
سرسید رقم طراز ہے کہ ’’کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ بے عزتی نہیں کہ وہ اپنی تاریخ کو بھول جائے اور اپنے بزرگوں کی کمائی کو کھودے‘‘۔اس دور کا شاید یہ المیہ ہے کہ بدلتے حالات اور نئے رجحانات نے زندگی کے گونا گوںمسائل اور مصروفیات میں مبتلا انساں کو اتنی مہلت نہیں دیتا کہ وہ یادوں کے چراغ جلا کر اپنے حال کوروشن کرے اور اپنے ان مخلص بزرگوں کو خراج عقیدت پیش کرے جنھوں نے شعر وسخن کی شادابی کو برقرار رکھا ، تہذیب وثقافت اورزبان و ادب کے لیے اپنی زندگیاںوقف کردی۔ایسی ہی ایک بے باک اور با کردار شخصیت مشتاق کاشمیری کی ہے۔انھوں نے پوری زندگی اردو زبان و ادب کے فروغ میں لگا دی۔ایسی شخصیت پر بطور خراج عیقدت کچھ لکھنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔
دبستان کشمیر ابتدا ہی سے تہذیب و ثقافت اور علم و ادب کا گہورہ رہا ہے ،یہاں کے علماء ،شعراء اور مصنفین نے اپنے علم و ادب سے اردو زبان و ادب کی آبیاری کرتے ہوئے کشمیر کی ادبی تاریخ میں اپنی شناخت قائم کی ہے۔دبستان کشمیر کے شعری پرستاروں میں ایک نام مشاق کاشمیری کا بھی ہے۔آپ کا اصلی غلام محمد شاہ ہیں۔19 جولائی1934میں شہر خاص کے ایک اہم تہذیبی علاقے خانیار(کائو محلہ) میں تولد ہوئے۔1946 میں لاہور سے بارویںکا امتحان پاس کر نے کے بعد محکمہ شیپ ہسبنڈری میں ملازمت کی ۔محکمہ شیپ ہسبنڈری میں مختلف عہدوں پر فائزہ رہ کر شیپ ہسبنڈری کی پبلسیٹی ونگ کے ملازم کی حیثیت سے 1992سکبدوش ہوئے۔ مشاق کاشمیری نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز اپنے تعلیمی سفرکے دوران ہی کیا۔مشتاق کاشمیری کی اب تک اردو اور کشمیری میں آٹھ تصانیف منصہہ شہود پر آگئی ہیں ۔جن کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں: فغان کشمیر،ارمغان حرم ،خونابہ کشمیر،سلسبیل ،شور محشر، صور اسرافیل ، الکوثر اور سراغ زندگی ۔مشتاق کاشمیریؔ کی شعری کائنات میں غم دوراں اور غم جاناں کی کار فرمائی بھی نظر آتی ہے۔ان کی شاعری میںدردوغم ، ہجر و صال اورجنت بے نظیر کی مایوسی کے عناصر کی موجود گی ان کے بے حد ذی حس ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔موجودہ دور میں سماج کا سب سے بڑا خوفناک مسئلہ اور انسانیت کا ایک بڑا لمیہ انسانی قدروں کی شکست و ریخت ہے اور یہ شکست ایک ایسے اندھرے کی مانند ہے جسے آج ہم نے چراغ جلا کر دور کرنے کی کوشش نہیں کی ،تو یہ چراغوں کوبھی نگل سکتا ہے۔مشتاق کاشمیری نے بڑی بے باکی سے اس کی طرف اشارہ کیا ہے ؎
نہ پیار و محبت مہر دیکھتا ہوں
اسی رنگ میں شام و سحر دیکھتا ہوں
شناخت ہماری مٹانے کے در پے
میں دشمن کو مصروف تر دیکھتا ہوں
صحافت ،ثقافت ،سیاست ،فصاحت
خیانت میں محو سفر دیکھتا ہوں
آج ہم جس شہر آشوب میں زندگی بسر کر رہے ہیں ،ایک شاعر بھی اسی ماحول میں اپنی سانسیں لے رہا ہیں۔ آگ،اندھیرا دھواں،آندھی، خزاں ،سیاسی و سماجی تبدیلیاں اور دوسری طرف جھوٹ ،دھوکہ ، جلن ،حسد ،ضد اورانسانی جبلی بدمعاشیاں ہیں جنھیں ایک فن کار پنپتے ہوئے دیکھتا بھی ہیں اور ان میں سے کچھ کا وہ خود بھی مقابلہ کرتاہے ۔اپنی تخلیقی بصیرت سے نے انھوں نے ان تمام مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے جنہوں نے انسانی زندگی کے دامن کو تار تار کیا ہے۔ ادیب ، مصور،فنکار، اور شاعر بڑے حساس ذہن و دل رکھتے ہیں۔مشتاق کاشمیریؔ بھی حساس،فہیم اور سخی ہونے کے ساتھ ساتھ رحم دل انسان ہی نہیں بلکہ حقیقت پسندی اور انسانیت کے بے تاج بادشاہ ہے۔ان سب کی غمازی ان کا شعری اثاثہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ایسی بات نہیں ان کے دل میں انس ،شفقت اور پیار و محبت نہیںہے۔انھوں نے اپنی غزلوں میں موسموںسے شکوہ وشکایت بھی کی ہے اور زندگی کے میدان میں رونما ہونے والے حوداث کو بھی صفحہ قرطاس پر اتارا ہے۔ مشتاق کاشمیریؔنا گہانی آفتوںسے پرشانیوں اور نئی فضاسے گھبراتے نہیں بلکہ اسی فضا میں اڑان بھرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ؎
زندگی ہے گردش شام وسحر کا امتحان
بندگی ہے علم و اعمال بشر کا امتحان
ہر بشر اس شہر شعلہ بار کا دیتا رہا
نوک پر نیزے کی رکھ کے اپنے سر کا امتحان
میرے ہاتھوں پر مسخر یہ تمہاری کائنات
اور میرے ہی لئے خوف و خطر کا امتحان
مشتاق کاشمیریؔنے زندگی سے وابستہ تمام مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنانے کی کوشش کی ہے ہے۔اس لئے سماج میں ایک اعلی مقام حاصل کرنے کے خاظر جدوجہد کرنا سب کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنے عہدے کے ہر اک شعبہ اور ہر ایک فرد پر بھی نظر رکھتا ہے ۔وہ غور سے دیکھتا ہے کہ عصر حاضر کا آدمی انسانی ،سماجی،مذہبی اور صالحہ قدروں کو کس طرح پاش پاش کرتا ہے ۔وہ ان اعلی قدروں سے دور ہوتا جارہا ہے۔جس کے ساتھ اس نے ابتدا ہی سے رشتہ جوڑ کر رکھا تھا ۔وہ ایک ایسے ماحول میں زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے ۔جہاں انسانی جسم و جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔وہ ہرایک رشتے میںصرف نفع نقصان کو مددنظر رکھتاہے۔نئی نسل انفرادی اور اجتماعی زندگی کے قید خانہ میں بے قرارہے ۔اس کی نظر صرف بیرونی مسائل پر نہیں رہتی بلکہ باطنی دردو کرب کو بھی شدت سے محسوس کرتا ہوا دیکھی دیتا ہے۔ ؎
انصاف کے ہاتھوں میں چھری دیکھ رہا ہوں
قاتل کو عدالت سے بری دیکھ رہا ہوں
یہ جارجیت کا ہے اک ادنی سا کر شمہ
کل کا جناب آج ’’ شری‘‘ دیکھ رہا ہوں
کشمیر میں جب اسلام کا ظہور ہو ا تو کشمیر اور بیرون کشمیر سے آئے بزرگان دین نے توحید اور رسالت کی تبلیغ کی اور حضرت محمدﷺ
کی تعلیمات کا درس شعر وشاعری کے روپ میں بھی دیا۔اس طرح جب ہم کشمیر کی نعتیہ شاعری پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں کی تمام زبانوں اور بولیوں میں شعراء کرام کی مذہبی، اخلاقی اور روحانی شاعری کا قیمتی ذخیرہ موجود ہے۔ بزرگ شعراء کرام نے حضرت محمدﷺ کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت نچھاور کیے ۔جن میں مشتاق کاشمیری کی نعتیہ شاعری بھی خاص اہمیت کی حامل ہیں ۔ مشتاق کاشمیریؔکی نعتوںمیں آپ ﷺکا ذکر محسن انسانیت کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔اس کے علاوہ مدینہ کی گلیوں،کوچہ بازار،خاک راہ،سنگ در اقدس،روضہ اقدس،کی سبز جالیاں،گنبد خضرا،روضہ رسولﷺاور مسجد نبوی کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ نبی پاکﷺنے قدم قدم پر اپنی امت کے ہر فرد کی رہبری ا و رہنمائی فرمائی ہے۔اور یہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی انسان نبی پاکﷺ کے بتائے ہوئے طور طریقوں کو اپنی عملی زندگی میں جگہ دے اور اسی طرح اپنی زندگی بسر کریں جیسے کہ آپﷺنے ہدایت فرمائی ہے تو یقینا ایسا انسان دونوں جہاں میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ ؎
ازل سے ابد تک عنایت ان ﷺ کی
مسلماں پہ ہے مہر باں ذات انﷺکی
خدا خود ہے نور آسمان و زمیں کا
ضیا ،چاند ،تاروں میں خیرات انﷺ کی
مشتاق کاشمیری ایک بے باک صاحب اسلوب شاعر ہیں۔معاصر حالات و اقعات کا مکمل فہم و ادراک رکھتے ہیں۔ان کی شاعری کائنات کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کے مشاہدے کی گہرائی کا پورا اندازہ ہوتا ہے۔زبان اتنی سلیس اور رواں ہے کہ سیدھے دل میں گھر کر لیتی ہے۔ شرافت کا مجسمہ ،صالحہ قدروں کا آفتاب ، ،صوم و صلوۃ کا پابند، باغیرت شاعراور زندگی کی صعوبتیں برداشت کر کے، اپنی شاعری کے اسرارورموز اپنے چاہنے والوں کے درمیان چھوڑ کر آخر کا ر08جولائی 2022کو اصلی سفر پر روانہ ہوئی جس کی طرف انھوں نے علامہ اقبال نے شارہ کیا ہے ؎
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ فغاں اور بھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں
