تحریر:فاروق ارگلی
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ صوفیائے کرام نے اپنے مذہب، عقائد، شریعت اور طریقت کا پاسدار رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں ہندو اقوام اور مسلمانوں کے مابین دوریوں کو نزدیکیوں میں بدلنے کے لیے اپنی بات عربی، فارسی یا ترکی کے بجائے بھارت واسیوں کی بولیوں میں کہنے کا جو طریقہ اپنایا تھا وہ بھارت کی سانجھی سنسکرتی یعنی گنگا جمنی تہذیب کے فروغ میں اس قدر مؤثر ثابت ہوا کہ وہ آج ہندی اور اُردو کی صورت میں پورے برصغیر کی آواز اور پہچان بن گیا ہے۔
بھارت کی مشترکہ تہذیب کا یہ بلند ایوان تعمیر کرنے میں بھکتی آندولن کے سنت اور صوفیوں، پریم مارگ، ریتی کال اور اس کے بعد بھی مسلمان کویوں اور ودوانوں کی تخلیقات کا بہت بڑا یوگدان ہے اور حضرت امیرخسرو صدیوں سے مسلسل آگے ہی بڑھتے جارہے اُس ثقافتی کارواں کے سالارِ اعظم ہیں جس کے اثرات دورِ حاضر کے تخلیقی ذہنوں میں آج بھی روشن ہیں۔ بھارت کی دیش بھکتی کا اتہاس اپنے اس مہان سپوت پر رہتی دُنیا تک ناز کرتا رہے گا۔ ہندوستان میں مسلم سلطنت کے قیام کے بعد حضرت امیرخسرو وہ پہلے مفکر، مدبر، ادیب، شاعر، ماہر سماجیات، سیاستدان اور صوفی بزرگ ہیں جنھوں نے موحد اور مشرک کا فرق مٹا کر ایک دیرپا انسانی انقلاب کا خاکہ مرتب کیا تھا، جس کے نتیجے میں بھکتی تحریک کے بزرگ شاعروں نے ہندوستان کو انسانی قدروں، روحانیت،محبت اور امن و آشتی کے خوبصورت پھولوں کا گلدستہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھارت میں بھگوان شری کرشن کو مجسم عشق کی علامت ماننے والے ہندو کویوں کے ساتھ مسلمان صوفی شاعروں کی بھی بڑی تعداد شامل رہی ہے، جن کا کلام ہندی ادب کا گرانقدر سرمایہ ہے۔
پریم کے دیوتا بھگوان شری کرشن کے عشق میں محمد ابراہیم رسکھان، ان کی بھکتی میں اس قدر سرشار ہوئے کہ ان کی شاعری آج تک ہندو سماج کی پوجا ارچنا کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ ملک محمد جائسی، رسکھان اور رحیم وغیرہ کی بھکتی شاعری کے علاوہ مسلم شاعروں کی تعداد اس دور سے لے کر آج کے زمانے تک اتنی بڑی ہے کہ سب کے اجمالی تذکرے کے لیے بھی ایک دفتر درکار ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس موضوع پر مسلمان شعراء نے طبع آزمائی کیوں کی؟ جواب یہ ہے کہ یہ مزاج صوفیائے کرام نے تیار کیا تھا، یہ تصوف کی تعلیم ہے کہ تمام انسان اللہ کے بندے ہیں اور اس کے بندوں سے محبت کرنا عبادت کا جزو ہے۔ صوفیائے کرام اور بھکت سنتوں کی بانی ہندوستانی مشترکہ سماجی زندگی کا مزاج بن گئی۔ آج ملک کے گوشے گوشے میں صوفیوں اور اللہ والوں کے مزارات اور خانقاہیں بلاتفریق ہندو مسلمان سب کی عقیدت کا مرکز ہیں۔ سامنے کی مثال مہاراشٹر کے مسلمان فقیر سائیں بابا ہیں جو اپنی برکات اور کرامت کے سبب ایشور کا اوتار مانے جاتے ہیں۔ شرڈی میں ان کا شاندار دربار ساری دُنیا میں مشہور ہے جہاں کسی دھرم، مذہب یا ذات پات کا کوئی بھیدبھاؤ نہیں ہے۔ یہی اسلامی تصوف کی روح ہے، جس میں من و تو کا امتیاز باقی نہیں رہتا اور کائنات کے تمام مظاہر میں اسی کی جلوہ آرائی نظر آتی ہے جو اس جگ کا وِدھاتا، ربّ العالمین ہے۔
یہ بہت بڑی تاریخ ہے، جس کے منظرنامے میں لاتعداد عظیم ہستیاں براجمان ہیں۔ اس جگہ میں صرف ایک ولی کامل حضرت شاہ محمد کاظم قلندر کاکورویؒ کا ذکرکرنا چاہتا ہوں جن کا شمار اولیائے کبار میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے ہندی اور اُردو کلام کے وسیلے سے رموزِ سلوک و معرفت بیان فرماتے تھے۔ آپ کے عقیدت مندوں میں ہر مذہب و ملت کے لوگ شامل تھے۔ حضرت کاظم قلندرؒ اٹھارہویں صدی کے نامور بھکتی شاعر بھی تھے۔ آپ کی کتاب ’سانت رَس‘ رسکھان کی کرشن بھکتی کی شعری روایت کو ان کے دو سو سال بعد بڑی خوبصورتی سے آگے بڑھاتی ہے۔ قلندر صاحب نے بھی بڑی مستی کے ساتھ شری کرشن کی عقیدت کے گیت گائے ہیں۔ وہ سنگیت کے رسیا بھی تھے، ان کی ایک ٹھمری کے بول سنئے:
کہاں گئے برج لال بسیّا
من موہنی بنسی کے بجیّا
کہاں چھپی جائے موہنی مورتیا
سگرے سگرے من کے چھلیّا
جون کرت رہو کھیل کنجن ما
کہاں گئے برج لال بسیّا
یہ ایک حیرت ناک ادبی سچائی ہے کہ صدیوں پرانی روادارانہ بھکتی روایت مسلم شاعروںو ادیبوں کے یہاں نظیرؔ سے لے کر علامہ اقبال اور حسرتؔ موہانی تک بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ موجودہ عہد میں بھی ہمارے شعری اور نثری ادب میں پوری تابناکی کے ساتھ جھلکتی ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کو بھکتی اور شانتی اور اس دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہی نظر آتی ہے۔ ایسے ہی متقی، پرہیزگار، نوبار کے الحاحج رئیس المتغزلین، مجاہد آزادی مولانا حسرت موہانی کرشن جی کی محبت میں اس درجہ سرشار ہوجاتے ہیں کہ اکثر وہ متھرا اور برنداون کی زیارت کرنے پہنچ جاتے تھے۔ کلیاتِ حسرت میں کرشن جی کی مدح میں متعدد اشعار ملتے ہیں جیسے :
متھرا نگر ہے عاشقی کا
دم بھرتی ہے آرزو اسی کا
برسیانہ و نندگاؤں میں بھی
دیکھ آئے ہیں ہم جلوہ کسی کا
پیغامِ حیاتِ جاوداں ہے
ہر نغمہ کشن کی بانسری کا
وہ نورِ سیاہ تھا حسرتؔ
سرچشمہ فروغِ آگہی کا
واضح ہو کہ کرشن جی کا رنگ سانولا تھا لیکن حسرت نے انھیں ’نورِ سیاہ‘ کے عقیدت مندانہ لقب سے مخاطب کیا ہے۔
اور اب دیکھئے محبت، رواداری اور ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کے گیسو سنوارنے والی خسروی روایت کے وارث و امین درگاہ محبوبِ الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ کے سجادہ نشین، دینی و روحانی رہنما، مصورِ فطرت، شمس العلماء حضرت خواجہ حسن نظامیؒ اپنے اسلاف کی اس شاندار روایت کو عصر حاضر میں کس طرح آگے بڑھانے کی تاریخ ساز کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تصنیفات کی بہت بڑی تعداد ہے جو اُردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
خواجہ صاحبؒ اُس دور میں ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کو مستحکم کرنے کی کوشش کررہے تھے جب انگریز کی پالیسی ’’بانٹو اور راج کرو‘‘ اپنی انتہا تک ہندوستانی معاشرے کو زہر آلود کرچکی تھی۔ خواجہ صاحب کا جادو نگار قلم اُس وقت بھی ہندو مسلم اتحاد اور ذہنی ہم آہنگی کے لیے رواں دواں تھا۔ خواجہ صاحب کا ایک تاریخ ساز کارنامہ ان کی کتاب ’ترکِ قربانی گاؤ‘ بھی ہے۔ گائے ہندو برادران کے لیے مقدس مویشی ہے، وہ اس کی پوجا کرتے ہیں۔ خواجہ صاحب ۱۹۲۱ء میں مسلمانوں کو گائے کی قربانی اور ذبیحہ سے منع کرنے کے لیے دینی، سماجی، طبّی سبھی طرح کے دلائل پر مشتمل کتاب تصنیف کرتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں چھاپ کر پورے ہندوستان میں پھیلا دیتے ہیں۔ اس شاہکار کتاب کا شروعاتی پیراگراف ملاحظہ ہو:
’’حمد اور درود کے بعد دہلی کا رہنے والا حسن نظامی اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں گائے کی جان بچانے کی نسبت کچھ عرض کرنا چاہتا ہے۔مسلمانوں کی قوم صدیوں سے ہندوستان میں رہتی ہے اور اُس نے یہاں سینکڑوں برس بادشاہی کی ہے۔ جس دن مسلمان اس ملک میں آئے اُسی دن سے اُنھوں نے ہندوؤں سے یہ سنا کہ گائے ذبح نہ کی جائے کہ ہندو اس کی مذہبی عزت دل میں رکھتے ہیں۔ بعض مسلمان بادشاہوں نے گائے کشی میں ہندوؤں کی دل جوئی کے خیال سے احتیاط کی اور بعض بے پروا رہے، مگر ہر زمانے میں یہ ظاہر ہوا کہ ہندو قوم گائے کشی سے بہت رنجیدہ ہوتی ہے اور جب کبھی ہندو مسلمانوں کا اتفاق ہوا تو گائے کا مسئلہ ضرور سامنے آیا۔یعنی مسلمانوں نے ہندوؤں کی دوستی کے لیے گائے کشی بند کردی۔ چنانچہ غدر 1857ء میں بھی جب ہندوستان کے ہندو مسلمانوں کا ایکا ہوا تو گائے کشی ترک کردی گئی تھی اور ہندوؤں کے دل پر مسلمانوں کے اس فعل کا بہت اچھا اثر ہوا تھا۔‘‘
خواجہ صاحب اپنی تقریروں سے بھی گاؤکشی روکنے اور ہندومسلم اتحاد کی تلقین پوری شدت کے ساتھ کرتے ہیں۔
خواجہ حسن نظامیؒ صحیح معنوں میں اپنے عہد کی ’’بھکتی تحریک‘‘ کے علمبردار تھے۔ آج یہ بات کس قدر حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ صوفی صافی، پابند شریعت و طریقت خواجہ صاحب نے کئی سال تک ایک بیراگی کی زندگی گزاری۔ انھوں نے ہری دوار، رشی کیش، متھرا، کاشی اور کیدارناتھ وغیرہ تیرتھوں کی یاترا ایک سادھو کے روپ میں کی اور اُس وقت کے یوگیوں، سادھوؤں اور دھرماچاریوں سے ملاقاتیں اور تبادلہ خیال کیا اور ان کے عقائد کو سمجھنے کی کوشش کی۔
’کرشن بیتی‘ یا ’کرشن جیون‘ خواجہ صاحب کی لافانی تصنیف ہے۔ کرشن جی کی سیرت اور سوانح پر اُردو زبان میں یہ منفرد کتاب ہے، جس کے لفظ لفظ سے کرشن جی سے محبت اور عقیدت مترشح ہوتی ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں مہاراجہ سر کشن پرشاد وزیر اعظم نظام حیدرآباد لکھتے ہیں:
’’میں نے ’کرشن بیتی‘کو غور سے پڑھنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہے کہ یہ کتاب مدارس کے نصاب میں شامل کی جائے۔ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کی اقوام ہندو مسلمانوں میں اصلی اور سچا اتحاد پیدا ہو ان کو اس قسم کی کتابیں اپنے بچوں کو پڑھانی چاہئیں جن سے ہر قوم دوسری قوم کے رہنمایانِ مذہب کی عزت کرنے پر مائل ہوگی۔‘‘
خواجہ صاحب نے ’رام اُپدیش‘ کے عنوان سے اپنے مشہور جریدہ ’نظام المشائخ‘ کے اگست ۱۹۱۰ء کے شمارے میں ہندو مذہب کی اہم کتاب ’یوگ وششٹ‘ سے ترجمہ کرکے راجہ دشرتھ، گرووششٹ اور رِشی وشوامتر کی مجلس میں اُنیس سالہ بھگوان رام کے ارشادات بیان کیے ہیں جن میں دُنیا کی برائی، زندگی، دل اور حرص و ہوس کے تناظر میں شری رام چندر کی نصیحتیں پراثر انداز میں بیان ہوئی ہیں۔
خواجہ صاحب عالم دین اور سچے عاشق رسولؐ ہیں،مگر کرشن جی کی مرلی اُن کے عشق رسولؐ کا استعارہ بن جاتی ہے۔ اخبار ’توحید‘ کے شمارہ یکم جون ۱۹۱۳ء میں اُن کاایک چھوٹا سا مضمون ’مدنی شیام کی مرلی‘ حیرت انگیز ہے، جس میں وہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض گزار ہیں۔ تحریر میں ہندوستانیت آبشار کی طرح بہہ رہی ہے:
’’زلفوں والے پریتم پیارے، یثرب باسی، موہن کنہیا کی بانسری بلہاری، حجازی پربت میں کھڑے ہوکر ایسی بجائی کہ جنم جنم کے کلیش دُور ہوگئے، مگر اب زمانہ بیت گیا، راتیں بیت گئیں، شیام سندر کی مرلی کی آواز سنائی نہیں دیتی، جنگل کے مور،آم کی ٹہنی کی کوئل سب اُس پیاری اور سریلی صدا کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ جس کی کوک کلیجے میں ہوک پیدا کرتی ہے۔ برسات کا موسم قریب آیا، کالی گھٹائیں اُمنڈ اُمنڈ کر آئیںگی اور کشن کنہیا کی بانسری کو ڈھونڈیں گی۔ کوئی چاتر سمجھدار سکھی سہیلی ایسی نہیں جو شیام سندر کو سندیسہ پہنچائے، اس بہانے بن میں بلا کر لائے، پریم روپ موتی، کانوں میں مندرے ڈالے بانسری لے کر پھونکے اور ’نفخت فیہ من روحہ‘ کا جلوہ ظاہر ہو۔ شیام کی مرلی سننے کو جی ترستا ہے۔ رن کا بگل ترم ہمارے حجازی موہن کی بانسری کے آگے ہیچ ہے۔ کاش! وہ پھر باجے، پھر دُہائی مچے۔ آہا! وہ دیکھو، سیام سندر مرلی لیے بن سے نکلے، اب کوئی دم میں مرلیا باجے گی اور نین کی بدلی برسے گی۔ ندی نالے سوکھے تھے، گنگا جمنا پیاسی تھی، گھٹ کے تیرتھ سونے تھے، بھکتی کا تھا کال پڑا، سنت کے گلے جنجال پڑا، اب مرگ کی ترشنا دُور ہوئی اور چنتا من کافور ہوئی۔ اب ہرہر کی آمد آمد ہے، اب ہر کی آمد آمد ہے۔ سنسار کا داتا آتا ہے اور ہر کا جھنڈا لاتا ہے۔ بانس کی مرلی صور ہے، یہ اور پستک کا مستور ہے۔‘‘ (سیپارۂ دل)
خواجہ صاحب وید کے اس فرمان ’’ایکے برہم، دویتیو ناستی‘‘ کا مفہوم ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ میں دیکھتے ہیں۔ وید کے یہ شبد ہندو مذہب کے اصولوں میں شامل ہے۔ اس طرح وہ ہندو قوم کی توحید پرستی ظاہر کرتے ہیں۔ غور کیا جائے تو ہر مذہب کی بنیاد توحید ہی ہے۔ خواجہ صاحب نے ہندو دھرم اور قرآن کریم کی تعلیمات کو ایک دوسرے کے سامنے رکھ کر بیان کیا ہے۔ قرآن کریم میں ’کن‘ اور وید میں ’برہما‘ جس طرح ’کن‘ کے بعد ’فیکون‘ کا ظہور ہوا، اسی طرح ’برہم‘ کے ظہور کے بعد سب کچھ ظاہر ہوا۔ (سیپارۂ دل)
ہندو بھکتی کے دونوں روپ سگن اور نرگن سے خواجہ صاحب پوری طرح آگاہ تھے۔ انھوںنے اپنے مضمون ’گیان کتھا‘ میں کرم،عمل، گیان، موکش اور مکتی کے فلسفے کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
خواجہ صاحب کی شاہکار تحریروں میں ’ہری دوار گنگا کے کنارے چنتا من کی مورتی‘، ’ہم ہیں بالک ایک پتا کے‘، ’بھگت کے بس میں آ بھگوان‘، ’گیان کتھا‘، ’سناتن سندیس‘، ’سادھو سنکٹ‘ اور ’رام اُپدیش‘ وغیرہ میں ہندو دھرم اور اسلام کو قریب لانے کی مؤثر کوشش کی گئی ہے۔ انھوں نے سکھ مت پر بھی بڑی محبت سے قلم اُٹھایا ہے۔ ایک پورا کتابچہ ’سکھ‘ کے عنوان سے سپردِ قلم کیا ہے جس میں سکھوں کی تاریخ، گروؤں کے تذکرے، گرنتھ صاحب کی تعلیمات اور سکھوں کی شجاعت اور ان کی سماجی خوبیاں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔ حضرت بابا نانک صاحب کی مدح میں خواجہ صاحب کی تحریر سے بھرپور محبت اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے:
’’حضرت گرونانک صاحب کے عارفانہ کلام میں کیسی شیرینی ہے، ٹھنڈک ہے، سرور و اطمینان ہے۔ پنجاب کہتا ہے کہ میں پانچ دریاؤں سے سیراب ہوتا ہوں،مگر دریا بولے ہم سے زیادہ ترو تازگی اس انسان کی باتوں میں ہے جس کا نام نانک تھا، جو ظاہر و باطن کے حواسِ خمسہ کو سیراب کرنے آیا تھا۔‘‘
یہ موضوع طویل ہے، میں اس جگہ اپنی گفتگوکو ختم کرتاہوں ۔ بقول حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی: ’’رات چھوٹی ہے اور رامائن بڑی۔۔۔‘‘
