• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home صحت و سائنس

بگ بینگ: کائنات کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟

Online Editor by Online Editor
2023-12-20
in تازہ تریں, صحت و سائنس, کالم
A A
بگ بینگ: کائنات کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟

Rocks And Debris In Outer Space - Contain 3d Rendering

FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:ڈاکٹر سہیل زبیری

جب آئن سٹائن نے 1915 میں اضافیت کا عمومی نظریہ وضع کیا تو اسپیس اور ٹائم کے بارے میں ہمارے دیرینہ تصورات میں ایک انقلابی تبدیلی آئی۔نظریہ اضافیت کا سب سے چونکا دینے والا نتیجہ یہ تھا کہ کائنات جامد نہیں ہے، بلکہ پھیل رہی ہے۔ یہ نتیجہ اتنا حیران کن تھا کہ خود آئن سٹائن کے لیے بھی ناقابل یقین تھا۔ پھیلتی ہوئی کائنات کے تصور سے ان کی بے چینی اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے ایک مستحکم کائنات کو یقینی بنانے کے لیے اپنی مساواتوں میں مصنوعی طور پر ایک اصطلاح شامل کی۔ یہ وہ چیز تھی جس پر وہ بعد میں پچھتائے اور اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا۔

پھیلتی ہوئی کائنات کا خیال اتنا ناقابل قبول کیوں تھا؟

اس لیے کہ ایک پھیلتی ہوئی کائنات کا مطلب یہ ہے کہ، ماضی میں ایک وقت، کائنات ایک نقطہ پر مرتکز رہی ہوگی۔

کائنات کے پھیلاؤ کی پیشین گوئی کرنے والے پہلے شخص، روسی سائنسدان الیگزینڈر فریڈمین تھے جنہوں نے 1922 میں، آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ فریڈمین زیادہ دن زندہ نہیں رہے اور 1925 میں اپنی پیشین گوئی کے سچ ثابت ہونے سے پہلے ہی انتقال کر گئے۔

بیسویں صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافتوں میں سے ایک برطانوی ماہر فلکیات، ایڈون ہبل کا مشاہدہ تھا کہ کھربوں کہکشاؤں سے بھری ہوئی کائنات تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس سادہ سے مشاہدے نے کائنات کے بارے میں ہمارے تصور کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ یہ تحقیق مشاہداتی کاسمولوجی کے نئے شعبے کی پیدائش کا باعث بنی۔

اس تحقیق کا سب سے زیادہ ڈرامائی نتیجہ یہ دریافت تھی کہ کائنات ہمیشہ سے قائم نہیں، بلکہ چند ارب سال پہلے اس کا آغاز ہوا تھا۔

1929 میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں، ہبل نے دکھایا کہ بہت دور پائی جانے والی کہکشائیں ہم سے دور ہوتی جا رہی ہیں، اور دور ہونے کی رفتار براہ راست ہم سے فاصلے کے متناسب ہے۔ اس طرح، ایک قریبی کہکشاں دو رکی کہکشاں کے مقابلے میں ایک کم رفتار کے ساتھ ہم سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ہبل نے یہ حیران کن نتیجہ چوبیس کہکشاؤں کے مشاہداتی اعداد و شمار کی بنیاد پر نکالا جن کے لیے فاصلے کے ساتھ ساتھ ان کی زمین سے دور ہونے والی رفتار بھی دستیاب تھی۔

پھیلتی ہوئی کائنات کے تصور کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ آئیے ہم اپنی کائنات کو گو ندھے ہوئے میدے کی طرح تصور کرتے ہیں جس میں کہکشائیں اس طرح جڑی ہوئی ہیں جیسے میدے میں کشمش۔ جیسے جیسے میدہ پھیلتا ہے (جیسا کہ بیکنگ کے دوران) ، کشمش ایک دوسرے سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔

اس مثال میں ہم تین کشمش تصور کرتے ہیں جو میدے میں ابتدائی طور پر اس طرح موجود ہیں کہ پہلی اور دوسری کشمش کے درمیان فاصلہ 5 سیٹی میٹر ہے جبکہ دوسری اور تیسری کشمش کے درمیان فاصلہ 10 سنٹی میٹر ہے۔ فرض کریں کہ بیکنگ کے دوران میدہ پھیلتا ہے اور نتیجتاً پہلی اور دوسری کشمش کے درمیان فاصلہ 10 سینٹی میٹر اور دوسری اور تیسری کشمش کے درمیان فاصلہ 20 سینٹی میٹر ہو جائے گا۔ اگر یہ توسیع 5 منٹ میں ہوتی ہے تو دوسری کشمش کے مطابق پہلی کشمش کی رفتار ایک سینٹی میٹر فی سیکنڈ جبکہ تیسری کشمش کی رفتار دو سینٹی میٹر فی سیکنڈ ہو گی۔

اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح ایک قریبی کہکشاں دور کی کہکشاں کے مقابلے میں سست رفتار سے حرکت کرتی نظر آتی ہے۔

ایک اور مثال کے طور پر ، ہم ایک دو جہتی کائنات تصور کرتے ہیں۔ ہم تصور کرتے ہیں کہ یہ کائنات ایک غبارے کی سطح پر مشتمل ہے۔ جس میں مختلف نقطے پھیلی ہوئی کہکشاؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جیسے جیسے غبارہ پھیلتا ہے، ان نقطوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا جاتا ہے۔ قریبی نقطوں کے درمیان بڑھتے فاصلے کی رفتار دور پائے جانے والے نقطوں کے مقابلے میں کم ہوگی۔ اس طور ہبل کے مشاہدے کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔

فلکیاتی اعداد و شمار سے، ہبل نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کہکشاؤں کی نسبتی رفتار اور ان کے درمیان فاصلے کا تناسب سب کہکشاؤں کے لیے برابر تھا۔ اس تناسب کو ، جو کاسمولوجی میں سب سے اہم شمار کیا جاتا ہے، ہبل کے اعزاز میں ان کے نام سے موسوم کرتے ہوئے Hubble constantکا نام دیا گیا۔ ہبل نے حساب لگایا کہ یہ تناسب 170 کلومیٹر فی سیکنڈ فی ملین نوری سال ہے، یعنی دو کہکشائیں جن کے درمیان ایک ملین نوری سال کا فاصلہ ہے، ایک دوسرے سے 170 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ انسانی تاریخ کی انتہائی اہم دریافت تھی جس نے کائنات کی پیدائش اور اس کے ارتقا کے بارے میں پہلی بار ٹھوس سائنسی ثبوت فراہم کیے ۔

ہبل سے وابستہ اس تناسب کو میں ایک سادہ مثال سے واضح کرتا ہوں۔

آئیے دو کاروں پر غور کریں۔ فرض کریں کہ پہلی کار 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اور دوسری کا ر60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک ہی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر ان کے درمیان فاصلہ 300 کلومیٹر ہے، تو متعلقہ ’Hubble constant‘ ان کاروں کے مابین رفتار ( 60۔ 30 ) = 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کو دونوں کاروں کے درمیان فاصلہ 300 کلومیٹر سے تقسیم کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ نمبر 30 کلومیٹر فی گھنٹہ فی 300 کلومیٹر یا 1 / 10 فی گھنٹہ ہے۔

چونکا دینے والا مشاہدہ یہ ہے کہ خلا میں کہکشائیں حرکت نہیں کر رہی ہیں، یہ کہکشاؤں کے درمیان زماں (space) ہے جو پھیل رہی ہے۔

