو دن دھاڑے فرضی ہستیوںکی ’’خوشنودی‘‘ حاصل کر نے کی نیت سے یا نحوست وبدقسمتی کے مو ہوم ستارےسے چھٹکارا پانے کے نام پربلّی چڑھا گیا۔ اس کی ایک مثال شمالی دلی کے علاقہ بُراری میں ۲۰۱۸ کو چنداوت گھرانے میںبنی وہ الم ناک سانحہ ہے جس کو یاد کرکے قلم کی زبان بھی تھرتھر کانپ جاتی ہے ۔ اس المیےنے پورے ملک میں صدمے کی لہر دوڑادی ۔ یاد کیجئے جب یہاں ایک ہی سادہ مزاج شریف ( مگر بے شک نفسیاتی طوراندھ وشواسی ) گھرانے کے گیارہ فیملی ممبران (مردوزَن اور طفل وجواں ) نے کسی تانترک کی ترغیب پر اس احمقانہ وہم وگمان میں اپنے ہی گھر میں ایک دوسرے کے گلے میں رسی ڈال کر اجتماعی خود کشی کی کہ بعداَزمرگ اُن کی روحیں واپس اُن کے جسموں میں لوٹیں گی ‘پھر ان سب کے تمام دُکھ دردکا مداوا ہوگا‘ اُنہیں سُرخاب کے پر بھی لگیں گے‘ اُن کے گھر ہُن بھی برسے گا‘ خوش حالی اور لکشمی کی دیوی بھی پدھارےگی مگر ایساکچھ بھی نہ ہو ا۔ وہ چلے گئے ہمیشہ کے لئے چلے گئے‘ زمانے کی آنکھ اُن کے انجام پر بس خون کے آنسو روئی ۔ تانترک نے جوپٹی انہیںپڑھائی تھی ‘اس کی بھاری قیمت چکانے کے بعد بھی ان کی آتمائیں اُن کے شریر میں واپس نہ لوٹ آئیں۔
یہ سب کچھ شیطانی ڈھونگیوں کا ٹولہ اپنے لالچ کا پیٹ بھرنے کے لئے کر گزرتا ہے ۔ ہمارے لئے یہ سارےمعاملات اجتماعی اور انفرادی سطح پر درس عبرت و باعث ِموعظت ہیں ۔ حکومت کو اس ضمن میں اپنی منصبی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ان ڈھونگیوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تاکہ عوام کا جان ومال محفوظ رہے۔ این جی اوز پر خاص کر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کو نقلی عاملوں اور جعلی درویشوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ خبردار اور چوکنا رہنے کی تلقین کیا کریں ۔ سوشل میڈیا ان چیزوں کو اُجاگر کر نے میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا پابند ہے مگر جس طرح سے اس پلیٹ فارم سے اب بعض لوگ کیمرے ہاتھ میں لے کر پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہر راہ گیر کو ہندوارہ کا لسہ بب جیسا ڈھونگی جتلاکراس کی سرعام تذلیل کرنے میں لگے ہیں‘ یہ درد کی دوا نہیں بلکہ اصل مسئلے کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے ۔اس طرز عمل سے اجتناب کرنا سوشل میڈیا والوں کے لئے از بس ضروری ہے ۔