جہاں زیب بٹ
گزشتہ ہفتے لر گام شوپیان میں ایک د لد و ذ سڑک حادثہ رونما ہوا جس میں ایک سکوٹر تیز رفتارگاڑی کے ساتھ ٹکرا گیا ۔اس واردات میں سکو ٹر پر سوار دو سرکاری ٹیچر لہو لہان ہو گیے اور وہ بیہو ش ہو کر زمین پر گر پڑے ۔ادھر ادھر سے راہ گیر اور مقامی مکین امڈ آیے ۔ان کا فوری کام زخمی اشخاص کو ہسپتال پہنچا نا تھا لیکن اس میں دیر کردی گیی۔جو جو وہاں آیا اس نے جیب سے موبا یل نکا لا اور خون میں لت پت نیم مردہ ٹیچروں کا ویڈیو بنا نے میں جٹ گیا یہاں تک کہ آدھا گھنٹہ گزرا جس دوران زخمیوں کا سارا خون ضایع ہو گیا اور دو ٹیچر خدا کو پیا رے ہو گیے۔
ہر واقعہ کا ویڈیو بنا نا اب ہماری عادت کا حصہ ہے۔راہ چلتے کسی اجنبی عورت سے غیر ارادتاً دھکا لگے تو تاک میں بیٹھا سڑک چھاپ سوشل میڈیا رپو ر ٹر ایکدم ویڈیو بنا دیتا ہے اور رایی کو پہاڑ بنا کر ٹی آر پی کا کچھ انتظام کر تا ہے۔ساس بہو لڑائی کا کہیں میدان تیار ہو جایے تو دو میں سے ایک یادونوں فریق کسی یو ٹوبر، کسی سوشل میڈیا ا نفلنسر کو بلا دیتا ہے اور ایک مزہ دار ویڈیو سوشل میڈیا پر چھا جا تا ہے۔یہ ایک وباء ہے آفت ہے اخلاقی دیوالیہ پن ہے جو پوری قوم کی پہنچان بن رہی ہے۔جب سے سوشل میڈیا کا بول با لا ہو گیا گھر گھر نیوز چینل اور جاہل اور بد تمیز رپورٹر اور سوشل میڈیا انفلنسر پیدا ہو رہے ہیں جو ذ مہ دارانہ رپورٹنگ کے اصول اور ضوابط کو نہ جا نتے ہیں نہ ما نتے ہیں۔ان کو بس ویڑیو سے غیر ض رہتا ہے جو کسی مسخرے کی ہو کسی شیر ببر کی ہو ،کسی سکارپیو کی ہو ،کسی ٹریفک پولیس اہلکار کی ہو یاکسی سرکاری ملازم کی ہو جس نے اونچی آواز میں با ت کی ہو۔غر ض ہر چیز کا ویڈیو بنا بنا کر کشمیر میں مسخر کلچر ابھا را جارہا ہے ۔
رپورٹنگ کے کچھ اخلاقی ضوابط ہیں کچھ فو اعد ہیں ،کچھ قانونی بندشیں ہیں لیکن ان چیزوں کو وہ
انو کھی مخلوق کیا جانے جن کو کسی دانشگاہ کی ہو ا لگی ہی نہ ہو جن کو خشونت سنگھ یا مارک ٹیلی کی رپورٹنگ کا پتہ ہو نا تو دور کی بات وہ غا لبا ان کا تزکیر و تانیث بھی نہیں جا نتے ہو نگے ۔ان کو کیا پتہ کہ خود کشمیر کی دھرتی پر کیسے کیسے شریف النفس ،ذمہ دار اور با اخلاق و با حیاصحافی اور رپو رٹر پیدا ہو یے ہیں جو زور استدلال سے بڑے بڑے حکمرانوں کو جھکا تے مگر کسی کی عزت نفس۔ناموس اور وقار کو گرانے کی حرص سے پاک تھے۔آفتاب کے خواجہ ثنا ء اللہ ۔ سری نگر ٹایمز کے صوفی غلام محمد،عقاب کے منظور انجم ،چٹان کے طاہر محی الدین ،بی بی سی کے یوسف جمیل آسمان صحافت کے وہ چند در خشند ہ ستا رے ہیں جن کی رپورٹنگ سحر انگیز ،زبان بے باک ،قلم آذاد تھا اور ہے لیکن ان میں سے کسی نے کبھی بھی کسی بہو بیٹی کا ویڈیو نہیں بنایا نہ ذبان و فلم سےکسی شریف و کمین کی عزت گرایی ۔ لیکن اب میدان صحافت و رپورٹنگ بد قما شوں کے ہا تھو ں آلودہ ہو چکاہے اور اس کی مٹی پلید کی جارہی ہے ۔آج حالت یہ ہے کہ جس کے پاس مو با یل ہے وہ اپنی مر ضی سے ویڈیو بنا دیتا ہے کبھی کسی بہو بیٹی کی ،کسی ہیجڑے کی کبھی ڈو بنے والے بچوں کی اور کبھی خون میں لت پت شوپیان کے دو ٹیچروں کی ۔ویڈیو گرافی کا مشغلہ یا دھندہ اتنی اخلاقی گراوٹ پیدا کر چکا ہے کہ دریا میں ڈوبنے والے اور سڑک پر دم تو ڑنے والے کی ویڈیو بنا نا اس کی جان بچا نے سے ذیادہ اہم سمجھا جا تا ہے۔صاف ظا ہر ہے کہ سوشل میڈیا گلو ر فکشن کے امکان نے ہمیں سنگدل بنا دیا ہے ۔