سہیل احمد
کسی بھی گروہ کی جانب سے اپنے طے کردہ نفرت انگیز نظریات کی ترویج اور وسیع پیمانے پر اس کی پھیلاؤ کی کوشش میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہر سال ہزاروں بے گناہ لوگوں کو ناقابلِ تلافی جسمانی نقصان پہنچاتی ہیں، مالی تباہی سے ہم کنار کرتی ہیں بلکہ معصوم لوگوں جن میں بچے، عورتیں مرد اور بزرگ شہریوں کی ہلاکت کا سبب بھی بنتی ہیں۔ شہروں کا ناصرف امن متاثر ہوتا ہے بلکہ معاشی نظام بھی درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے اور اگر یہ سلسلہ مستقل بنیادوں پر شروع ہو جائے تو پھر وہاں خوف اور بھوک کے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔
بلاشبہ ہر سطح پر دہشت گردی کی بین الاقوامی مذمت کے باوجود، دہشت گردی کے متاثرین اور بچ جانے والے اکثر انصاف کے لیے اپنی آواز سنانے، اپنی حمایت اور اپنے جانے والے اور بچ جانے والوں کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد متاثرین نظر انداز ہونے کا اظہار کرتے ہیں، جس کے ان پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چند رکن ممالک کے پاس دہشت گردی کے شکار افراد کی درمیانی اور طویل مدتی ضروریات کو پورا کرنے کے وسائل یا صلاحیت ہے تاکہ وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو سکیں، بحالی اور معاشرے میں دوبارہ ضم ہو سکیں۔ جبکہ زیادہ تر متاثرین صرف اور صرف جسمانی، نفسیاتی، سماجی اور مالی سمیت طویل مدتی کثیر جہتی مدد کے ذریعے اپنے صدمے سے صحت یاب ہو سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں دہشت گردی کی ہر سطح اور وسیع پیمانے پر مذمت کے باوجود اس کے متاثرین اور تشدد کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ اس سے متاثرہ افراد کو عام طور پر اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے، اپنی ضروریات کی تکمیل، تعاون کے حصول اور اپنے حقوق برقرار رکھے جانے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے بے شمار لوگوں کو طویل مدتی جسمانی، نفسیاتی، سماجی اور مالی مدد اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ تاہم چند ہی ممالک ایسے ہیں جن کے پاس دہشت گردی کے متاثرین کی مکمل بحالی اور انہیں دوبارہ معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنانے کے لیے درکار وسائل اور صلاحیتیں موجود ہیں۔
دہشت گردی کے متاثرین کو یاد کرنے اور خراج تحسین پیش کرنے کا عالمی دن 2017 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قائم کیا تھا۔ جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد 72 / 165 ( 2017 ) میں دہشت گردی کے متاثرین کی یاد اور خراج عقیدت کا عالمی دن قائم کیا جو ہر سال 21 اگست کو منایا جائے گا تاکہ دہشت گردی کے متاثرین اور بچ جانے والوں کی کہ مکمل بحالی میں مدد کی جا سکے۔ انہیں ان کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں سے مکمل لطف اندوزی کو فروغ دیتے ہوئے ان کی حفاظت کی جائے۔
اپریل 2020 میں، جنرل اسمبلی کی قرارداد 73 / 305 کے ذریعے لازمی طور پر، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئیترس نے ’دہشت گردی کے متاثرین کی مدد کے لیے رکن ممالک کی مدد کے لیے اقوام متحدہ کے نظام کی پیشرفت‘ (A/ 74 / 790 ) پر اپنی رپورٹ بھی شائع کی۔ جس میں ’دہشت گردی کے متاثرین کی مدد کے لیے بین الاقوامی تعاون کو بڑھانے‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
رکن ممالک نے انسداد دہشت گردی کی عالمی حکمت عملی کی دو سالہ نظرثانی کی قراردادوں کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے، بین الاقوامی یکجہتی کو فروغ دینے، پرتشدد انتہا پسندی کو روکنے، اور رکن ممالک کو ان کے انسانی حقوق کو تسلیم کرنے اور برقرار رکھنے میں مدد کرنے میں دہشت گردی کے متاثرین کے اہم کردار پر زور دیا ہے۔ یہ دن منانے کا بنیادی مقصد مستقبل میں امید کی تلاش اور پُرامن مستقبل کی تعمیر کے لیے مثبت اور جامع سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ریاستوں پر دباؤ ڈالنا ہے۔ اس وقت کے اقوام متحدہ کے سربراہ نے واضح کیا تھا کہ یہ منصوبہ دہشت گردی کے متاثرین کی غیرمعمولی کاوشوں کی سامنے لانا ہے جنہوں نے اپنے تلخ تجربات کو ملک اور ملک سے باہر متاثر ہونے والوں میں تبدیلی کے لیے کام میں لانے کا عزم کیا ہے۔
انہوں نے متاثرین کی مدد کرنے اور ان کے خاندانوں کا ساتھ دینے کی ضرورت کو واضح کیا جن کی زندگیاں دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گئی ہیں۔ دہشت گردی کے باعث اجڑ جانے والی زندگیوں کو بھلایا نہ جائے اور مزید پُرامن مستقبل کی تعمیر کا عہد کیا جائے۔ ان کا موقف تھا کہ دہشت گردی قومیت، عقیدے، صنف، عمر یا مقام کو نہیں دیکھتی۔ ہم سب کو انسانیت کے مشترکہ رشتے میں رہتے ہوئے اس کے خلاف کھڑا ہونا اور متاثرین کے ساتھ اکٹھے کام کرتے ہوئے ایک بہتر مستقبل تعمیر کرنا ہے۔
اقوام متحدہ انسداد دہشت گردی سے متعلق اپنے دفتر کے ذریعے رکن ممالک کو متاثرین کے حقوق کے فروغ اور ان کی ضروریات کی تکمیل میں مدد دینے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ نفسیات دانوں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو لگنے والے جسمانی زخم تو وقت کے ساتھ مندمل ہو سکتے ہیں لیکن انہیں پہنچنے والی تکلیف ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی جبکہ دنیا کے ہر خطے، علاقے، سماج الگ الگ ہونے کے باوجود ان متاثرین کے مابین بہت کچھ مشترک بھی ہوتا ہے۔
وہ دل کی گہرائیوں سے دعا کرتے ہیں کہ انہیں جو کچھ جھیلنا پڑا اس کا سامنا کسی اور کو نہ کرنا پڑے۔ آپ کا اپنا پیارا اچانک ہی کسی کی وحشتوں اور مفادات کی بھینٹ چڑھ جائے اور آپ اسے بچانے کے لیے کچھ بھی نہ کر سکیں حتیٰ کہ بعض اوقات آپ کو اس کی لاش بھی نہ ملے تو وہ کیفیت وہی سمجھ سکتا ہے جو ان حالات سے گزرا۔ اس لیے جب کبھی کہیں کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے دنیا بھر میں مذمت کی جاتی ہے اور پھر ایک پر امن عالمی سماج کی بحالی کی بحث سامنے آ جاتی ہے۔
رکن ممالک کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی کے متاثرین کی مدد کریں اور ان کے حقوق کو برقرار رکھیں۔ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہو کر اور دہشت گردی کے متاثرین کو مدد فراہم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی عالمی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کو نافذ کرنے کے لیے رکن ممالک کی حمایت میں اقوام متحدہ کا ایک اہم کردار ہے۔ صلاحیت بڑھانے میں مدد کی پیشکش، نیٹ ورک قائم کرنا اور سول سوسائٹی کی تنظیموں خاص طور پر متاثرین کی انجمنوں کو تعاون کی پیشکش اور رکن ممالک کو دہشت گردی کے متاثرین کے حقوق کو فروغ دینے، تحفظ دینے اور ان کا احترام کرنے کی ترغیب دینا۔ اقوام متحدہ دہشت گردی کے متاثرین کی ضروریات کو بہتر طریقے سے حل کرنے کے لیے رکن ممالک اور متاثرین کی انجمنوں کو تکنیکی مدد اور صلاحیت سازی فراہم کرتا ہے۔
اگر دہشت گردانہ کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے حوالے سے بات کریں تو اس ضمن میں کچھ بھی حتمی طور پر کہنا غلط ہے۔ کیونکہ کبھی یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو کہیں کم۔ تاہم شدید ترین متاثرہ ممالک میں پاکستان اور افغانستان ضرور شامل ہیں۔
Global Terrorism database (GTD)کے مطابق انیس سو ستر کے بعد سے دنیا بھر کے تمام ممالک کسی نہ کسی طرح دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں اور کچھ ممالک مسلسل متاثر ہو رہے ہیں۔ جی ٹی ڈی کا موقف ہے کہ چونکہ اعداد و شمار چونکہ خبروں پر مبنی ہوتے ہیں، اس لیے حملوں اور اموات کو کم رپورٹ کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر ابتدائی سالوں کے دوران وہ بھی کم میڈیا والے ممالک میں۔ ڈیٹا بیس کو نیشنل کنسورشیم فار دی سٹڈی آف ٹیررازم اینڈ ریسپانس ٹو ٹیررازم (START) آف ٹیررازم کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے۔ میری لینڈ کی جانب سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے ابتدائی مراحل نجی سیکیورٹی ایجنسی پنکرٹن ( 1970 سے 1997 ) ، سینٹر فار ٹیررازم اینڈ انٹیلی جنس اسٹڈیز ( 1998 سے 2008 ) اور انسٹی ٹیوٹ فار اسٹڈی آف وائلنٹ گروپس ( 2008 سے 2011 ) کے ذریعے کیے گئے تھے اور اس کے بعد سے میڈیا رپورٹس سے لیا گیا۔
دہشت گردی کے عالمی اشاریے 2022 میں بتایا گیا تھا کہ دہشت گردی سے متعلق تقریباً 48 فیصد اموات افریقہ میں ہوتی ہیں۔ جبکہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2023 میں دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والا جانی نقصان 2022 کے مقابلے پر 65 فیصد زیادہ تھا۔ پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کی 2023 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا جس کے بعد خیال کیا جا رہا تھا کہ پاکستان شدت پسندی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے قریب ہے اب یہ تاثر نہ صرف ختم ہو رہا ہے بلکہ یہ پہلے سے بڑے پیمانے پر اور ملک کے زیادہ حصے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔
پاکستان میں 2022 میں دنیا بھر میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں دوسرا سب سے بڑا اضافہ ریکارڈ کیا، جن کی تعداد نمایاں طور پر بڑھ کر 643 ہو گئی، جو گزشتہ سال ہونے والی 292 اموات سے 120 فیصد زیادہ ہے۔ جبکہ آسٹریلیا میں قائم انسٹی ٹیوٹ فاراکنامکس اینڈ پیس (IEP) کی طرف سے جاری کردہ سالانہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس (GTI) کے مطابق 2023 میں پاکستان نے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ دہشت گرد حملوں اور اموات کے ساتھ افغانستان کو پیچھے چھوڑ دیا، جو کہ 2017 کے بعد سے اس پوزیشن پر برقرار تھا۔ دو ہزار تئیس میں دہشت گردی کے سبب برکینا فاسو میں عالمی سطح پر سب سے زیادہ اموات ہوئیں، جو 2022 میں 759 سے بڑھ کر 1135 ہو گئیں۔
جی ٹی آئی GTIکے مطابق 2022 میں حملوں میں 75 فیصد کمی اور اموات میں 58 فیصد کمی کے باوجود افغانستان مسلسل چوتھے سال دہشت گردی سے ”سب سے زیادہ متاثرہ“ ملک رہا۔ GTI کے مطابق، 2022 میں افغانستان میں 633 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2022 میں دنیا بھر میں دہشت گردی سے ہونے والی تمام اموات میں سے تقریباً 9 فیصد افغانستان میں ہوئیں، جو کہ گزشتہ سال ریکارڈ کی گئی تعداد سے 20 فیصد سے کم ہے۔ طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد اسلامک اسٹیٹ۔ خراسان افغانستان میں ”سب سے زیادہ فعال دہشت گرد گروپ“ کے طور پر ابھرا ہے، جس نے 2022 میں 422 افراد کو ہلاک کیا جو اس سال دہشت گردی سے ہونے والی کل اموات کا تقریباً 67 فیصد حصہ بنتا ہے۔
اسٹیٹسٹا ریسرچ ڈیپارٹمنٹ، 26 جولائی 2024 کو شائع ہوا۔ 2022 میں دنیا بھر میں دہشت گردوں کے ہاتھوں 21,943 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ 2018 کی چوٹی کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم تھا، جب دنیا بھر میں دہشت گردی کے حملوں میں تقریباً 33,000 افراد ہلاک ہوئے، اور 2021 میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 23,692 سے کم تھی۔ دنیا بھر میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں مجموعی طور پر کمی آئی۔ جب تک عالمی دنیا اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر دہشتگرد عناصر کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوتی دنیا کو مکمل طور پر محفوظ رکھنے کی باتیں محض عبث ہیں۔