اس عجیب و غریب حقیقت کو کیسے سمجھیں؟

اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک مرتبہ پھر پھیلتے ہوئے غبارے کی مثال پر غور کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر فرض کرتے ہیں کہ غبارے کی سطح پر کچھ نقطے ہیں۔ اگر ہم غبارے کی سطح کو دو جہتی کائنات تصور کریں تو ہر نقطے کو ایک مختلف کہکشاں سمجھا جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے غبارے میں ہوا بھری جاتی ہے، یہ نقطے ایک دوسرے سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن یہ اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ یہ نقطے خود حرکت کر رہے ہیں، بلکہ یہ نقطے اس لیے ایک دوسرے سے دور ہوتے جاتے ہیں کیونکہ ان کے درمیان کی جگہ پھیل رہی ہوتی ہے۔ زیادہ دور کے نقطے زیادہ رفتار سے حرکت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مثال ہبل کے اس مشاہدے کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ کہکشاؤں کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے اور جو کہکشاں جتنی دور ہے اتنی تیزی سے دور ہوتی نظر آتی ہے۔

دلچسپی کا سوال یہ ہے کہ ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے؟

ان پیمائشوں میں استعمال ہونے والا بنیادی خیال دور دراز کہکشاؤں سے آنے والی روشنی کے طول موج (wavelength) میں تبدیلی ہے۔ دور دراز کہکشاں میں ستارے سے خارج ہونے والی روشنی کی ایک خاص طول موج ہوتی ہے۔ اگر تمام کہکشائیں جامد ہوتیں تو زمین پر یہ روشنی بغیر کسی تبدیلی کے موصول ہوتی۔ تاہم، اگر کہکشاں زمین سے دور ہوتی جا رہی ہے تو ، کہکشاں اور زمین کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس طور روشنی کی لہریں پھیل جاتی ہیں اور طول موج بڑھ جاتی ہے۔

اس طور ایک دور جاتے ہوئے ستارے سے خارج ہونے والی نیلی روشنی کائنات کی توسیع کی وجہ سے ہمیں سرخی مائل نظر آئے گی۔ طول موج کی تبدیلی کی مقدار ہمیں بتا سکتی ہے کہ ستارہ کس رفتار سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ طریقہ جس کو کاسمولوجیکل ریڈ شفٹ کا نام دیا جاتا ہے، دور کے اجسام فلکی کی حرکت کی پیمائش کرنے کا ایک معیاری طریقہ ہے۔

پھیلتی ہوئی کائنات کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ، اگر کائنات ایک مستقل رفتار سے پھیل رہی ہے، تو ماضی میں کوئی لمحہ ایسا ہو گا جب پوری کائنات ایک نقطے پر مرکوز ہو گی۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ایک پھولتے ہوئے غبارے کو دیکھ کر ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ماضی میں کسی وقت غبارہ ایک نقطے پر مرکوز ہو گا۔

یہ لمحہ کائنات کا نقطہ آغاز ہونا چاہیے!

یہ ایک چونکا دینے والا نتیجہ تھا۔ کائنات جس کو ازلی تصور کیا جاتا تھا، اس کی ابتدا تو ایک نقطے سے ہوئی۔ ایک لمحہ تھا جب زمان و مکاں ایک نقطے پر مرکوز تھے۔ اس لمحے پر ایک بگ بینگ ہوا۔ یہ کائنات کی ابتدا تھی اور کائنات اس لمحے سے مسلسل پھیل رہی ہے۔

ہبل کے قانون سے کائنات کی عمر کیسے معلوم کی جائے؟

آئیے ہم دو کاروں کی مثال پر واپس جائیں جو ایک ہی سمت میں چل رہی ہیں۔ ہم سوال پوچھتے ہیں : اگر پہلی کار 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اور دوسری کار 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہی ہیں اور وہ ایک دوسرے سے 300 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، تو وہ ایک ہی مقام پر کتنی دیر پہلے تھیں؟ اس سادہ سے سوال کا جواب ہے، 10 گھنٹے۔ اس کو سمجھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر دونوں کاریں کسی مقام پر ایک ہی وقت پر ایک ساتھ سفر شروع کرتی ہیں، تو 10 گھنٹے کے بعد ، 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی کار 300 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکی ہو گی، جب کہ اسی دورانیے میں دوسری کار 60 کلومیٹر فی گھنٹہ سے حرکت کرتے ہوئے 600 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گی۔ اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دونوں کاروں کے درمیان 300 کلومیٹر کا فاصلہ ہو گا۔

اس سوال، کہ دونوں کاریں کتنی دیر پہلے ایک ساتھ تھیں، کا جواب دینے کا ایک اور سیدھا طریقہ یہ ہے کہ ہبل کونسٹنٹ کو ایک سے تقسیم کر دیا جائے۔ ہماری مثال میں، ہبل کونسٹنٹ 30 کلومیٹر فی گھنٹہ فی 300 کلومیٹر ہے۔ ایک سے تقسیم کرنے کے بعد جواب ہے 300/30= 10 گھنٹے۔

اب ہم اس سوال کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں کہ کائنات کی عمر کتنی ہے؟

ہبل کی اہم دریافت یہ تھی کہ تمام کہکشاؤں کا ہبل کونسٹنٹ یکساں ہے، اور یہ نمبر 170 کلومیٹر فی سیکنڈ فی ملین نوری سال ہے، یعنی دو کہکشائیں جن کے درمیان ایک ملین نوری سال کا فاصلہ ہے، ایک دوسرے سے 170 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن ہبل کی پیمائش تو 1930 کے لگ بھگ تھی جب مشاہدے کے آلات فرسودہ تھے۔ وقت کے ساتھ پیمائش کے آلات میں بہتری آتی گئی اور یہ دیکھا گیا کہ ہبل کونسٹنٹ دراصل 15 کلومیٹر فی سیکنڈ فی ملین نوری سال ہے۔ اس طور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وہ وقت جب یہ سب کہکشائیں ایک نقطے پر مرکوز تھیں، دس لاکھ نوری سال کو 15 کلومیٹر فی سیکنڈ سے تقسیم کر کے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ یہ دورانیہ 20 بلین سال بنتا ہے۔ یعنی کائنات کی ابتدا بیس ارب سال پہلے ہوئی۔

یہ اس سے کچھ مختلف ہے جسے ہم اب کائنات کی اصل عمر مانتے ہیں جس کا تخمینہ 13.8 بلین سال ہے۔ اس تفاوت کی وجہ یہ ہے کہ ہبل کونسٹنٹ سے جو عمر کا حساب لگایا گیا تھا اس کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ کائنات کی توسیع کی شرح اس کی پیدائش سے لے کر آج تک یکساں ہے۔ تاہم، یہ درست نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ، جیسا کہ ہم آئندہ مضمون میں دیکھیں گے، کائنات ابتدائی لمحات میں بہت تیزی سے پھیلی اور پھر توسیع کی رفتار کم ہو گئی۔ کسی بھی وقت توسیع کی شرح اس وقت کائنات میں موجود توانائی پر بھی منحصر تھی۔ مثال کے طور پر ، کہکشائیں اپنی باہمی کشش ثقل کے زیر اثر سست رفتار سے پھیل رہی ہیں۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا بگ بینگ کا کوئی اور ثبوت بھی ہے؟

اس سوال سے وابستہ سب سے اہم دریافت 1964 میں ہوئی، جب اس تابکاری کو دریافت کیا گیا جو کائنات کی پیدائش کے وقت موجود تھی۔ کائنات کی پیدائش کے وقت تو اس کا درجہ حرارت بہت زیادہ تھا لیکن کائنات کے پھیلاؤ کے نتیجے میں درجہ حرارت بہت کم ہو گیا۔ اس تابکاری کو cosmological microwave background radiation کا نام دیا جاتا ہے۔

