• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
منگل, مئی ۱۳, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم مضامین

کیا ڈیلیوری کا واحد رستہ آپریشن ہے؟

Online Editor by Online Editor
2022-10-19
in کالم, مضامین
A A
کیا ڈیلیوری کا واحد رستہ آپریشن ہے؟
FacebookTwitterWhatsappEmail
تحریر:بھارتی ڈوگرہ

سائنس کی ترقی نے انسانی زندگی کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ یہ خاص طور پر طب کے شعبے میں ایک اعزاز ثابت ہوا ہے۔ اس سے پہلے جہاں سنگین بیماریوں خصوصاً آپریشن جیسے معاملے کا علاج مشکل سمجھا جاتا تھا، وہیں آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے سات سمندر پار بیٹھے ڈاکٹر بآسانی مریضوں کا آپریشن کر سکتے ہیں۔ سائنس میں اتنی ترقی کے باوجود، کچھ استثناء کے ساتھ، قدرتی طور پر بچے کو جنم دینا آج بھی آپریشن سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ دلیل ہے کہ اس سے نہ صرف بچہ صحت مند ہوتا ہے بلکہ عورت کے قدرتی حسن میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔لیکن پچھلے کچھ سالوں میں یہ رجحان بدلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اگر ہم بچے کو جنم دینے کی بات کریں تو لگتا ہے کہ آج کے دور میں صرف سیزرین ڈیلیوری یعنی سی سیکشن ہی ایک آپشن رہ گیا ہے۔ یہ اس لیے بھی کہا جا رہا ہے کہ بڑے پیمانے پر دیکھا جا رہا ہے کہ حمل کے دوران 9 ماہ کے علاج کے بعد جب خاتون بچے کو جنم دینے ہسپتال جاتی ہے تو ڈاکٹر قدرتی ڈیلیور ی کے بجائے سیزرین ڈیلیوری کا مشورہ دینے لگتے ہیں۔پچھلے پانچ سات سالوں سے قدرتی طور پر بچے کو جنم دینے کا عمل ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
ویسے اگر ہم ہندوستان کی بات کریں تو روز بروز ‘سیزیرین ڈیلیوری’ یعنی سی سیکشن کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف اگر ہم جموں و کشمیر کی بات کریں تو یہ شمالی ہندوستان میں اس معاملے میں پہلے نمبر پر پہنچتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس مرکز کے زیر انتظام علاقے میں سیزرین ڈیلیوری کا فیصد 41.7 تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر راجستھان ہے جہاں سی سیکشن کے 10.4 فیصد کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پہلی اور دوسری ریاستوں میں تقریباً 30 فیصد کا فرق ہے جو کہ بہت بڑا فرق ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق سی سیکشن ڈیلیوری کے کیسز 10 سے 15 فیصد سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں جبکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق 26 فیصد کیسز میں سی سیکشن ڈیلیوری لیبر درد سے پہلے کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر سی سیکشن ڈیلیوری کے کیسز میں 10 سے 15 فیصد تک اضافہ ہوتا ہے تو یہ ایک طرح سے خطرے کی علامت ہے۔ جموں و کشمیر کے ایک مقامی نیوز چینل’دی اسٹیٹ لائن‘ نے اس سلسلے میں مقامی ڈاکٹروں اور میڈیکل ہیلتھ سینٹر کے عملے سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ سی سیکشن ڈلیوری کے کیسز کیوں بڑھ رہے ہیں؟ لیکن چینل کے مطابق ہمیں کسی سے بھی اس حوالے سے کوئی تسلی بخش معلومات نہیں ملی۔
گاؤں مگناڈ کی بات کریں، جو جموں ڈویژن کے ضلع پونچھ سے صرف 6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس گاؤں کی آبادی 5000 سے کچھ زیادہ ہے۔ پہاڑی علاقے میں آباد ہونے کی وجہ سے ہر شخص کو روزانہ اوپر اور نیچے کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس گاؤں کی تقریباً تمام خواتین کھیتوں میں کام بھی کرتی ہیں اور مال مویشی بھی ہر گھر میں نظر آئیں گے، جن کی دیکھ بھال بھی خواتین کے کندھوں پر ہے۔ لیکن اس چھوٹے سے گاؤں میں اس بات کا بہت گہرا اثر ہے کہ جب بچے کی پیدائش کا وقت آتا ہے تو ڈاکٹر ہر عورت کو بغیر کسی پیچیدگی کے سیزرین کا مشورہ کیوں دینا شروع کر دیتے ہیں؟ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 2 سے 3 سالوں میں اس گاؤں کی تقریباً ہر دوسری خاتون نے سیزرین ڈلیوری کے ذریعے بچے کو جنم دیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بچے کی پیدائش کے لیے سی سیکشن ہی واحد آپشن ہے؟ کیا ہر عورت کو اتنا پیچیدہ مسئلہ درپیش ہے کہ وہ قدرتی طور پر بچے کو جنم نہیں دے پاتی ہے؟ کیا آنے والے وقت میں ہر عورت کے سامنے آپریشن ہی واحد آپشن ہوگا؟ اگر آپریشن ہی کرنا ہے تو یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ اس سے گزرنے والی خواتین کو جسمانی طور پر کس قسم کے فائدے یا نقصانات ہوئے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے سب سے پہلے بھارتی ورما سے بات کی جنہوں نے سیزرین ڈلیوری کے ذریعے بچے کو جنم دیا ہے۔ بھارتی کا کہنا ہے کہ ’مجھے آپریشن سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، لیکن نقصان ضرور ہوا ہے۔ آپریشن کے بعد دو ہفتے تک سب کچھ ٹھیک رہا، اس کے بعد پیٹ میں ٹانکے کی جگہ پر سوراخ ہونے کی وجہ سے مجھے کئی بار ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا اور کم از کم بیس ہزار روپے کی دوائیاں لینی پڑیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ آپریشن کو 8 ماہ ہوچکے ہیں لیکن وہ ابھی تک مکمل صحت یاب نہیں ہوسکیں ہیں۔ایک اور خاتون پروین بھی اسی طرح کے مسائل سے گزر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس کے 3 بڑے آپریشن بھی ہو چکے ہیں۔ پہلے دو آپریشن تو ٹھیک تھے لیکن اس کے بعد ٹانکے میں خرابی کی وجہ سے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، خرچہ بھی بہت زیادہ تھا۔ پروین کہتی ہیں کہ’آپریشن کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اب پہلے سے زیادہ گھر کے کام کرنے کے قابل نہیں ہوں‘۔ ایک اور خاتون ساکشی ورما کا کہنا ہے کہ کوئی پیچیدگی نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹروں نے مجھے آپریشن کے ذریعے ڈلیوری کرنے پر مجبور کیا۔‘ سلسلہ یہیں نہیں رکتا ہے۔ ہمیں بے شمار خواتین ملیں جنہوں نے بتایا کہ انہیں بغیر کسی پیچیدگی کے آپریشن سے گزرنا پڑا۔
جب ہم نے اس سلسلے میں شری مہاراجہ سکھدیو سنگھ ہسپتال،پونچھ کے ڈاکٹروں سے سیزرین ڈلیوری کی بڑھتی ہوئی وجوہات کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تو کسی نے بھی اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم خواتین کی صحت سے متعلق ویب سائٹ کو دیکھنے پر اس کے پیچھے تین اہم وجوہات سامنے نظرآتی ہیں۔ جہاں پہلی وجہ ان میں بڑھتا ہوا موٹاپا ہے، وہیں پرتعیش طرز زندگی بھی ایک وجہ ہے۔ تیسری اہم بات، آج کل ہر دوسری یا تیسری عورت کو تھائیرائیڈ، یورک کا مسئلہ اور شوگر جیسے بہت سے مسائل ہونے لگے ہیں جو نارمل ڈیلیوری کے دوران پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر بھی کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتے ہیں اور آپریشن پر زور دیتے ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن خواتین کو ایسی پیچیدگیاں نہیں ہوتیں ہیں ان کی ڈیلیوری بھی سیزرین کے ذریعے کیوں اور کس بنیاد پر کی جاتی ہے؟ تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ سی سیکشن کا عمل کتنا محفوظ اور کتنی خطرناک ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس موضوع پر کوئی ایسی ٹھوس حکمت عملی بنائے تاکہ کوئی بھی ایسی خواتین کو مجبور نہ کر سکے جو قدرتی طور پربچے کو جنم دینا چاہتی ہے۔ (چرخہ فیچرس)

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

کشمیری پنڈت کے بعد مزدوروں کی ہلاکت

Next Post

پولیس کا اپنے شہیدوں کو خراج عقیدت

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
Next Post
پولیس کا اپنے شہیدوں کو خراج عقیدت

پولیس کا اپنے شہیدوں کو خراج عقیدت

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan