تحریر:- عبدالمعز عالم چودھری
ریاست جموں و کشمیر کو خوبصورتی کی وجہ سے دنیا کی جنت کہا جاتا ہے۔ جو اپنی خوبصورتی میں بے نظیر ہے۔ لیکن ہائے افسوس، بدقسمتی سے یہ خطہ آزادی کی نعمت سے محروم ہے۔ یہ ابھی تک آزاد نہیں ہوا؟ ہماری ریاست چار ٹکروں میں تقسیم کر دی گی ہے۔
ہمارے منقسم ریاست کے 49 فیصد بڑا حصہ بھارت کے زیر انتظام ہے جو کہ 41،342 مربع میل ہے۔ جبکہ 33 فیصد حصہ پاکستان کے زیر اہتمام ہے ،اس علاقے کو گلگت بلتستان کہا جاتا ہے۔ جس کا رقبہ 27،946 مربع میل ہے، 13 فیصد علاقے پر چین کے پاس ہے ۔جسے اقصائی چن کہتے ہیں۔ اس کا رقبہ 11039 مربع میل ہے۔ جبکہ ہماری منقسم ریاست کا سب سے چھوٹا 5 فیصد حصہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو براہ نام ہے۔ جس کا رقبہ 4144 مربع میل ہے۔
آج اسی آزاد جموں و کشمیر کے بارے تھوڑا سے لکھا جا رہا ہے ۔
آزاد کشمیر میں 10 اضلاع، 32تحصیلیں اور 182 یونین کونسل ہیں۔ اس کا بجٹ راولپنڈی کے نالہ لئی سے کم ہے۔ اس سال نالہ لئی کا بجٹ 40 ارب سے زائد تھا ۔ مجموعی آبادی پنتالیس لاکھ ہے جو گزشتہ مردم شماری میں انتہائی محدود کرتے ہوئے بیس پچیس لاکھ تک رکھی گی ہے ۔ کہنے کو تو الگ قانون ساز اسمبلی ، صدر ، وزیر اعظم ، سپریم کورٹ ، جھنڈا و دیگر ہے۔ لیکن اصل اختیارات اسلام آباد سے تعینات کیے گے لینٹ آفسیران چیف سیکرٹری ، آئی جی، ایڈیٹر جنرل ، سیکرٹری ہیلتھ ، چیرمین کشمیر کونسل ، وزیر امور کشمیر ، جی او سی مری کو حاصل ہیں ۔ بقیہ بجلی، پانی، خوراک، معدنیات ، ڈاک ، وسائل و دیگر خاص محکمہ جات کا دائرہ اختیار پاکستان کے پاس خود ہیں ۔
جبکہ آزاد کشمیر میں نہایت بلند وبالا پہاڑ ہیں۔ اس میں دلکش سبز وادیاں ہیں۔ دریا ،ندیاں، اور نالے ہیں۔ چشمے بہتے ہیں اور آبشاریں پھوٹتی ہیں یہاں ٹھنڈے اور گرم چشمے ہیں۔ کشمیر میں گھنے جنگلات بھی اور میدان بھی ہیں۔ اسے دنیا کی جنت یا جنت ارضی کہا جاتا ہے۔
اس چھوٹے سے علاقے کو اگرچہ ایک کمشنر کنٹرول کر سکتا ہے ، لیکن یہاں 53 ممبران اسمبلی ہیں ، ہزاروں اعلیٰ رینک کے آفسیران ہیں ۔ پنشن ، مراعات ، سہولیات ہر طرح کی عیاشی ، سکون، دولت یہاں کے حکمران طبقہ ، اشرافیہ کو حاصل ہے ۔ ان کے لئے یہ خطہ سرسبز ، شاداب، ہری بھری وسیع ، کھلی چراگاہ ہے۔ دل بھر کر ، نسلوں تک ، دن رات، جیسے مرضی پیٹ ، بھوک ، پیاس بھریں کوئی احتساب ، قانون ، جواب دہی کچھ نہیں ہے ۔
یہاں دو برادریاں ، طبقات اور قبایل ہیں ، ایک یہ مراعات یافتہ ، چہتے منظور نظر ، سہولت کار حکمران طبقہ ، اشرافیہ اور دوسرا مزدور، محنت کش، جوڑ توڑ کر جینے والا۔ حکمران طبقہ کے لئے یہ خطہ جنت ہے ۔ محنت کشوں کے لیے دنیا پر ایک جنم !