کائناتی پس منظر کی اس تابکاری کی دریافت کی ایک رنگین تاریخ ہے۔

1964 میں، ریڈیو فلکیات دان آرنو پینزیاس اور رابرٹ ولسن ہماری کہکشاں، ملکی وے میں موجود فلکی اجسام سے خارج ہونے والی ریڈیو لہروں کی شدت کی پیمائش کر رہے تھے۔ یہ مشاہدات امریکہ میں واقع بیل ٹیلی فون لیبارٹری میں ریڈیو اینٹینا کا استعمال کرتے ہوئے کیے جا رہے تھے۔ ریڈیو اینٹینا ایک انتہائی حساس آلہ ہے۔

پینزیاس اور ولسن کے لئے جو چیز بہت حیران کن تھی وہ یہ کہ وہ جس طرف بھی اپنے ریڈیو اینٹینا کا رخ کرتے تھے انہیں مائیکرو ویو تابکاری کے سگنل موصول ہو رہے تھے۔ شروع میں انہیں لگا کہ ان کے اینٹینا میں کچھ گڑبڑ ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ کبوتروں کے ایک جوڑے نے اینٹینا کے اندر اپنا گھونسلہ بنا رکھا ہے۔ بقول پینزیاس کے، اینٹینا کو ایک ’سفید ڈائی الیکٹرک مواد‘ سے آلودہ کیا گیا تھا۔ ان کے نزدیک ممکنہ طور پر یہ اس مائیکروویو تابکاری کا ذریعہ ہو سکتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے اینٹینا کو صاف کیا تو کچھ فرق نہیں پڑا۔ مائیکروویو تابکاری اب بھی موجود تھی۔ ایک محتاط پیمائش سے انہوں نے معلوم کیا کہ اس تابکاری کا مساوی درجہ حرارت تقریباً 3 ڈگری کیلون تھا جو ۔ 267 ڈگری سینٹی گریڈ کے برابر ہے۔

پینزیاس اور ولسن کے پیش نظر معمہ یہ درپیش تھا کہ اس تابکاری کا ماخذ کیا ہے؟

پنزیاس اور ولسن کو جو بات معلوم نہیں تھی وہ یہ کہ چند میل دور پرنسٹن یونیورسٹی میں ایک نوجوان سائنسدان فلپ پیبلز یہ پیشین گوئی کر رہے تھے کہ بگ بینگ کے ابتدائی چند منٹوں میں تابکاری کی ایک بہت بڑی مقدار ضرور موجود ہو گی۔ جیسے جیسے کائنات پھیلتی گئی، اس تابکاری کا درجہ حرارت کم ہونا چاہیے۔ پیبلز کے خیالات پرنسٹن کے ایک سینئر ساتھی، رابرٹ ڈکی سے متاثر تھے، جن کا بھی یہ خیال تھا کہ کائنات کے ابتدائی لمحات سے بچی ہوئی کچھ تابکاری اب بھی باقی ہے۔ ڈکی اس بچ جانے والی تابکاری کو تلاش کرنے کے لیے ایک ریڈیو اینٹینا بنانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ یہ وہ وقت ہے جب وہ اور پیبلز، پینزیاس اور ولسن کے مشاہدات سے واقف ہوئے اور انہیں سمجھایا کہ وہ جس چیز کا مشاہدہ کر رہے تھے وہ بگ بینگ سے بچ جانے والی تابکاری تھی۔

پینزیاس اور ولسن کو 1978 کا نوبل انعام دیا گیا۔ پیبلز کو نوبل انعام حاصل کرنے کے لیے 2019 تک انتظار کرنا پڑا۔

ان سگنلز کی اصلیت کو کس طرح سمجھا جا سکتا ہے؟
یہ دریافت کس طرح بگ بینگ کی توجیح کا ایک ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتی ہے؟

کائنات ایک نقطہ سے شروع ہوئی جس میں تابکاری کی بہت زیادہ مقدار تھی۔ اپنی زندگی کے پہلے 380,000 سالوں کے دوران پھیلتی ہوئی کائنات پر چارج شدہ ذرات، الیکٹران اور پروٹون، اور برقی طور پر غیر جانبدار نیوٹران کے ساتھ ساتھ روشنی کے ذرات، فوٹون کا غلبہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب کائنات انتہائی گرم تھی۔ لیکن اس وقت روشنی الیکٹران اور پروٹون میں بکھری ہوئی تھی اور زیادہ دور تک سفر نہیں کر سکتی تھی۔ ان چارج شدہ ذرات کا سوپ کائناتی دھند کی طرح کام کرتا تھا۔

صورت حال ایک گھنی دھند کے اندر روشنی کے بکھرنے کے مترادف تھی۔ روشنی ایک ذرے سے دوسرے ذرے سے ٹکراتی تھی اور دھند میں مقید تھی۔ جب کائنات کا درجہ حرارت پھیلنے کے نتیجے میں تقریباً تین ہزار ڈگری کیلون تک ٹھنڈا ہوا تو الیکٹران، پروٹون اور نیوٹران، ایٹم کی شکل اختیار کرنے لگے۔ چونکہ روشنی ایٹموں کے ساتھ مضبوطی سے تعامل نہیں کرتی تھی، اس لیے یہ طویل فاصلے تک سفر کرنے کے قابل ہو گئی۔ اس طور کائناتی دھند صاف ہو گئی۔ یہ صورت حال آج تک برقرار ہے اور ہم روشنی کا اربوں اور کھربوں نوری سالوں کا سفر بغیر کسی رکاوٹ کے دیکھ سکتے ہیں۔

اب ہم واپس اس تابکاری کی طرف آتے ہیں جو کائنات میں پھیلی ہوئی ہے، اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پچھلے مضامین میں، میں نے بتایا تھا کہ 1900 میں جب میکس پلانک نے کوانٹم میکینکس کی بنیاد رکھی تو روشنی کی طول موج اور درجہ حرارت کے درمیان ایک تعلق کو دریافت کیا تھا۔ انہوں نے دکھایا کہ اگر تابکاری میں موجود توانائی کی مقدار یکساں ہے اور تبدیل نہیں ہوتی، تو درجہ حرارت اور روشنی کی طول موج کے مابین تعلق یوں ہوتا ہے کہ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو طول موج کم ہوتی ہے اور جب درجہ حرارت کم ہوتا ہے تو طول موج بڑھ جاتی ہے۔ میکس پلانک کے مطابق، 3000 ڈگری کیلون کا درجہ حرارت ایک مائیکرون (ایک میٹر کے دس لاکھویں حصہ) کی طول موج کی روشنی کے مساوی ہے۔ کائنات کی توسیع کا اثر کائنات کے سائز کے تناسب سے فوٹون کی طول موج کو بڑھانا ہے۔

کائنات کی توسیع کے ساتھ طول موج کے بڑھنے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔

ایک ربڑ کے بینڈ کو تصور کریں جس پر ایک لہر کی شکل بنی ہوئی ہے۔ اگر اس لچکدار بینڈ کو دونوں ہاتھوں سے کھینچا جائے تو لہر پھیل جائے گی اور اس کی طول موج بڑھتی دکھائی دے گی۔ بالکل اسی طرح جب کائنات پھیلتی ہے، تو جگہ پھیلتی ہے اور روشنی یا فوٹون کی طول موج بڑھ جاتی ہے۔ طول موج میں اضافے کی شرح کائنات کی توسیع کی شرح کے براہ راست متناسب ہے۔

جب کائنات کا درجہ حرارت تین ہزار ڈگری تھا تب سے کائنات ایک ہزار گنا پھیل چکی ہے۔ لہذا، فوٹون کی طول موج ایک ہزار گنا بڑھ گئی ہے۔ اس طور کائنات میں پھیلی روشنی کی طول موج ایک مائیکرون سے ہزار گنا زیادہ، یعنی ایک ملی میٹر، کے برابر ہو چکی ہے۔ یہ مائیکروویو تابکاری کے مساوی ہے۔ متعلقہ درجہ حرارت 2.87 ڈگری کیلون کے برابر ہے۔ یہ کائناتی پس منظر کی مائیکرو ویو تابکاری ہے جسے پینزیاس اور ولسن نے 1964 میں دریافت کیا تھا۔ یہ فلکیات دانوں کو موصول ہونے والا سب سے قدیم سگنل ہے۔

کائنات کے پھیلنے سے وابستہ یہ درجہ حرارت پوری کائنات میں یکساں ہے۔ یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ مائیکرو ویو روشنی کی تابکاری میں بگ بینگ کے بعد پیدا ہونے والی تابکاری میں درجہ حرارت کے چھوٹے تغیرات ہوں گے۔ یہ تغیرات اتنے چھوٹے ہیں، دس ہزار میں ایک حصہ، کہ زمین سے ان کا پتہ چلانا ممکن نہیں تھا۔ 1992 میں، ناسا نے درجہ حرارت کے تغیرات کو تلاش کرنے کے لیے پورے آسمان کو اسکین کرنے کے لیے ایک کائناتی ایکسپلورر سیٹلائٹ بھیجا۔

پیمائش کا نتیجہ نظریاتی پیشین گوئیوں کے مطابق تھا اور اس نے بگ بینگ ماڈل کی درستگی کے لیے ٹھوس ثبوت فراہم کیے تھے۔ درجہ حرارت کے یہ چھوٹے تغیرات قابل مشاہدہ کائنات میں بڑے بڑے اجسام فلکی کی موجودگی کا باعث ہیں۔ ایک ایسا خطہ جس کا درجہ حرارت کائنات کی پیدائش کے وقت انتہائی معمولی طور پر زیادہ تھا، وقت کے ساتھ لاکھوں نوری سال پر محیط ایک وسیع کہکشاں کا جھرمٹ بن گیا۔

کائنات کی پیدائش سے وابستہ ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ کائنات کی زندگی کے پہلے سیکنڈ میں کیا کچھ ہوا۔ یہ وہ لمحات تھے جب ان قوانین کی بنیاد رکھی جا رہی تھی جن کے مطابق یہ کائنات چل رہی ہے۔ یہ میرے اگلے مضمون کا موضوع ہو گا۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

ادھم پور کے کسانوں نے آمدنی بڑھانے کیلئے ہائبرڈ پیاز کے بیجوں کو اپنایا

Next Post

بڑھاپا روکنے کے آٹھ گُر کیا ہیں؟

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
’نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے آیا ہوں‘ : راہل گاندھی

ڈاکٹر سنگھ کے انتقال سے میں نے اپنا رہنما کھو دیا: راہل

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
ایک دو دن میں لیجسلیچر پارٹی کی میٹنگ طلب کرکے حکومت بنانے کا دعویٰ کیا جائے گا :عمر عبداللہ

وزیرا علیٰ عمر عبداللہ کی سربراہی میں ممبران اسمبلی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
وزیر اعلیٰ کا بون اینڈ جوائنٹ اور چلڈرن ہسپتال کا اچانک دورہ 

وزیر اعلیٰ کا بون اینڈ جوائنٹ اور چلڈرن ہسپتال کا اچانک دورہ 

2024-12-25
مونیکا کوہلی جموں کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ میں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مقرر

خواتین وکلا عدالت میں چہرہ ڈھانپ کر پیش نہیں ہو سکتیں: جموں کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ

2024-12-23
Next Post
بڑھاپا روکنے کے آٹھ گُر کیا ہیں؟

بڑھاپا روکنے کے آٹھ گُر کیا ہیں؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan