تحریر:توصیف بٹ
خلد کی راہ کے رہبر کو عمر کہتے ہیں
عدل و انصاف کے پیکر کو عمر کہتے ہیں
خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کے لئے روشن خدمات، جرات و بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار اور کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا مانگی تھی۔
اللهم اعز الاسلام باحب هذين الرجلين اليک بابی جهل او بعمر ابن الخطاب…
(جامع ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3681)
’’اے اللہ! تو ابوجہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما‘‘۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مراد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہرے۔ ایمان کی لازوال دولت تو اللہ رب العزت نے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی قسمت میں لکھ دی تھی تو پھر یہ دولت ابوجہل کے حصے میں کیونکر آتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کو بارگاہ الہٰی میں شرف قبولیت سے نوازا گیا اور چند دنوں بعد اسلام کا سب سے بڑا دشمن یعنی عمر بن خطاب اسلام قبول کرکے اسلام کا سب سے بڑا خیر خواہ اور جانثار بن گیا۔
آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے نہ صرف اسلامی تاریخ میں انقلابی تبدیلی آئی بلکہ مسلمانوں کی قوت و عظمت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ وہ مسلمان جو پہلے اپنے اسلام کو ظاہر کرتے ہوئے شدید خطرات محسوس کرتے تھے، اب اعلانیہ خانہ کعبہ میں عبادت انجام دینے لگے۔
چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام ہمارے لئے ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی۔ خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ پس جب وہ اسلام لائے تو آپ نے مشرکین مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔
(المعجم الکبير للطبرانی، رقم: 8820)
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لوکان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب.
(جامع ترمذی، کتاب المناقب، رقم:3686)
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔
اسی طرح ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کانت فی الامم محدثون ليسوابانبياء فان کان فی امتی فعمر.
(ديلمی، مسند الفردوس، رقم: 4839)
تم سے پہلی امتوں میں محدثون ہوا کرتے تھے جو کہ انبیاء نہیں تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے۔
