تحریر:ایم شفیع میر
ہمارے دین ِاسلام میں جہاں محنت کی عظمت اورکسبِ حلال کی اہمیت بیان کی گئی ہے،وہاں حرام مال اور ناجائز آمدنی سے حاصل ہونے والے رزق اور مال و جائیداد کو انسان کی تباہی ،اس کی نیکیوں کی بربادی اور اس کے تباہ کن اثرات کو بھی پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے،چناں چہ کسب ِ حلال کو ایک عظیم نیکی ،باعثِ اجرو ثواب عمل قرار دیا گیااور دوسری جانب ناجائز اور حرام مال کو وبال اور گناہ کا بنیادی سبب قرار دیا گیا۔جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ بندۂ مومن کی زندگی میں کسبِ حلال کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اِس موضوع پر کچھ لکھنے کیلئے جس شخصیت نے ناچیز کو مجبور کیا اُس کا نام عبدالحمید مغل ہے، عبدالحمید مغل صاحب کا تعلق ضلع را م بن ،علاقہ گول کے ایک چھوٹے سے گاؤں موئلہ سے ہے، میں نے اپنی تمام عمر عبدالحمید کو بطورِ ’’حمال‘‘محنت اور جفاکشی کرتے دیکھا ہے لیکن کبھی بھی اُن کے چہرے پر مایوسی نہیں دیکھی اور نہ ہی اُن کی زبان سے ناشکری کے الفاظ سنے، عبدالحمید مغل صاحب گول بازار میںگاڑیوں سے مال اُتارنے اور چڑھانے کا کام کرتے ہیں، کسی بھی بھاری بھرکم اور وزن دار چیز کو گاڑی میں لادنےیا اُتارنے کیلئے عبدالحمید مغل صاحب کو بطورِ ’’حمال ‘‘بلایا جاتا ہے، وزنی چیزوں کو جس چستی اور تندرستی سے وہ جوانی میں گاڑیوں میں لادتے یا اُتارتے تھے آج بھی اُسی چستی اور تندرستی کے ساتھ وہ وزن دار چیزوں کو اُٹھاتے ہیں۔
عبدالحمید مغل صاحب کی یہ خوبی رہی کہ انھوں نے کبھی بھی اپنے کام میں سستی اور کاہلی نہیں دکھائی ، کام کے معاملے میں وہ ایمانداری اوردیانتداری کی اک زندہ مثال ہیں، کسی بھی شخص کو اگر رزق ِ حلال کی برکت، اہمیت اور فضیلت کی کھلی کتاب پڑھنا ہو تو ’’حمال ‘‘عبدالحمید مغل صاحب کے کردار کا بغور مطالعہ ضرور کریں۔ عبدالحمید مغل صاحب نے جس ایمانداری، دیانتداری اور جفاکشی سے رزق حلال کما کر اپنے اور اپنے اہل و عیال کے پیٹ کی آگ بجھائی اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عبدالحمید مغل صاحب نے اپنی تمام زندگی بطورِاک ’’حمال‘‘(بوجھ ڈھونے والا)کے سماج میں اپنا اک ایسا مقام بنالیا کہ آج علاقے کا ہر فرد عبدالحمید صاحب کو احترام سے پیش آتا ہے۔ گوکہ وہ محض ایک مزدور ہیں لیکن اپنے پیشہ ٔ مزدوری کو انجام دینے کیلئے انھوں نے جس کردار سے نبھایا ہے اُسی کردار نے آج انہیں سماج میں بے حد عزت ،احترام اور اکرام بخشا ہے۔
بے شک حلال کمائی اﷲ تعالیٰ کی محبت اور اس کی جنت تک رسائی حاصل کرنے کا راستہ ہے ۔یہ دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے ۔اس سے عمر میں برکت ،تندرستی اور مال میں بڑھوتری ہوتی ہے ۔یہ عمل دنیا کی سعادت اور آخرت میں جنت کا موجب ہے ۔باتوں میں شیرینی اور اعمال میں جاذبیت پیدا کرتا ہے ۔ اپنی محنت کی کمائی انسانی شرافت اور رفعت کا باعث ہے۔مال حرام خواہ کم ہویا زیادہ اس سے پرہیز کرنا چاہیے،کیوں کہ صرف اور صرف حلال اور پاکیزہ غذا سے معاشرہ سدھار کی طرف جاتاہے، دعائیں قبول ہوتی ہیں، برکات نصیب ہوتی ہیں۔
بلا شبہ عبدالحمید مغل صاحب جیسی قابلِ قدر اور مثالی شخصیات اُن سبھی افراد کو ایمانداری، دیانتداری اور کردار کی بنیاد پر شخصیت بن کر یہ درس دیتی ہیں کہ جہاں میں اپنا مقام بنانے کیلئے خاک کے پُتلے کو خاک اُوڑھنی پڑتی ہے ،ـ راتوں رات کوئی شخصیت نہیں بن سکتا، ماٹی کے اِس پُتلے کو ایسا کردار نبھانا پڑتا ہے جس کردار کے نبھانے پر وہ نمایاں عکس نظرآنے لگے ، خواہ وہ کسی بھی شعبے کیساتھ جڑا کیوں نہ ہو لیکن اُس کا منفرد کردار ہی اُسے شخصیت بنانے میں کام آسکتا ہےـ تاریخ میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو افراد لکیر کے فقیر یا غیر مستقل مزاج ہوتے ہیں وہ نمایاں ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے کیونکہ اُن کا کردار دنیا کے منظر نامے پر گردآلود ہوتا ہے ـ بہت سارے افراد اپنے کردار کو چمکانے کیلئے بہت ساری تدبیریں کرتے ہیں ،چونکہ وہ چاہتے ہیں کہ جوہمارا اصلی کردار ہے وہ دنیاکی نظروں سے بعید رہے لیکن ہمارا وہ کردار دنیا کے سامنے آجائے جس سے ہم دنیا کے سامنے نمایاں نظر آنے لگ جائیں ،اِسی خواہش میں روز ہی وہ نئے نئے مصنوعی کردار ایجاد کرتے ہیں لیکن حاصلِ محنت صفر ہوتا ہے مبجائے اِس کے عبدالحمید مغل صاحب جیسے لوگ بطورِ حمال ہی سہی لیکن اپنے اصلی کردار کے سبب دنیا کی نظروں میں عزت و اکرام کے اُفق پر چمکتے ٹمٹماتے نظر آتے ہیں،اِس لئے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارا اصلی کردار ہی آپ کی اصل پہچان ہے ۔ــ
دعا ء گو ہوں کہ رب ِ جلیل عبدالحمید مغل صاحب کو سلامتی اور تندرستی کیساتھ عمر دراز عطا کرے۔ ناچیز کو سماج کے ایسی مخلص شخصیات پر اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کچھ نہ کچھ رقم کرنے کا جذبہ ہر وقت سوار رہتا ہے گوکہ مصروفیات کے باعث میں ایسے اُن تمام مخلص افراد تک نہیں پہنچ پاتا ہوں لیکن ایسی تمام مثالی شخصیات کے تئیں میری نیک خواہشات اور احترام ہمیشہ کیلئے رہے گا۔ اجازت چاہوں گا اک شعر کے ساتھ۔۔۔۔۔۔
خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں
نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا
