• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم جمعہ ایڈیشن

کشمیر انتخابات ۔مذہبی پیشوا ئوں کا کوئی اتا پتا نہیں

Online Editor by Online Editor
2024-08-22
in جمعہ ایڈیشن
A A
الیکشن کمیشن نے رائے دہندگان کو راغب کرنے اور اِنتخابی تجربے کو بہتر بنانے کیلئے 163خصوصی پولنگ سٹیشن قائم کئے
FacebookTwitterWhatsappEmail

جی ایم بٹ

جموں کشمیر میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے ۔ سیاسی حلقے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں کے لئے الیکشن میں اترنے کے لئے امیدواروں کی کمی ہے نہ ووٹ دینے والوں کا کال پڑا ہے ۔ بلکہ ہر ووٹر کی کوشش ہے کہ اسے کسی نہ کسی پارٹی کا منڈیٹ ملے اور وہ خود کو لیڈر منوائے ۔ آج جو کوئی بھی کسی الیکشن اسٹیج پر نمودار ہوتا ہے چاہئے وہ پہلی بار ہی سامنے آیا ہو سینئر لیڈرکہلاتا ہے ۔ جتنے بھی لوگ الیکشن میدان میں ہیں سب سینئر رہنما کہلاتے ہیں ۔ صرف ایک گروہ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے ۔ وہ ہیں مذہبی پیشوا ۔ ایسے لوگ خود اس میدان میں اترتے ہیںنہ انہیں کوئی پوچھتا ہے ۔ یہاں تک کہ ان کے لئے آنکھیں بچھانے والے بھی ان سے پوچھ کر الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ہیں ۔ چور ، ڈاکووں ، رشوت خوروں اور شرابی و کبابی لیڈروں کے لئے ان کے جو مرید زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں انہیں اپنے یہ پیشوا یاد نہیں ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ الیکشن سرگرمیوں میں مولوی نظر نہیں آتے ہیں ۔ گھنی داڑھیوں ، لمبی قمیضوں اور ٹخنوں سے اوپر پاجامے والے ہر جلسے جلوس کا حصہ ہیں ۔ کہیں کہیں سبز اور کالے دستار والے بھی نظر آتے ہیں ۔ کئی جگہوں پر سیاسی لیڈر اپنے جلسوں کا آغاز قرآن کی تلاوت سے کرتے ہیں ۔ اس ثواب کو اپنے نام کرنے والے مولوی حضرات ہیں ۔ سیاسی لیڈر کسی علاقے میں ووٹ مانگنے جائیں تو مدرسوں کا چکر بھی لگاتے ہیں ۔ اس کے باوجود ہمارے مولوی صحبان الیکشن کا حصہ نہیں ہیں ۔ گردوارہ والے سکھ کمیونٹی کے ممبر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔ بودھ کمیونٹی مذہب کے نام پر بنی انجمن کے اعلان پر اپنا ووت ڈالتے ہیں ۔ ان کے پیشوا الیکشن میں براہ راست حصہ لیتے ہیں ۔ منوواد تو پورے الیکشن پر چھایا ہوا ہے ۔ بس مسلمان اس جشن کے تماشائی ہیں ۔
دہلی یا کشمیر سرکار شراب کی دکانیں کھولنے کے لئے لائسنز جاری کرے تو ہمارے مولوی یک دم میدان میں آتے ہیں ۔ اس کام کو یہاں کی مذہبی شناخت کے خلاف قرار دیتے اور اس کے خلاف منظم ہوتے ہیں ۔ ایسے موقعوں پر چوہے نما یہ مولوی بلوں سے نکل کر اسلام کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کی کوئی وقعت نہیں ۔ نہ ان میں ایسی طاقت ہے کہ وہ کسی غیر شرعی قانون یا کام کو روک سکیں ۔ انہیں بس اپنی پیر مریدی سے غرض ہے ۔ جس مرحلے پر اسلام کا حقیقی معنیٰ میں دفاع کرنا ہو اس وقت یہ خلوت گاہوں میں جاکر چھپ جاتے ہیں ۔ الیکشن اس چیز کے لئے بہترین موقع ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے ۔ لیکن ایسا کرنے کو یہ لوگ تیار نہیں ۔ یہ تو ہر گروہ ، ہر طبقے ، ہر جماعت اور ہر بننے والی حکومت سے تنخواہ وصول کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے سرپرستوں اور وظیفہ دینے والوں کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہوسکتے ۔ ان کے لئے یہ جائز ہے کہ الیکشن جلسوں میں نعرے لگائیں ۔ اسلام کے خلاف قانون سازی کرنے والوں کو ووٹ دیں ۔ الیکشن میں اٹھنے والے ہر اس ممبر کو دعائیں اور تعویز دیں جو ان کو اس کا معاوضہ دے ۔ البتہ اسلام کے نام پر خود سیاسی میدان میں آنا ہر گز جائز نہیں ۔ دیوبند نے ساٹھ سال تک کانگریس کی نیلم پری کے ساتھ رنگ رلیاں منائیں ۔ گاندھی اور نہرو کو اسلام کا محافظ قرار دیا ۔ ان کے خلاف الیکشن لڑنے والوں کو مسلمانوں کا دشمن بنادیا ۔ شاہی اماموں نے کانگریس کے حق میں نعرے لگائے ۔ سیکولر ازم کے لئے قربانیاں دیں ۔ یہاں تک کہ کانگریس نے از خود ان سے منہ موڑ لیا ۔ دھوبی کے یہ کتے گھر کے رہے نہ گھاٹ کے ۔ پھر انہوں نے مودی جی کے چرنوں میں سرجھکائے ۔ پگڑیاں بچھائیں ۔ لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی ۔ یہی حال کشمیر کے مدرسوں اور مولویوں کا ہے ۔ درگاہوں اور زیارت گاہوں پر کبھی عبداللہ ہوں کو اعزاز بخشا جاتا تھا ۔ مفتیوں کی آہ و بھگت کی جاتی تھی ۔ گورنروں کی تاج پوشی کی جاتی تھی ۔ دہلی سے آنے والے ہر وزیر اور لیڈر کے حق میں دعائے مغفرت کی جاتی تھی ۔ بھلا ہو اوقف بورڈ کا ایسے گناہوں پر روک لگادی ۔ مولوی صاحبان اس پابندی کو صحیح نہیں سمجھتے اور اس پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ یہ سب ان کے لئے جائز ہے ۔ البتہ انتخابات میں حصہ لینا غیر شرعی اور غیر اسلامی فعل ہے ۔ مولوی اپنے بارے میں پوری طرح سے ہوشیار ہیں ۔ اپنے مفادات کو بہر صورت محفوظ رکھنے میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں ۔ یہ کانگریس کے بھی چہیتے ہیں ۔ بی جے پی کے بھی پیارے ہیں ۔ کمیونسٹ پارٹیوں کے دائرے میں بھی شامل ہیں ۔ امریکہ سے بھی داد حاصل کرتے ہیں ۔ روس کے بھی ہم خیال ہیں ۔ طالبان کے تو لنگوٹے یار ہیں ۔ سعودیہ کے پالتوہیں ۔ پاکستان کا پٹہ گلے میں لئے پھرتے ہیں ۔ افریقہ ان کی سیرگاہ ہے ۔ کشمیر ان کی شکار گاہ ہے ۔ اسی منافقت کا نتیجہ ہے کہ ہر کوئی ان سے خوش ہے ۔ ہر چہار سو ان کے گھروں اور مدرسوں میں زر وزن کی بارش ہوتی ہے ۔ یہ زمانے کا سب سے خوشحال طبقہ ہے ۔ انہیں بیر ہے تو انتخابات سے ۔ ووٹ ڈالنا بہر صورت جائز ہے ۔ بلکہ فرض عین ہے ۔ اس مقصد سے انہیں حسین ؑ کے بجائے یزید کو اپنا پیر ومرشد بنانا پڑے تو غلط نہیں ۔ بس اپنے آقائوں کو ناراض کرنے کے روا دار نہیں ۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

