جی ایم بٹ
جموں کشمیر میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے ۔ سیاسی حلقے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں کے لئے الیکشن میں اترنے کے لئے امیدواروں کی کمی ہے نہ ووٹ دینے والوں کا کال پڑا ہے ۔ بلکہ ہر ووٹر کی کوشش ہے کہ اسے کسی نہ کسی پارٹی کا منڈیٹ ملے اور وہ خود کو لیڈر منوائے ۔ آج جو کوئی بھی کسی الیکشن اسٹیج پر نمودار ہوتا ہے چاہئے وہ پہلی بار ہی سامنے آیا ہو سینئر لیڈرکہلاتا ہے ۔ جتنے بھی لوگ الیکشن میدان میں ہیں سب سینئر رہنما کہلاتے ہیں ۔ صرف ایک گروہ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے ۔ وہ ہیں مذہبی پیشوا ۔ ایسے لوگ خود اس میدان میں اترتے ہیںنہ انہیں کوئی پوچھتا ہے ۔ یہاں تک کہ ان کے لئے آنکھیں بچھانے والے بھی ان سے پوچھ کر الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ہیں ۔ چور ، ڈاکووں ، رشوت خوروں اور شرابی و کبابی لیڈروں کے لئے ان کے جو مرید زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں انہیں اپنے یہ پیشوا یاد نہیں ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ الیکشن سرگرمیوں میں مولوی نظر نہیں آتے ہیں ۔ گھنی داڑھیوں ، لمبی قمیضوں اور ٹخنوں سے اوپر پاجامے والے ہر جلسے جلوس کا حصہ ہیں ۔ کہیں کہیں سبز اور کالے دستار والے بھی نظر آتے ہیں ۔ کئی جگہوں پر سیاسی لیڈر اپنے جلسوں کا آغاز قرآن کی تلاوت سے کرتے ہیں ۔ اس ثواب کو اپنے نام کرنے والے مولوی حضرات ہیں ۔ سیاسی لیڈر کسی علاقے میں ووٹ مانگنے جائیں تو مدرسوں کا چکر بھی لگاتے ہیں ۔ اس کے باوجود ہمارے مولوی صحبان الیکشن کا حصہ نہیں ہیں ۔ گردوارہ والے سکھ کمیونٹی کے ممبر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔ بودھ کمیونٹی مذہب کے نام پر بنی انجمن کے اعلان پر اپنا ووت ڈالتے ہیں ۔ ان کے پیشوا الیکشن میں براہ راست حصہ لیتے ہیں ۔ منوواد تو پورے الیکشن پر چھایا ہوا ہے ۔ بس مسلمان اس جشن کے تماشائی ہیں ۔
دہلی یا کشمیر سرکار شراب کی دکانیں کھولنے کے لئے لائسنز جاری کرے تو ہمارے مولوی یک دم میدان میں آتے ہیں ۔ اس کام کو یہاں کی مذہبی شناخت کے خلاف قرار دیتے اور اس کے خلاف منظم ہوتے ہیں ۔ ایسے موقعوں پر چوہے نما یہ مولوی بلوں سے نکل کر اسلام کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کی کوئی وقعت نہیں ۔ نہ ان میں ایسی طاقت ہے کہ وہ کسی غیر شرعی قانون یا کام کو روک سکیں ۔ انہیں بس اپنی پیر مریدی سے غرض ہے ۔ جس مرحلے پر اسلام کا حقیقی معنیٰ میں دفاع کرنا ہو اس وقت یہ خلوت گاہوں میں جاکر چھپ جاتے ہیں ۔ الیکشن اس چیز کے لئے بہترین موقع ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے ۔ لیکن ایسا کرنے کو یہ لوگ تیار نہیں ۔ یہ تو ہر گروہ ، ہر طبقے ، ہر جماعت اور ہر بننے والی حکومت سے تنخواہ وصول کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے سرپرستوں اور وظیفہ دینے والوں کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہوسکتے ۔ ان کے لئے یہ جائز ہے کہ الیکشن جلسوں میں نعرے لگائیں ۔ اسلام کے خلاف قانون سازی کرنے والوں کو ووٹ دیں ۔ الیکشن میں اٹھنے والے ہر اس ممبر کو دعائیں اور تعویز دیں جو ان کو اس کا معاوضہ دے ۔ البتہ اسلام کے نام پر خود سیاسی میدان میں آنا ہر گز جائز نہیں ۔ دیوبند نے ساٹھ سال تک کانگریس کی نیلم پری کے ساتھ رنگ رلیاں منائیں ۔ گاندھی اور نہرو کو اسلام کا محافظ قرار دیا ۔ ان کے خلاف الیکشن لڑنے والوں کو مسلمانوں کا دشمن بنادیا ۔ شاہی اماموں نے کانگریس کے حق میں نعرے لگائے ۔ سیکولر ازم کے لئے قربانیاں دیں ۔ یہاں تک کہ کانگریس نے از خود ان سے منہ موڑ لیا ۔ دھوبی کے یہ کتے گھر کے رہے نہ گھاٹ کے ۔ پھر انہوں نے مودی جی کے چرنوں میں سرجھکائے ۔ پگڑیاں بچھائیں ۔ لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی ۔ یہی حال کشمیر کے مدرسوں اور مولویوں کا ہے ۔ درگاہوں اور زیارت گاہوں پر کبھی عبداللہ ہوں کو اعزاز بخشا جاتا تھا ۔ مفتیوں کی آہ و بھگت کی جاتی تھی ۔ گورنروں کی تاج پوشی کی جاتی تھی ۔ دہلی سے آنے والے ہر وزیر اور لیڈر کے حق میں دعائے مغفرت کی جاتی تھی ۔ بھلا ہو اوقف بورڈ کا ایسے گناہوں پر روک لگادی ۔ مولوی صاحبان اس پابندی کو صحیح نہیں سمجھتے اور اس پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ یہ سب ان کے لئے جائز ہے ۔ البتہ انتخابات میں حصہ لینا غیر شرعی اور غیر اسلامی فعل ہے ۔ مولوی اپنے بارے میں پوری طرح سے ہوشیار ہیں ۔ اپنے مفادات کو بہر صورت محفوظ رکھنے میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں ۔ یہ کانگریس کے بھی چہیتے ہیں ۔ بی جے پی کے بھی پیارے ہیں ۔ کمیونسٹ پارٹیوں کے دائرے میں بھی شامل ہیں ۔ امریکہ سے بھی داد حاصل کرتے ہیں ۔ روس کے بھی ہم خیال ہیں ۔ طالبان کے تو لنگوٹے یار ہیں ۔ سعودیہ کے پالتوہیں ۔ پاکستان کا پٹہ گلے میں لئے پھرتے ہیں ۔ افریقہ ان کی سیرگاہ ہے ۔ کشمیر ان کی شکار گاہ ہے ۔ اسی منافقت کا نتیجہ ہے کہ ہر کوئی ان سے خوش ہے ۔ ہر چہار سو ان کے گھروں اور مدرسوں میں زر وزن کی بارش ہوتی ہے ۔ یہ زمانے کا سب سے خوشحال طبقہ ہے ۔ انہیں بیر ہے تو انتخابات سے ۔ ووٹ ڈالنا بہر صورت جائز ہے ۔ بلکہ فرض عین ہے ۔ اس مقصد سے انہیں حسین ؑ کے بجائے یزید کو اپنا پیر ومرشد بنانا پڑے تو غلط نہیں ۔ بس اپنے آقائوں کو ناراض کرنے کے روا دار نہیں ۔