
یوں تو اس وقت دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیںجہاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منظم اور منصوبہ بند سازشیں ر چی جا رہی ہیں ۔ اس دوڑ میں چین بھی سب سے آگے رہنا چاہتا ہے ۔ چین کے شمال مشرقی علاقے سنکیانگ میں موجود اویغور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم وبربریت کی خبریں مسلسل سرخیوں میں رہتی ہیں ۔ ا یسی غیر انسانی اور حیوانیت سے بھری خبروں کو اقوام متحدہ نے مسلم اقلیتوں کے خلاف غیر انسانی اور ممکنہ جرائم سے تعبیر کرتے ہوئے ہوئے گزشتہ 2018 ء سے چاربرسوں تک تفتیش کرنے کے بعداویغور مسلمانوں پر چین کے ظلم وستم پر ایک رپورٹ تیار کرنے کے بعد اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے اپنی سبکدوشی کے آخری دن جاری کیا تھا اور انھیںپوری امید تھی کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی میٹنگ میں اس رپورٹ پر مباحثہ کی قرارداد منظور ہوجائے گی ۔ جسے دیگرممالک اسے ایجنڈے میں شامل کرینگے،خاص طور پر مغربی ممالک اس پر مباحثہ کے لئے زیادہ پُر امید تھے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ کافی محنت ،جستجو اور تفتیش کے بعد اویغور مسلمانوں پر چینی حکومت کی دانستہ مظالم کی جو رپورٹ تیار ہوئی اس پر مباحثہ کی قراردادکو چین نے اپنی طاقت اور آمریت کے زور پر مسترد کرا دیا ۔ چند روز قبل جینیوا میں قائم 47 ممبران کی کونسل میں شامل ممالک نے اویغور مسلمانوںکے خلاف چین کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بحث کرانے کے خلاف 17 کے مقابلے 19 ووٹ دئے گئے ۔ان میں بولیوبا،کیمرون ، چین ، کیوبا ، اریٹیریا، گبون ، اندونیشیا ، آئیوری کوسٹ ، قزاقستان ، موریطانیہ ، نمیبیا ، نیپال ، پاکستان ، قطر ، سینیگال ، سوڈان ، متحدہ عرب امارات ، ازبکستان اور وینزویلا جیسے ممالک نے بحث کی مخالفت میں ووٹ دئے ہیں ۔ ووٹنگ میں ارجنٹینیا، آرمینیا، بینن ، برازیل ، گمبیا ، بھارت ، لیبیا ، ملادی، ملیشیا ، میکسیکو اور یوکرین جیسے 11 ممالک نے ووٹ میں حصہ نہیں لیا ۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ یہ ایک اچھا موقع تھا کہ چین کواویغور مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم ، بربریت ، حیوانیت ، تشدد ، نفرت ، اسلامی تشخص ختم کرنے کے مبینہ جرائم پر گھیرنے کی اور اس کے غیر انسانی سلوک پر قدغن لگانے کی ۔ لیکن صد حیف کہ چین کے اویغور مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی رپورٹ کے تحت چین کی مذمت اور تدارک اور تدابیر کی بجائے مسلم ممالک نے چین کے ظلم اور سفّاکی کا ساتھ دیا ۔ سب سے زیادہ تو بے شرمی متحدہ عرب امارات ، قطر ، پاکستان اور انڈونیشیا نے دکھائی ہے ۔ جو بات، تو اسلامی تشخص، انسانیت اور رواداری کی کرتے ہیں اور جب اسلام ،مسلمان ، انسانیت اور رواداری کے دشمنوں کو آئینہ دکھانے کی آتی ہے تو یہ مسلم (نام نہاد) ممالک ایسے دشمنوں کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں ۔ جس طرح اویغور مسلمانوں پر چین مظالم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے، نسل کشی کر رہا ہے، توقع تھی کہ ہمارے یہ مسلم ممالک ضرور چین کے خلاف قرار داد کی حمایت کرینگے اور چین کوسختی کے ساتھ تنبیہ کرتے ہوئے مظالم کا سلسلہ بند کراینگے۔ لیکن یہ افسوس کہ اس اہم موقع کو ان مسلم ممالک نے اپنی آمریت ، عنانیت ، مفادات اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ اگر یہ قرار داد منظور ہو جاتی تو اگلے سال مارچ ماہ میں منعقد ہونے والے اجلاس میں سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں پر چین کے ظلم وتشدد پر مباحثہ ہوتا اور چین کو اپپنے ایسے غیر انسانی عمل و کردار پر نہ صرف عالمی سطح پر شرمندہ ہونا پڑتا بلکہ دنیا کے سامنے ندامت سے بچنے کے لئے اپنے غیر انسانی سلوک پر قدغن بھی لگانے کی کوشش کرتا ۔ لیکن اب تو چین اپنی کامیابی کا جشن منا رہا ہے اور ادھر انسانی حقوق کے ان لوگوں نے جنھوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے رپور ٹ تیار کی تھی انھیں اپنی انتھک کوششوں اوروقت کی بربادی کا ملال ہے ۔
سنکیانگ جو آج پوری دنیا کے سامنے اپنی مظلومیت کا نوحہ سنا رہا ہے۔ یہاں عرصہ دراز تک مسلمانوں کی حکومت رہی ہے ۔یہ خطہ روس ، قزاقستان ، تاجکستان ، پاکستان اور ہندوستان کی سرحد سے ملتا ہے ۔ اس علاقے پر چین نے ناجائز طور پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے اور 1949 ء میں کمیونسٹ پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد چین کی حکومت نے سنکیانگ جہاں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے زائد اویغور مسلمان آباد ہیں ۔ انھیںظلم وبربریت کے ساتھ کچلا جا رہا ہے ۔ یہاں کی مساجد کو اصطبل یا فوجی رہائش میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ مسلم آبادی کے قبرستانوں کو مسمار کر دیا گیا ہے ۔ان کی اپنی زبان پر پہرے بٹھا دیا گیا ہے ۔ جرمن وزارت خارجہ اور دیگر انسانی حقوق تنظیموں کے مطابق ان مسلمانوں میں سے دس لاکھ سے زیادہ مسلمان نظربند ہیں یا چینی حکام کے حراستی مراکز اور دیگر کیمپوں میں قید و بند کی زندگی گزارنے کے مجبور ہیں ۔ ان مسلمانوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ یہ لوگ اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ جس کی پاداش میں انھیں ایسی ایسی ناقابل بیان اذیت ناک سزائیں دی جا رہی ہیں کہ سن کر اور پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اب تک کی رپورٹ کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں اویغورمسلمانوں کی جسمانی اور جنسی تشدد میں موت ہو چکی ہیں ۔ یہاں فوجیوں کے ذریعہ لڑکیوں کی اجتمائی عصمت دری کرنا ان کے اسقاط حمل یا بانجھ بنانے کی بات بھی عام ہے ۔ یہاں نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا ، عبادت کرنا ، اپنے بچوں کا اسلامی طرز کے نام رکھنا غرض یہاں اسلام کی بات ماننا اور مسلمان ہونا سخت جرم ہے ۔ کیمپوں میں جمعہ کے روز کھانے میں خنزیر کا گوشت کھانے کے لئے مجبور کئے جانا ، رمضان میں اگر کسی نے خاموشی سے روزہ رکھ لیا تو اس شخص کی داڑھی نوچی جاتی ہے ۔ ایسے نہ جانے کتنے ہولناک اور اذیت ناک اور سفّاک سانحات ہیں جو حکومت چین کے پوشیدہ رکھنے کی کوششوں کے باوجود مختلف انسانی حقوق کی حمایت کرنے والی شخصیات اور تنظیموں کے توسط سے باہر آ تی رہتی ہیں ۔ حالانکہ چین اپنے ایسے حیوانیت اور ظالمانہ کردار و عمل کی نفی کرتا ہے اور دنیا سے پوشیدہ رکھنے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہتا ہے ۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے بڑے افسوس کے ساتھ گزشتہ سال یہ اعتراف کیا تھا کہ ’’ مجھے افسوس ہے کہ سنکیانگ کے اویغور خود مختار علاقے تک بامعنی رسائی حاصل کرنے کی ہماری کوششوں میں پیش رفت نہیں ہو سکی ‘‘ ۔ اسی کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’ان کا دفتر انسانی حقوق کے الزامات کے بارے میں دستیاب معلومات کا جائزہ لینے اور اسے عام کرنے کے منصوبوں کو حتمی شکل دے رہا ہے ۔ میونخ میں قائم ورلڈ اویغور کانگریس کے پروگرام اور ایڈو کیسی منیجر زمریتے آرکن کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ بڑی اہم ہے ۔ اس لئے کہ یہ اپڈیٹ انسانی حقوق کی ہائی کمشنر کی جانب سے اس علاقے تک رسائی کے لئے تین سال تک سرکاری سطح پر درخواستوں کے بعد جاری کیا گیا ہے ۔ سنکیانگ میں مسلمانوں کو انھیں اپنے مذہبی عقائد چھوڑنے پر مجبور کیا جا تا ہے ۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کی ترجمان مارٹنا ہر ٹا ڈو کے بموجب اقوام متحدہ کے متعدد حکام نے سنکیانگ میں 2018 ء سے انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لیا ہے ۔ جن میں نسلی امتیاز کے خاتمے کی کمیٹی اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے منسلک ماہرین شامل ہیں۔ان آزاد اداروں نے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم اور تشدد پر ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹر نیشنل نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سنکیانگ میں دس لاکھ سے زائد اویغور مسلمانوں اور دیگر مسلم نسلی اقلیتوں کو حراستی کیمپوں میں رکھ کر انھیں جبراََ مشقت پر مجبور کرکے انسانیت کے خلاف جرائم کر رہا ہے ۔ساتھ ہی ساتھ ایغور کے باقی ماندہ لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لئے ان کی سخت نگرانی کی جاتی ہے ۔ چین ان تمام الزامات کی ہمیشہ تردید کرتا رہا ہے ۔ لیکن اقوام متحدہ بار بار چین کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ چین فوری طور پر تمام افراد کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرے نیز یہ بھی کہا ہے کہ چین کے کچھ اقدامات بین الاقوامی جرائم بشمول انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں ۔ انسانی حقوق کے مختلف گروپوں کا ایک اندازہ ہے کہ شمال مغربی چین سے دس لاکھ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ۔ اس ضمن بہت ہی خاص بات یہ بھی ہے کہ چین نے اقوام متحدہ سے اس سلسلے میں رپورٹ جاری نہ کئے جانے کی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ یہ سب مغربی ممالک کی جانب سے رچا گیا تماشہ ہے ۔ جینیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بھی چین کے وفد نے اس رپورٹ کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے صفائی دینے کو کوشش کی تھی کہ یہ رپورٹ ہمارے ملک کو بدنام کرنے کی سازش اور ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے ۔ لیکن دوسری جانب تفتیش کرنے والوں نے کہنا تھا کہ انھوں نے تشدد کے معتبر ثبوت کا انکشاف کیا ہے جو ممکنہ طور پر ’انسانیت کے خلاف جرائم ‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔
افسوس ہے کہ حقوق انسانی کے اہم ایک گروپ کی محنت سے تیار یہ رپور ٹ اب اگلے سال اقوام متحدہ کے منعقد ہونے والے اجلاس میں پیش نہیں ہو سکے گی ۔جس کے ذمّہ دار بہرحال وہی مسلم ممالک ہیں جو انسانیت ، حق و انصاف کی صرف باتیں کرتے ہیں ۔ قران پر یقین رکھنے والے یہ مسلم ممالک کے سربراہوں نے قران کی اس آیت کو بھی نظر انداز کیا ،جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے وماللِظٰلمین مِن نصیرِِ،(اقترب )یعنی ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں۔گرچہ کئی مسلم ممالک میں عوامی طور پرچین کے اویغور مسلمانوں پر کئے جا رہے ظلم وحق تلفی کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہتی ہے ۔ چند روز قبل ہی ڈھاکہ میں بنگلہ دیش لبریشن فائٹرز نے اویغور مسلمانوں کی حمایت میں ایک احتجاجی ریلی اور انسانی زنجیر نکال کر اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اویغور مسلمانوںکے مسئلہ کو بین الاقوامی فوجداری عدالت میںاٹھانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے ۔اس موقع پر اس تنظیم کے روح الامین نے کہا ہے کہ چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ علیحدگی پسندی اور مذہبی انتہا پسندی سے نپٹنے کے لئے پالیسیاں اپنا رہا ہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی انتہا پسندی کا ثبوت دے رہا ہے ۔ہندوستان کا بھی اس مسئلہ پر چین کی حمایت میںلیا گیا فیصلہ بھی حیران کن ہے ۔ گرچہ اپنے اس مؤقف پر وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے صفائی دینے کی کوشش کی ہے لیکن وہ اس بات کی وضاحت نہیں کر سکے کہ جب کبھی پاکستان نے کشمیری مسلمانوںپر ظلم و تشدد کی بات اٹھائی تب ہر بار یہی جواب دیا گیا کہ وہ چین میں مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و بربریت کے مسئلہ کو کیوں نہیں اٹھاتا ہے ۔جو دراصل ان دونوں مسئلے سے راہ فرار اختیارکرنے کے مترادف ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم ممالک کی ناعاقبت اندیشی اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور ناانصافی پر خاموشی کے باعث ہی آج مسلم دشمنوں کے حوصلے بڑھ رہے ہیں۔ یاد کیجئے گزشتہ سال کے نومبر ماہ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم اور انسانی حقوق کی شدیدخلاف ورزیوں پر مبنی رپورٹ جب اقوام متحدہ میں پیش کی گئی تھی ، اس رپورٹ کو اسرائیل کے مندوب گیلاداردن نے تمام مندوبین کی نظروں کے سامنے پھاڑ کر پھینک دیا تھا اور مسلم ممالک اور نام نہاد فلسطین کے ہمدرد تماشہ دیکھتے رہے تھے ۔ ایغور مسلمانوں پر ظلم و ستم پر بھی تیار کی گئی حقوق انسانی کونسل کی رپورٹ کا بھی مسلم ممالک کی چین کی حمایت میں دئے گئے ووٹ کے باعث یہی حشر ہوا ۔ جس پر جس قدر افسوس کیا جائے وہ کم ہے ۔
