تبصرہ نگار۔۔فاروق بانڈے
نام کتاب۔۔۔ چانہِ انمانہ آفتاب پکو
مصنف۔۔۔ سید امین تابش
ناشر ۔۔۔ کشمیر مرکز ادب و ثقافت
مطبوعات ۔۔ تاج پرنٹنگ پریس، دہلی
قیمت۔۔۔۔ 600روپیہ
صفحات۔۔۔526
سید امین تابش کی کتاب جب ہاتھ میں پڑھنے کے لئے میں نے اُٹھائی تو میں مصنف کے بارے میں،یا اس کے پیشے کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتا تھا۔ ہاں کتاب کا سرِ ورق دیکھ کر ہی مجھے اندازہ ہوا کہ صاحب کتاب کوئی ایساماہر ہوگا جس نے نہ صرف کتاب کے موضوعات پر عرق ریزی کی ہوگی بلکہ کتاب کو جازِب نظر بنانے کے لئے کافی محنت کی ہوگی اور وہ کوئی عام مصنف نہیں ہوسکتا ہے۔
کشمیری زبان میں لکھی گئی کتاب کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے حصے کا عنوان ہے’تخلیقات تہ زان‘۔اس حصے کی شروعات کشمیری زبان کے ایک مایہ ناز شاعر اور مدرس،پروفیسر رحمن راہی کے تابش صاحب پر لکھے گئے ایک مدلل تحریر سے شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ستاروں نے سید امین تابش کے بارے میں اپنے خیالات و جذبات کوکچھ اس طرح سے اظہار کیا ہے کہ پڑھنے والا شش و پیج میں پڑھ جاتا ہے کہ کیا تابش صاحب ایک شاعر ہیں، یا ڈاکٹر ہیں،یا سائنس دان ہیں،یا محقق ہیں،کیا ہیں۔ ایک طرف پروفیسر محمد زمان آزردہ، پروفیسر شاد رمضان،محمد یوسف ٹینگ جیسی قدآور شخصیات نے تابش کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا،وہیں لیم جے مُرے، سر الیکذنڈر مکارا، ڈاکٹر عبداللہ الغشام،پروفیسر ڈاکٹر اُپندر کول نے بھی ان کے بارے میں اپنے قیمتی خیالات ظاہر کئے ہیں جو انہیں مختلف شعبوں میں ان کے ساتھ ہم رکاب بننے کے دوران ان میں نظر آئی ہیں۔
سیدامین تابش پیشے سے ایک ڈاکٹر رہے ہیں جنہوں نے اپنا زیادہ تر وقت لوگوں کو علاج کرنے کے لئے صرف کیا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے سائنسی تحقیقاتی مقالوں کے علاوہ کشمیری زبان میں شعر بھی کہیں ہیں، علمِ طب کے مختلف گوشوں کو کشمیری زبان میں رقم کرکے اس زبان کے وقار کو بڑھانے میں ایک بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ پروفیسر راہی لکھتے ہیں ”اگر موجودہ دنیا کے معروف افسانہ نگار چیکوف کی طرف نظر ڈالتے ہیں،وہ پیشے کے لحاظ سے ایک معالج ہیں مگر افسانوں نے انہیں شہرت بخشی،اسی طرح ہمارے تابش بھی ہمارے ادب کی ایک شمع ہیں“۔
ملک کے مشہور ڈاکٹر پروفیسر اوپندر کول ان کے بارے میں خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کرتے ہیں،”ڈاکٹر تابش نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر ممالک کے معروف اداروں میں ا ُن اعلیٰ عہدوں پر کام کیا جہاں تک پہنچنا کافی دشوار ہے“ وہ مزید لکھتے ہیں،”طبی سائنس کی دنیا میں ان کا رول اور عوام کی بے لوث خدمت کے لئے انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح کے درجنوں انعامات سے نوازہ گیا“۔
سینئر کنسلٹنٹ سوشل میڈیسن بسٹل یونیورسٹی انگلیڈ کے ڈاکٹر سر الیکزنڈر مکارا ان کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ ”ڈاکٹر تابش صاحب کو عالمی ’نیشنل ہیلتھ سروس‘ برطانیہ میں خاص علمی مہارت حاصل ہے جو کہ بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔“
ناردرن ائیر لینڈ کے پروفیسر لیم جے مرے ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اس طرح اظہار کرتے ہیں۔”ڈاکٹر تابش کے جوش و جذبے کو دیکھ کر میں یہ وسوکھ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ طبی سائنس کی دنیا میں وہ چمکتے تاروں میں سے ایک ایسے تارے ہیں جو کبھی بھی ڈوب نہیں سکتے ہیں“۔
اس حصے میں امین تابش صاحب کی پہلی کتاب ’حسینی کاروانک سفر‘ کا بھی ذکر خیر (صفحہ نمبر 73 پر)کیا گیا ہے جو انہوں نے طالبِ علمی کے زمانے میں لکھی تھی اور 1980میں شائع ہوئی تھی۔اس کتاب کے منظر عام پر آتے ہی یہ ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان سے وابستہ عامو خاص میں کافی مقبول ہوئی تھی اور اس کتاب کی علمی، تحقیقی اور زبان کی شائستگی نے کشمیر یونیورسٹی نے اسے ایم۔اے (کشمیری) میں بطور سیلبس میں شامل کیا۔ اس کتاب میں معرکہ کربلا کے فلسفہ شہادت، باطل کے خلاف آواز حق بلند کرنا اور معصوم بچوں کی کئی دنوں کی پیاس کے باوجود باطل کے سامنے سر نہ جکانے کے ولولے اور حق پر قائم رہنے کی جستجوکا بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ ’حسینی کاروانک سفر‘ کا خوبصورت مضمون شامل ِکتاب کیا گیا ہے مگر اس کے مصنف کا نام درج نہ کرکے ان کے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے۔
اسی حصے میں امین تابش کی شعری تخلیقات کو بھی شامل کیا گیا ہے جن میں تیس سے زائد نعت و غزل کے علاوہ پانچ نظمیں ایک مرثیہ اور چند دیگر اشعار شامل ہیں۔ اسی حصے میں ان کی وہ غزل بھی شامل ہے جس پر اس کتاب کا نام رکھا گیا ہے۔ ہاں ’چانہِ انمانہ آفتاب پکو‘
۔۔ چانہ ِ انمانہ آفتاب پکو
دوُر منزل چُھ بے حساب پکو
کتاب کے دوسرے حصے کو عنوان دیا گیا ہے”ذکرِ حبیب“۔ عنوان کے مطابق ہی اس حصے میں نبی برحق کی زندگی کے مختلف گوشوں پر سیر بحث کرنے کے علاوہ ان کے خاندان کے دیگر افراد کا بھی ذکر خیر کیا گیا ہے، جنہیں پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نبی برحق اور اہل بیت کی زندگی کے مختلف گوشوں کو ہم تک کشمیری زبان میں پہنچانے کے لئے انہوں نے کتنی تحقیق و عرق ریزی کرکے ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ اس حصے میں بارہ مضامیں شامل کئے گئے ہیں جن میں دس مضامیں پیغمبر اعظم اور اہل بیعت سے متعلق ہیں۔ ایک اور مضموں جو اس حصے میں شامل ہے وہ ہے اس منشور کے بارے میں تابش صاحب کے خیالات ظاہر کرتا ہے جو پیغمبر اسلام کا دنیا میں انسانی بقا کا تھا اور جس کا عنوان’ انسانِ کاملﷺ سُند انقلابی منشور۔(صفحہ نمبر 243)۔ امین شابش نے ایک مضموں میں جس کا عنوان ’اسلام پنداہمہِ صدی ہجری منز‘ (صفحہ نمبر 241)ہے موجودہ دور میں مسلمانوں کو اپنا ماضی اور حال کی ایک تصویر دکھا کر انہیں بیدار ہونے کی سعیٗ کی ہے۔
کتاب کا تیسرا حصہ ’گاشہِ تارک‘ کے عنوان سے درج کیا ہے۔ اس حصے میں دس اسلامی بزرگانِ دین کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کی کاوشوں کی وجہ سے مختلف ادوار میں دینی اور علمی شمع اور بھی روشن ہوکر دینا کو منور کرتی رہی۔ ان بزرگانِ دین میں ایک طرف حضرت میر سید علی ہمدانی، حضرت معین الدین چستی کا ذکر ہے، دوسری طرف حضرت شیخ العالم، حضرت میرک شاہ کابھی تذکرہ شامل ہے۔حضرت مولانا جامی، حضرت مولاناجلال الدین رومی اور شاعر مشرق سر محمد اقبال کا تذکرہ کرکے امین تابش نے اپنی دینی و علمی بصیرت کا ایک نمونہ پیش کیا ہے۔
کتاب کے چوتھے حصے کا عنوان ہے’قداوار‘۔ کتاب کے صحفہ نمبر 306 سے لیکر 339 تک زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نو قد آورشخصیتوں کا ذکر کیا گیاہے۔ جن شخصیات کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے ان میں فلاسفر بھی ہیں، سائنس دان،ڈرامہ نویس، سیاست دان،شاعر اورایک معالج بھی شامل ہے۔ ان نامور شخصیات میں سقراط،افلاطون، ولیم شیکسپیر،البرٹ آنسٹائن،ابراہم لنکن کے علاوہ برصغیر کے نامور شاعر فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی اور احمد فراز کے علاوہ وادی کشمیر کے معروف معالج ڈاکٹرنصیر احمد شاہ کے بارے میں تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ان قدآور شخصیات کا ذکر اس کتاب میں، ظاہر سی بات ہے، امین تانش کی ذاتی ترجیحات اور مشاہدات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ کسی مہربان کو شخصیات کے اس چناؤ پر اعتراز بھی ہو سکتا ہے مگر ان حضرات کے قدآور ہونے میں کسی کو کوئی مغالطہ نہیں ہوگا۔
تم ہو ناخوش یہاں کون ہے خوش پھر بھی فراز
لوگ رہتے ہیں اسی شہردل آزار کے بیچ
مقامِ فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے دار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔
کتاب کا پانچواں حصہ ڈاکٹر امین تابش کو اپنے پیشے کے موضوع پر تشکیل دیا گیا ہے۔ اگر ڈاکٹر تابش نے اس حصے میں تجربے کو بنیاد بناکر پچیس ان بیماریوں کے بارے میں تحریر کیا ہے جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ہر زندہ انسان کو ان کے بارے میں معلومات رکھنی چاہئے۔ ہم اپنے آپ کو، اپنی فیملی کو،اپنے ہمسایہ، رشتہ داروں کو لگی مختلف بیماریوں کے بارے میں سنتے ہیں اور خود بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔ڈاکٹر تابش نے نہایت ہی سہل اور شائستہ الفاظ میں ان کا ذکر کرکے لوگوں میں آگاہی بیدار کرنے کی ایک عمدہ کوشش کی ہے جس کے لئے ڈاکٹر صاحب مبارکبادی کے حقدار بنتے ہیں۔
کتاب کے آخری یعنی چھٹے حصے میں ایسے ایسے نادر تصویرات شامل کی گئی ہیں جن کا تعلق نہ صرف امین تابش کی ذاتی زندگی سے ہے بلکہ ان میں سے کئی سارے تاریخی حثیت بھی رکھتے ہیں۔ آنے والی نسلوں کو یہ فوٹو ہمارے ماضی کے بارے میں بہت کچھ بتا دیں گے، وہ بھی پورے ثبوت کے ساتھ۔
ڈاکٹر امین تابش کی اس کتاب کے بارے میں،ساحر لدھیانوی کا وہ شعر بہت ہی مناسب ہوگا جو انہوں نے اپنی اسی کتاب میں درج کیاہے۔
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