75 سالوں میں جب سے اس ٹکڑا کو پوری ریاست توڑ کر الگ کیا گیا تب سے آج تک حقیقت میں کسی منصوبہ بندی سے نیک نیتی سے ایک انچ کاوش ، ترقی نہیں کی ہے۔ اب بدتر صورتحال یہ ہے کہ یہ خطہ نہ تین میں تیرہ میں شمار ہوتا ہے ۔ نہ اس کا مقابلہ بھارتی زیر اہتمام جموں کشمیر کی ترقی ، معیار زندگی سے کیا جا سکتا ہے نہ پنجاب کے ضلع راولپنڈی کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے ۔
یہاں معمولی بیماری بخار، نزلہ ، زکام ، کھانسی تھوڑی بہت ہو تو اس پر لوگ یا ڈاکٹر پینا ڈول دیتے ہیں باقی علاج معالجہ ، معیاری تعلیم ، تربیت ، ہنر، روزگار ، مراعات پنجاب ، پنڈی میں دستیاب ہیں۔ یہاں۔ آزاد کشمیر میں ایک بھی راولپنڈی ، لاہور کے لیول ، معیار کا ہسپتال ، تعلیمی ادارہ ، پروفیشنل سکیلڈ پرسن، کوئی ایک ورکشاپ ، یا دوسری قابل ذکر چیز نہ ہے۔ گاڑیوں کو بھی تسلی بخش مرمت کے لیے پنڈی لے کر جانا پڑتا ہے ۔ ہنر فن ، کارگری کا کوئی ایک ادارہ نہیں ہے ۔ روزگار کا کوئی موقع نہ ہے۔ سیاحت پر کوئی ڈویلپمنٹ نہیں ہے ۔ بجلی کی لؤڈ شیڈنگ ہوتی ہے لیکن یہاں موبائل نیٹ ورک ، انٹرنیٹ کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے ؟
سیز فائر لائن و دیگر اکثر علاقوں میں موبائل سروس تک نہیں ہے ۔ بجلی، تعلیم ، صحت ، سفر کا بوسیدہ نظام جو تباہی کے دہانے پر ہے ۔ کوئی فیکٹری ، کارخانہ ، صنعت نہ ہے۔ جنگلات ، شاملات ، خالصہ ختم ہو کر سکڑ رہے ہیں ، جگہ جگہ تجاوزات ہیں ۔ کوئی ویلج اینڈ ٹاؤن ماڈل پالیسی نہ ہے ۔ ایک بھی ریلوے ٹریک ، ہائی وے ، رن وے، ہوائی اڈہ ، ائیر پورٹ نہیں ہے ۔ غیر معیاری گھٹیا مشروبات ، ادویات ، آٹے ، گھی، آئل ، جعلی اشیاء خوردونوش کے لیے یہ پنجاب کی سب سے بڑی مارکیٹ ، منڈی ہے۔ کینسر سمیت لاعلاج مرض جڑیں پکڑ چکے ہیں ۔ روزگار کی گارنٹی نہیں ، تعلیم ، علاج ، انہتائی مہنگا ہے ۔ تعلیم ، جتنی مرضی حاصل کریں ، روزگار کی ایک فیصد ضمانت نہ ہے۔ یہی وجہ ہے نوجوان اب ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں ترقی یافتہ ممالک کی طرف رخ کر رہے ہیں ۔ اب چند سالوں میں اس خطہ میں عورتوں ، معذروں ، بوڑھوں کی فوج ہو گی اور ان نوجوانوں کی جو بیرون ممالک والوں نے مریضوں کی نقل و حمل اور بنکوں سے روپے کمانے کے لیے رکھے ہوں گے وہی آپ کو ملیں گے ۔ نوجوانوں کا ایک بڑا قحط پاؤں جما چکا ہے ۔ لیکن محرومی ختم نہ ہو گی ، حکمران طبقہ ، سرمایہ دار، اشرافیہ کے لیے یہ زیادہ سود مند ہے ۔ یہ ٹولہ زیادہ موج کرے گا اور استحصال کرے گا ۔
یہاں فور جی کے نام پر ٹو جی کی سروس دی جاتی ہے ۔
بجلی یہاں سے پیدا ہوتی ہے لیکن یہاں استمعال کا حق نہیں ہے ۔ کئی ماہ سے لوگ مفت بجلی مانگ رہے ہیں لیکن نہیں دی جا رہی ہے ۔ ہر طرف مایوسی ، پریشانی ہے۔ حکمران طبقہ کی طرف سے برادری ازم، تعصب، نفرت ، منافقت ، مفاد پرستی کا زہر ذہنوں میں نسلوں میں بری طرح سرعیت کیا جا چکا ہے۔ معمولی اصلاحات متبادل نہیں ہیں جب تک بڑا سماجی آپریشن نہ ہو ۔ لوگوں میں بڑی تعداد میں جہالت ہے۔ جو شعوری فیصلوں میں رکاوٹ ہے ۔ کوئی قابل ذکر ، معقول سیاسی ، سماجی، ترقی پسند ، قوم پرست پارٹی یا ان کے پاس ایسا مقبول ، معقول یا قومی ، عوامی بیانہ نہ ہے۔ ہر طرف دوکانداری کی جا رہی ہے ۔ سیاست سے نوجوانوں ، عوام کا عدم اعتماد کرایا جا رہا ہے ۔ ایک بڑی سازش رچی گی ہے۔
اس خطے کو آزادی ، حقوق، اختیار ، وقار لینا تھا آج اس کی عوام ایک وقت کے آٹے ، ایک یونٹ بجلی کے لیے کئی ماہ سے سراپا احتجاج ہیں اور چھ ماہ سے ان کے ساتھ فراڈ کیا جا رہا ہے ۔ آزاد جموں و کشمیر کا موجودہ ڈھانچہ فلاپ، ناکام ،ناکارہ ہو چکا ہے ۔ اس فرسودہ نظام کو ختم کرنا ہو گا ۔ نیاء عمرانی معائدہ کرنا ہو گا۔ قومی، طبقاتی سوال، بنیادوں پر ، عوام کے لیے خالصتا خطہ کے لیے معقول بیانہ اپنانا ہو گا۔ آزادی سے قبل یہاں کے حکمران طبقہ ، اشرافیہ ، جہالت سے آزادی استحصال سے راہ نجات ہے ۔ نوجوانوں کو متحد ہو کر کوشش کرنی ہو گی ۔ ورنہ مایوسی ہی مایوسی ہے۔ یہاں کوئی لیڈر، رہبر، راہنما ، قائد یا سیاستدان نہیں جو قوم کو کامیابی ، ترقی ، خوشحالی ، امن سے ہم کنار کرے گا ۔ یہاں غیر منظم ، بے سلیقہ، بکھری ہوئی مظلوم ، محکوم ، استحصال زدہ عوام کا سرمایہ دار، حکمران طبقہ ، اشرافیہ اور ان کے آقاؤں سے ہے۔
اگر یہاں کے عوام ، نوجوان ، وکلاء ، صحافیوں ، حقیقی سیاسی جماعتوں نے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی تو اجے والا ایک اور طوفان سب کچھ اکھاڑنے کے تیار ہے ۔ مشترکہ سانجھی جدوجہد میں بین الاقوامی حالات کے مطابق اپنے آپ کو مظلوم عوام کے عالمی نظریات سے جوڑ لیں۔ورنہ یہاں کوئی خوش نہیں ہو گا نہ یہاں رہنے والا نہ یا سے باہر جانے والا۔ یہ آزاد جموں و کشمیر ایک قید خانہ بنتا جا رہا ہے ۔ جس کو ہم نے اپنا گھر سمجھنا شروع کر دیا ہے ۔ اگر سنجیدہ کوشش نہ کی گی تو اس قید خانہ میں مر جائیں گے یا ذہنی مریض بن جائیں گے ۔
