مصنف: راشد پروین
مبصر:ڈاکٹر محمد شاہد صدیقی
انتہائی حسین، خوبصورت گیٹ اپ ،، سر ورق پر ایک ’’خزاں گذیدہ ‘‘تناور درخت ہے جس کے پتے
زمین پر بکھرے پڑے ہیں ، جاندار ، شاندار اور معنی خیز ۔۔ہارڈ باونڈ ، صفحات ۷۶۷،
پبلشرز۔۔۔ ایجو کیشنل پبلشنگ ہاوس دریا گنج نیو دلی
تاریخ ماضی کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میںقومیں اپنی سابقہ غلطیوں کو دیکھ کر اپنا حال بہتر اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کرتی ہیں ۔جو قومیں اپنی تاریخ کو بھلا دیتی ہیں ان کا جغرافیہ بھی بدل جاتا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی قوم کی نظریاتی ،علمی اور فکری پرورش کے لیے اپنے ماضی سے واقفیت اکسیر کی حیثیت رکھتی ہے۔زندہ قومیں ہمیشہ اپنے اسلاف کی قربانیوں ،کا رناموں اور خدمات کی نہ صرف حفاظت کرتی ہیں بلکہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کے لیے بھی ہر ممکنہ اقدام کرتی ہیں۔ اسی نظریے کی حامل کشمیر کی ایک شخصیت رشید پروینؔ بھی ہیں جنہوں نے کشمیر کی تاریخ سے نابلد حلقے کووہاں کے ماضی ،عظمت رفتہ نیز تہذیب وتمدن سے روشناس کرانے کی سعی ناتمام کی ہے اگر چہ انہوں نے اپنا ادبی سفر بحثیت نال اور افسانہ نگار شروع کیا تھا لیکن کالم نگار کی حثیت سے انہوں نے اپنا لوہا منوایا ہے ،، تاریخ سوپور ،میرے سوپور تجھ پہ دل قربان کے بعد یہ ان کی معرکتہ الآرا کتاب کہی جاسکتی ہے
اس سے اتفاق ہی سمجھا جاسکتا ہے کہ میری نگاہوں سے ایک مضمون ’’تاریخ کشمیر کا ایک ورق‘‘کے عنوان سے گذرا جو’’ منصف ‘‘حیدر آباد میں آیا تھا ، ایک بار مضمون کیاپڑھا کہ اس اخبار کے وہ سار ے سوموار کے ایڈشن دیکھے جن میں یہ قسطیں آچکی تھیں اور پھر آگے کی قسطوں کا انتظار رہنے لگا ،،تاریخ سے میری دلچسپی میرے لئے قدرتی بات ہے ،اگر چہ میری نظروں سے کئی مشہور ومعروف تاریخیں گذر چکی ہیں لیکن ان آرٹیکلز نے مجھے کئی لحاظ سے زبردست متاثر کیا اور جو کچھ بھی لکھا جارہا تھا اس میں میرے لئے اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک نیا پن تھا ۔ اس دوران میں ایک بار اپنے دوستوں سے ملنے کشمیر آیا تو ان صاحب کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی ، اپنی تحریروں کی طرح ہی انہیں خوبصورت پایا ۔، اس دوران میں ان کے دوسرے آرٹیکل پڑھنے کا خو گر ہوا جو کشمیر ،قومی پالٹیکس اور کبھی انٹر نیشنل موضوعات پر اردو کے بڑے اخبارات میں آتے رہتے ہیں ، مجھے یہ لکھتے ہوئے کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں اور یہ اپنی جگہ پر ایک بڑی حقیقت ہے کہ رشید پروینؔ ان گنے چنے کشمیری قلمکاروں میں ہیں جو زباں اور طرزتحریر کی وجہ سے اہل زباں کی پہلی صف میںشامل ہیں ، ان کے کالم بھی اپنی نوعیت میں منفرداور نئے نئے نقطہ ہائے نگاہ کے آئینہ دار ہوتے ہیں ، ’’کشمیر تیری میری کہانی ہے‘‘ایک مکمل تاریخ۔ ستی سر سے اب تک پورے پانچ ہزار سال پر مشتمل ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ ان صفحات میں پورے پانچ ہزا ر برس کی مکمل اور لگ بھگ ساری تاریخ سمیٹنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں کیونکہ کم و بیش پانچ ہزار برس کی تاریخ کو صرف ایک جلد ساڑھے سات سو صفحات میں بند کرنا محاور ۃ کوزے میں سمندر بند ہی کہلایا جاسکتا ہے ، ہمارے پاس کشمیر ی تاریخوں کی کئی کئی ضخیم جلد موجود ہیں تب بھی کہیں نہ کہیں تشنگی اور بہت ساری و ضاحتیں رہ جاتی ہیں ،جب کہ اس کتاب میں اپنے اپنے مقام اور جگہ پر وہ ساری وضاحتیں ملتی ہیں اور واقعات اور ان کا پسِ منظر بلکل صاف و شفاف نظر آتا ہے ، ہندو پیریڈ اگر چہ بہ ظاہر بہت مختصر اس کتاب میں موجود ہے لیکن میرے خیال میں بھی کوئی قابل ذکرہندو بادشاہ ان کی نظر سے نہیں چھوٹا ہے اور یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے ان ہندوبادشاہوں کا تذکرہ ان کے قدو قامت اور پیار سے کیا ہے جیسے للتا دتیہ، اونتی ورمن و غیرہ ، اس بات کا احساس ہمیں مسلم پیریڈ میں بھی کہیں نہ کہیں ہوجاتا ہے ۔ اگر چہ یہاں لگ بھگ سارے ہی بادشاہوں کا تذکرہ ضرور ہوا ہے لیکن توجہ اس پیریڈ میں بھی ان بادشاہوں پر مر کوز رہی ہے جو اپنے قد اور اپنی ر عایا پروری کے ضمن میں شاندار رہے ہیں ، اور جن کے دور میں امن و اماں اور عوامی سطح پر بے شمار فلاحی کام انجام پا چکے ہیں ، اور میرے خیال میں مصنف کی عالی ظرفی ہی ہے کہ ایسے بادشاہوں اور ان ادوار کو پیار ، محبت اور بھر پور طریقے سے اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ،۔ رینچن پہلے مسلم بادشاہ کے بعد جتنے بھی مسلم بادشاہوں نے حکومت کی ہے ان کے بارے میں بھی بے لاگ اور بغیر کسی لاگ لپٹی کے ان کے اصل حالات تک پہنچنے کی کوشش کی ہے ، یہاں کی بڑی بڑی آفات جیسے سیلاب ، وبائیں ، ہولناک آگ اور ذالچو جیسے آگ کے دریاؤں سے تیرتی یہ تاریخ اپنے دامن میں ہر وہ باب رکھتی ہے جس کی تلاش میں ہمیں درجنوں تواریخوں کو کھوجنا پڑتا ، اس کے بعد مغلیہ دور ،اس سلطنت کشمیر پر مغلوں کی حکمرانی ، اس کے اسباب ،مغلوں کی جمالیاتی اور حسن نظر و انتخاب ،ان کی عظیم عمارات اور بہشت نما با غات کا تذکرہ حسین انداز میں موجود ہے ، مسلم پیریڈ مکمل وضاحت اور اپنے پورے حالات و واقعات کے ساتھ پوری وضاحتوں کے ساتھ قلمبند ہوا ہے اور پھر افغان دور جو اہل کشمیر کے لئے دورِ ابتلا ہی رہا ہے بھی تجزیوں اور تبصروں کے ساتھ واضح کیا گیا ہے ، سکھ دور اور اس کے بعد ڈوگرہ راج پر بھر پور معلومات یہاں تک کہ ۱۹۴۷ کے پیچیدہ اَن کہے گورکھدھندے ،الحاق اور قبائلی ریڈ وغیرہ کے حادثات و واقعات کی مکمل داستاں اس کتاب میں پڑھی جاسکتی ہے ،اس دور کے کچھ ایسے واقعات یا حادثات جو دوسری تاریخو ں میں ہمیں نہیں ملتے اس کتاب میں وضاحتوں کے ساتھ موجود ہیں اور ان کے ماخذ ،کی نشاندہی انہیں شک و شبہات سے بالا تر کر دیتی ہے ۔ شیخ عبداللہ کا دور بھی وضاحت اور پوری تاریخی حوالوں کے ساتھ رقم ہوا ہے۔ مصنف کے اپنے تجزیوں اور تبصروں کے ساتھ بہر حال اتفاق یا اختلاف معمول کی باتیں ہوتی ہیں لیکن یہ تجزئے یقینی طور پر ہماری سوچوں کو دستک دیتی ہیں ، جس کا مطلب یہی لیا جاسکتا ہے کہ یہ تجزئے مد لل اور وزن دار محسوس ہوتے ہیں ،، یہاں تک کہ نوے کی دہائی تک تمام انتخابات ، ان کے نتائج اور ان کے ردِعمل میں مسلح جدوجہد ، اور ما بعد ملی ٹینسی کے تما م تر چھوٹے بڑے سیاسی حادثات اور واقعات بھرپورے تجزیوں اور تبصروں کے ساتھ موجود ہیں، ملی ٹینسی کے دوران ابھرنے والے مصائب ، مشکلات اور خونین حادثات بڑے پُر اثر انداز میں ہی نہیں بلکہ اپنے نشیب و فراز کے ساتھ قلمبند کر کے مصنف نے بہت سارے نئے زاو ئے ابھارے ہیں جن سے یقینی طور پر ہم نا آشنا ہی رہتے اس کے بعد کشمیر کے سیاسی آسمانوں میں جو نئی جہتیں اور نئے سیاسی افق رونما ہوئے ہیں وہ پوری تفصیلات کے ساتھ اس کتاب میں موجود ہیں ، مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس ، سے لے کر مابعد ۲۰۱۹ کے بعد جنمی سیاسی پارٹیاں جیسی ’’اپنی پارٹی ‘‘ غلام نبی آزاد کی ’’آزاد ڈیمو کریٹک پارٹی ‘‘ جہاںاپنے جنم داتاؤں کے حالات اور پس منظر کے ساتھ نظروں سے گذرتی ہیں ونہیںاس دور کے خونچکاں اور کرب ناک حادثات بھی کسی فلم ہی کی طرح آخری صفحے تک رواں رہتے ہیں ۔شاید اس کتاب کو ۲۰۲۲ تک کی پہلی تاریخ ہونے کا شرف بھی حاصل ہو رہا ہے۔ بہت ہی مختصر میں اس کے بارے میں یہی کہوں گا کہ یہ اپنی نوعیت کی منفرد اور انو کھی تاریخ ہے ، جو ہفتہ وار مضامین پر مشتمل ہونے کے باوجود تاریخ کشمیر کے تینوں ادوار ، ماضی، حال اور مستقبل کا نئے انداز سے تجزیوں اور تبصروںکے ساتھ احاطہ کرتی ہے ،، اس کا انداز بیاں اور اسلوب یقینی طور پر روائتی تاریخوں سے ہٹ کر ہونا ایک ناگزیر سی بات ہے سو اس کتاب کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ۔۔۔ اس تحریرکا، اس کتاب کااور اس تاریخ کا ہے انداز بیاں اور ۔