خون کی بھی ویڈیو گرافی

Next Post

18؍ ستمبر 2024ء کو پہلے مرحلے میں24 اسمبلی حلقوں میں 23.27 لاکھ رائے دہندگان ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں

Online Editor

Online Editor

Related Posts

معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
انور شاہ کشمیری بھی مسلکی تصادم کا شکار

انور شاہ کشمیری بھی مسلکی تصادم کا شکار

2024-12-13
File Pic

روحِ کشمیر کا احیاء: تصوف کے ذریعے ہم آہنگی کا فروغ

2024-12-13
سرکاری عہدے داروں کا عمرہ۔۔۔۔کاش یہ رقم محتاجوں پر خرچ ہوتی

سرکاری عہدے داروں کا عمرہ۔۔۔۔کاش یہ رقم محتاجوں پر خرچ ہوتی

2024-11-29
ہاری پاری گام میں حضرت شیخ العالم ؒ (ھ842- ھ757) کا قیام

ہاری پاری گام میں حضرت شیخ العالم ؒ (ھ842- ھ757) کا قیام

2024-11-29
والدین سے حُسن سلوک کی تعلیم

2024-11-08
شیخ نورالدّین ولی کا مرتبہ اور مقام

شیخ نورالدّین ولی کا مرتبہ اور مقام

2024-11-01
Next Post
18؍ ستمبر 2024ء کو پہلے مرحلے میں24 اسمبلی حلقوں میں 23.27 لاکھ رائے دہندگان ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں

18؍ ستمبر 2024ء کو پہلے مرحلے میں24 اسمبلی حلقوں میں 23.27 لاکھ رائے دہندگان ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan