تحریر:سہیل سالمؔ
عید الفطرکے ایام مبارک ہوتے ہیںچناچہ یہ ایام مسلمانوں کے لئے مسرت ،شاد مانی اور سکون کاپیغام لاکر مسلمانوں کے لئے ایک مبارک دن ہوتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جس کو رحمت کے دن سے بھی جانا اور پہچانا جاتا ہے کہ اس دن روزہ داروں کے لئے ہر طرف اظہار تشکر کی خوشبو چھڑک جاتی ہے۔شکر کس بات کا اور کس بات پر ؟اس بات کا اللہ تعالی نے ہمیں ماہ رمضان کی صورت میں نیکیوں کا موسم بہار عطا فرمایا کہ اس ماہ مبارک میں ہم اللہ کی رحمت ،مغفرت اور اجر ثواب سے اپنے دامن کو بھر کر آخرت کی کامیابی کا سامان فراہم کریں ۔مسلمانوں کے لئے نیکی اور خیر کے حوالے سے موسم بہار دراصل ماہ رمضان ہے۔اس موسم بہار کے اختتام پر ہمارا دینی تہوار ہے جس کا نام عیدالفطرہے۔ روزہ ماہ رمضان کی ایک فرضی عبادت کا نام ہے۔جسے اسلام کے بنیادی عقائد میں تیسری حیثیت حاصل ہے۔جبکہ اسلامی عبادات میں یہ دوسرے نمبر پر ہے۔اگر کوئی شخص رمضان کا مہینہ پائے اور بغیر کسی شرعی عذر کے وہ روزے نہ رکھے تو وہ حق تعالی کی جانب سزا کا مستحق ہوگا ۔چناچہ حضرت کعبہ بن عجزہؓفرماتے ہیں کہ’’ایک دن حضورﷺخطبہ دینے کے لئے مبنر پر چڑھ رہے تھے جب آپﷺنے پہلے رینے پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین،پھر دوسرے زینے پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین،اور جب تیسرے زینے پر قدم رکھا تب بھی فر مایا آمین۔جب آپ ﷺخطبہ سے فارغ ہوگئے تو صحابہ کرام ؓنے پوچھا یا رسولﷺآج منبر پر چڑھتے ہوئے آپ نے خلاف معمول تین مرتبہ آمین کہا۔آپﷺنے فرمایا جب میں نے پہلے زینے پر قدم رکھا تو جبرائیل نازل ہوئے اور کہنے لگے کہ اللہ اس شخص کو ہلاک کرے کہ جس نے ماہ مبارک پایا گاور اپنی مغفرت کا سامان نہ کیا تو میں نے کہا آمین۔دوسری آمین کے استفار میں آپ نے فرمایا کہ ہلاک ہو وہ شخص جب میرا نام آئے تو وہ درود نہ پڑھے اور تیسری آمین کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ ہلاک ہو وہ شخص کہ جو اپنے والدین کو بڑھاپے کی عمر میں پائے اور وہ ان سے حسن سلوک ادانہ کرے‘‘(صحیح بخاری)۔ہمارے لئے یہ غور فکر کرنے والے لمحات ہیں کہ فرشتوں کے سردار جبرائیل بدعا کریں اور محسن انسانیت ﷺاس پر آمین کہیں ۔ایسے بدنصیب پر باری تعالی کو کتنا جلال آتا ہوگانیر ایسے شخص کو دوزخ کی آگ سے کون بچا سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روزہ دار کو انعام واکرام سے نوازنے کے لئے عید جیسی نعمت سے سر فراز فرمایا۔عید کے معنی ہیں بار بار پلٹ کرآنا ،واپس پھرنا اور خوشی کادن اور تہوار ہیں۔قرآن میں بھی یہ لفظ سورہ مائدہ میں آیا ہے۔’’تب دعا کی عیسی بن مریم نے اے ہمارے رب ہم پر آسمان سے خوان نعمت نازل فر ما جو ہمارے لئے عید ہو‘‘۔(القران۔۔آیت 114)۔اب دیکھئے باربار پلٹ کرآنے والے معنی میں عید ہر سال یکم شوال کو پلٹ کر آتی ہے۔یا بار بار آتی ہے اور تب تک آتی رہی گی جب تک کہ قیامت نہ بر پا ہوجائے گی۔اس دن کو عیدالفطر بھی کہا جاتا ہے کہونکہ اس دن عید کی نماز سے قبل صدقیہ فطر اداکیا جاتا ہے۔یہ صدقیہ آخرت میں نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔یہی نہیں بلکہ خدائے بزرگ وبرتر اپنے مومن بندوں پر انعام وکرام کی بارش بھی کرتا ہے۔روزہ رکھنے کے بعد بندہ مومن کمزور تو ہوجاتا ہے مگر پھر یکم شوال کو اس رات آرام کرنے کے لئے نہیں فرمایا بلکہ عید کی رات میں بھی عبادت میںمصروف رہنے کے لئے کہا گیا ہے ۔عید کی رات باری تعالی اپنے بندوں کے بہت ہی قریب ہوتا ہے۔اور ان کی دعائوں کو سن کرمنظورو مقبول کرتا ہے۔پھر بندہ مومن صبح اٹھتا ہے۔اپنے معمولات سے فارغ ہوکر وہ دوگاانہ واجب کی ادائی کے خاطر عید گاہ جاتا ہے جہاں ایک بڑا روح پرور اجتماع ہوتا ہے۔جہاں دو رکعت نماز باجماعت اور پھر خطبے کی سماعت بندے کو تھکانے یا مزید ابتلاء میں ڈالنے کے لئے نہیں بلکہ یہ اپنے رب کی جانب سے روزے داروں کو ایک قسم کی عیدی ہوتی ہے۔ہمارے معاشرے میں عیدی کا تصور یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے کسی دوسرے بھائی کو نقدی،کپڑے یاکوئی تحفہ خواہ کسی بھی جنس میں ہو دیتا ہے۔مگر مالک حقیقی کی نظر میں ان مادی اشیاء کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔وہ تو بس اپنے بندے سے خوش ہو کراسے جنت کی بشارت دیتا ہے۔اس دن بندے سے اس کا یہ مطالبہ کہ وہ فجر کی نمازباجماعت ادا کرلے پھر صدقیہ فطر ادا کرلے خواہ وہ نقد کی شکل میں ہویا جنس کی صورت میں ہو،نہا دھوکر نئے کپڑے پہنے اور خوش بو لگاکر وقت سے پہلے شہر کے عید گاہ میں داخل ہو کرنماز عید ادا کرے۔یہ سب وہ کیوں کرواتا ہے ۔صرف اس لئے کہ اس دن وہ اپنے نیک بندوں پر بے پناہ عنایات کرنا چاہتا ہے تاکہ ہر سال اس کی عنایات کا شدت و بے چینی سے انتظار کیا جائے یہ اس لئے کہ یہ لمحات تو سال بھر میں صرف ایک ہی بار آتے ہیں۔ اس کی عنایات و بخشش کا انداز ہ اس بات سے لگائیے کہ راستہ بدل کر آنے اور جانے میں بھی اس نے ثواب رکھا ہے۔
عید الفطر جہاں روزے کی توفیق ملنے اور قرآن پاک کے ساتھ مضبوط تعلق کی تجدید کے حوالے سے اللہ کی بارہ گاہ میں تشکر کا دن ہے وہاں یہ امت کی یکجہتی اور اجتماعیت کے اظہار کی بھی آینئہ دار بھی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اجتماع سے اسلام اور اہل اسلام کی شان وشوکت کا اظہار ہو،مگر افسوس کہ اس پہلو سے ہماری حالت بڑی قابل رحم ہے۔ بقول اقبال ؎
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
حضرت محمدؓﷺ کے بتائے ہوئے راستہ پر عمل پیرا ہونا ہے ۔دنیا میں سب سے قیمتی شئے انسانی جان ۔ انسانیت کو بچانے کے لئے دنیا کی جنگ کا ایک حصہ ہے۔ اس بار عیدالفطرکا پیغام یہی ہوگا کہ ہمیں غریبوں،بے کسوں ،یتیموں اور لاچاروںکے ارمانوں ،خواہشات اور ان کی ضرورتوں کا احترام کرنا ہوگا ، ان کے درد وغم میں شریک ہونا ہوگاتاکہ یہ لوگ بھی اننامساعد حالات اور معاشی بحران میں اپنے اہل اعیال کے ساتھ یہ سعادت لمحے خوش اسلوبی کے ساتھ گزاریںجس کے سبب ہم اللہ کی خوشنودی اور رضا مندی حاصل کر سکتے ہیں۔بقول اقبالؔؔ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
