• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم رائے

دینی مدارس میں عصری تعلیم کی ضرورت

Online Editor by Online Editor
2022-11-01
in رائے, کالم
A A
دینی مدارس کا سروے کیوں اور کیسے ؟
FacebookTwitterWhatsappEmail
تحریر:الطاف حسین جنجوعہ

مدارس اسلامیہ دین کے ستون ہیں اور اِن کا دین کی ترویج وترقی اور پھیلائویں ناقابل ِفراموش کردار ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اِس چیز کی بھی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ مدارس سے دینی تعلیم سے منور ہونے والے طلبا کو ساتھ ہی کسی ہنر میں ماہر بھی بنایاجائے تاکہ وہ دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ ایک باوقار زندگی جینے کیلئے ذریعہ معاش بھی حاصل کرسکیں۔اگر ہم مشاہدہ کریں تو یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ ہمارے مسلم معاشرے میں بمشکل دو سے تین فیصد بچے ہی باقاعدہ طور مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے داخل ہوتے ہیں۔ باقی 97سے 98فیصد ایسے ہیں جس میں بھی ایک قلیل تعداد ہی کسی مولوی سے نماز پڑھنا اور قرآن پڑھنا سیکھتے ہیں، بہت کم تعداد ایسی ہے جوکہ کسی عالم ِ دین سے قرآن کریم اور حدیث مبارکہ کی تفسیر کو پڑھتے ہیں یا ا ±س کے مفہوم کو سمجھتے ہیں۔اس وجہ سے آپ زندگی کے مختلف شعبہ جات ِ زندگی میں مسلم معاشرے کے اندر ہمیں عملی طور دین کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ہم نے دعوتِ دین ، ترویج وترقی کو صرف علما ءحضرات تک محدود سمجھ رکھا ہے بلکہ ہر مسلمان زندگی کے جس بھی شعبہ سے جڑا ہے، وہاں وہ اس کا قول وفعل قرآن وحدیث کے مطابق ہے تو خود بخود دین کی خدمت بھی ہوگی اور دوسروں کو دین کا مطلب بھی سمجھ آئے گا۔ آج عملی زندگی میں دین ِ اسلام کم نظر آتا ہے، اس کی بڑی وجہ مسلم معاشرے کا ایک بڑاطبقہ دینی تعلیم سے محروم ہے۔
اِس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دنیاوی تعلیم جس کا چلن عام ہے، کیساتھ ساتھ ہم دینی تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے۔ ہمارے ملک میں سرکاری اسکولوں میں تو اِس کا کوئی نظام ہے نہیں، نجی تعلیمی اداروں میں بھی ا ±تنے پیمانے پر ایسا کوئی سلسلہ نہیں۔ اِس وقت اگر دنیاوی اعتبار سے تعلیم کی بات کریں تو ا ±س میں مشینری اور مغربیت پسند اداروں کا معیار کافی بہتر ہے جس وجہ سے ہم اِن اداروں پر تنقید بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے بچوں کو وہاں داخل بھی کرتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس اِس کا متبادل دستیاب نہیں۔
اِس مسئلے پر ملت کا درد رکھنے والے سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں اور ملک کے کئی حصوں میں اِس حوالے سے بڑی مخلصانہ کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ جموں وکشمیر میں دینی مدارس سے فارغ التحصیل علماءحضرات ومفتیان کرائم کی بھی ماشا ئ اللہ ایسی تعداد ہے جو اب محض مدارس نہیں بلکہ ایسے ادارے اداروں کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں جو عصرِ حاضر میں توحید اور پیغام ِ رسالت کو عصری اسلوب میں لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں جن کا مقصدعوام کے اندر دینی روح، غیرت ِ اسلامی، تعلیمی بیداری، مذہبی تشخص اور اس کی حقیقت شناسی کی فضاعام کرنا، عربی، اردو ، ہندی، انگریزی اور فارسی زبان کے لئے کوچنگ سینٹرز کا قیام ہو، ایسے افراد تیار ہوںجوعربی اور انگریزی زبان میں اپنے دعوتی مشن کو اہل ِ زبان کے سامنے پیش کرسکیں اور بلا تکلف ماضی الضمیر اداکرسکیں۔ علاوہ ازیں طلبہ وطالبات کو صنعت وحرفت اوردستکاری کی تعلیم بھی دیں جس سے وہ معاشی میدان میں خود کفیل بن سکیں۔
خطہ پیر پنجال میں ایسے چند نجی ادارے ہیں جوکہ اِس ضرورت کو کچھ حد تک پورا کر رہے ہیں جن میں پونچھ کے جامعہ ضیا العلوم، ہمالین مشن ایجوکیشن راجوری، ایم ای ٹی باباغلام شاہ اکیڈمی تھنہ منڈی قابل ِ ذکر ہیں ۔ جامعہ ضیا العلوم پونچھ جس کا قیام سال 1974کوعمل میں لایاگیاتھا، نے اِس خلاءکو کافی حد تک پورا کرنے کی بہترین کوشش کی ہے اور یہ اپنے معیار اور وقار کی وجہ سے یوٹی جموں وکشمیر میں منفرد مقام رکھتا ہے۔تین دہائیوں کے زائد عرصہ سے ہمالین ایجوکیشن مشن بھی اپنے مقصد کی طرح رواں دواں ہے۔ خطہ پیر پنجال کے نجی سطح پر قدیم ترین تعلیمی اداروں میں مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایم ای ٹی غلام شاہ اکیڈمی تھنہ منڈی کی بھی خدمات ناقابل ِ فراموش ہیں۔
پچھلی ایک دہائی میں ضلع پونچھ میں دینی وعصری علمی دانش گاہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری اسلامک انٹرنیشنل اکیڈمی ) نے بھی ایک نام کیا ہے جوکہ جواں سال عالم دین مولانا شہزاد انواری کے ایک خوبصورت تصور کا عملی مظاہرہ ہے۔ موصوف نے مولانا سید انظر شاہ کشمیری کے فرزند ارجمند علامہ انور شاہ کشمیری کے زیر تربیت رہ کر تعلیمی تجربات وہنر سیکھے اور پھر 27مئی 2012کوولی کامل اور حافظ ِ حدیث حضرت علامہ انوار شاہ کشمیری کی یاد میں ضلع صدر مقام پونچھ کے وسط محلہ انوار آباد عقب فارسٹ کمپلیکس سے متصل ایک عظیم الشان دینی وعصری علمی دانش گاہ کا سنگ ِ بنیاد دسیوں ہزار فرزندان ِ توحید کی موجودگی میں عمل میں لایا۔ اِس ادارے نے امت مسلمہ کو ایک ایسا متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی ہے جہاں آپ اعلیٰ اور معیاری دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ حافظ، قاری، عالم اور مفسر ِ قرآن بھی ہوں۔ خاص بات یہ ہے کہ ادارے میں بلالحاظ ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے ماہرین، تعلیم، سول وپولیس انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلائ، جج صاحبان کے بچے زیر تعلیم ہیں۔
مولانا شہزاد انوری کہتے ہیں ”ہماری کوشش ہے کہ اس ادارے سے پڑھنے والا بچہ کل اگر ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی یا کسی بڑے عہدے پر فائض ہو تو ساتھ میں قاری، حافظ یا عالم بھی ہو، اِس سے وہ اپنے منصب پر فائض رہ کر ایمانداری، دیانتداری سے خد مت ِ حلق کرے گا۔ رشوت خوری، حویش پروری، کنبہ پروری، اپنے فرض منصبی کے تئیں لاپرواہی، غیرسنجیدگی، حق تلفی جیسی برائیوں کا حل اِس بات میں مضمر ہے کہ ہم اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی مکمل سوچ وسمجھ عطا کریں اور اسی ضمن میں یہ ادارہ کوششیں کر رہا ہے۔
علاوہ ازیں صوبہ جموں اورکشمیر میں اسلامک انٹرنیشنل ریسرچ اکیڈمی کی تعمیر،بچیوں کے لئے عظیم اور ساری سہولتوں سے لیس باپردہ دینی وعصری درس گاہ کا قیام،یتیم، نادار، غریب طلبہ وطالبات اور بیواو ¿ں کے لئے ماہانہ وظائف کی تقسیم،یتیم وبے سہارا بچیوں کی شادی کے انتظامات اور مستحقین کے لئے گھروں کی تعمیر،اصلاح ِ معاشرہ، تعلیمات اولیائ، اور سیرت کے موضوع پر کانفرنسوں کا انعقاد،ہر سال ایک عظیم ااسلامی شخصیت پر عالمی سیمینار کا انعقاد،مسلکی اختلافات سے بالاترہوکر ملی کاموں کے لئے ہرمکتبہ فکر کو ایک اسٹیج پر لانے کی سعی،ہندو مسلم سکھ عیسائی بھائی چارے کے نام ہر ہر ہفتہ مشترکہ مجلس کا انعقاد،مسلم ا ±مہ کے عقیدے کی حفاظت کی خاطر یونانی میڈیکل کالجز، فارمیسی کالجز، آئی ٹی آئی اور میڈیکل کالجز کا قیام،حضرت خدیجہ الکبری ؓ زچہ بچہ اسپتال کا قیام ،تنظیم کے لئے مرکزی دفتر کا قیام،جدید ٹیکنالوجی سے لیس کمپیوٹر سینٹر ز کا قیام،سائنس اور اسلام کے تقابلی مطالعہ اور قرآن وحدیث کے موضوع پر طلبہ وطالبات میں مسابقہ ومقابلہ کا انعقاد بھی ا ±ن سرگرمیوں میں شامل ہے۔ رواں ماہ ہے اِس ادارے نے سوچھ بھارت ابھیان کے تحت جموں وکشمیر میں صفائی ستھرائی کے معاملہ میں اول پوزیشن بھی حاصل کی ہے۔
اکیڈمی کے ساتھ ساتھ بچیوں کی تعلیم کے لئے جامعہ عائشہ صدیقہ اللبنات ؓ ادارے بھی قائم کر رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دنیا کی رونق ، گہما گہمی، چہل پہل صرف مردوں سے ہی قائم نہیں بلکہ اس میں عورتوں کا بھی برابر حصہ ہے بلکہ اس دنیا میں رونق عورت کے وجود سے ہی قائم ہے۔ قوموں کی تعمیروترقی اور ان کی تربیت میں عورتوں کا جو حصہ ہے وہ کسی تشریح ِ بیان کا محتاج نہیں۔اسی لئے یہ ادارہ قائم کیا جس کا مقصد بچیاں دین ودنیا کی شنا ور، علوم عالیہ وآلیہ کی ماہرہ ، عربی، اردو، ہندی، انگریزی وحساب پر مکمل دسترس رکھنے والی، حافظہ، عالمہ اور کمپیوٹر وسلائی وپینٹنگ کی ماہرہ بن سکیں۔ ہر طالبہ اسلامی ماحول اور پردے میں رہ کر تقویٰ ، بلند اخلاق، تعلیمی شور، قواعد وتجوید کے مطابق کے قرآن پاک کی تصحیح، غیر شرعی عادات ورسومات سے اجتناب، اتباعِ سنت کی طرف رغبت ، تربیت پر خصوصی توجہ، شب بیداری، وقت کی پابندی، گھریلو آداب کی پاسداری، ہرکام میں سنت ِ نبوی اور اسلامی رنگ میں رنگ کر خالص دینی ، دعوتی اور اصلاحی فکروں جیسی تمام صفات سے متصف ہو، جامعہ کے قیام کا مقصد ایسی خواتین تیار کرنا ہے جو علوم ِ اسلامیہ میں مہارت پیدا کرکے نئی تہذیب کی پیدا کردہ ان خواتین کے ذہنوں کو بدل دیں جو آج اسلامی تعلیمات اور عورتوں کے حقوق کو مسخ کر رہی ہیں۔ الحمدو للہ جامع میں اس وقت ڈیڑھ سو امدادی طالبات درجہ اعدادیہ، عربی اول، دوم، سوم وچہارم اور درجہ عربی پنجم وششم دور جات ودینایت وحفظ (عالمہ، حافظہ اور مومنہ کورس) کی صورت میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں جن کے قیام ووطعام اور تمام ترکفالت جامع کے ذمہ ہے۔،
دور ِ حاضر کے نت نئے فتنوں کی وجہ سے آج امت ِ مسلمہ کے نونہال مغربی تہذیب کی لپیٹ میں ہیں، خواہ وہ ہمارے سماج کی بچیاںہوں یا خونِ جگر کے دولارے، ان کا بنیادی عنصر عصری اسکولوں میں مغربی روایات کا قیام، فروغ ِ بے حیائی، مخلوط تعلیم کی عمومیت اور اسلامی تہذیب کے مقابلے میں موسیقی وکلچر کو فروغ دینا ہے۔ ایسی نازک گھڑی میں مسلم سماج کے باشعور افراد یہ دوگنی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دینی عصر دونوں علوم سے آراستہ کرنے کی خاطر ایسے اداروں کے قیام میںاپنا تعاون پیش کریں جہاں ہمارے بچے ڈاکٹر، انجینئرز، ماسٹر اور پروفیسر کے ساتھ ساتھ اولین درجے میں مومنانہ صفات کے حامل بن کر دین کے داعی وشیدائی بنیں۔
مسلکی اختلافات سے بالاترہوکر زیادہ سے ایسے تعلیمی اداروں کا قیام ناگزیر ہے جہاں پر دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی مکمل سمجھ عطا ہو تاکہ کل ہمارے معاشرے میں مثالی ٹیچر، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، صحافی، افسر، سیاستدان، سائنسدان، محقق، ادیب، تاجر پیدا ہوں جن میں ایمانداری، دیانتداری، رحم دلی، انسانیت، انصاف پسندی، فرض شناسی، تندہی جیسی صفات کوٹ کوٹ کر بھی ہوں اور یہ صفات دوسرے مذاہب کے لوگوں کو دین اِسلام کو صحیح معنوں میں سمجھنے ، ا ±ن میں پائی جارہی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوں گیں۔ ایسے ادارے جہاں صاحب ثروت لوگ، بیروکریٹس اور امیر لوگ بھی اپنے بچوں کو داخل کرائیں، ایسے متبادل فراہم کرنے کیلئے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
عصری تقاضوں کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے مدارس اسلامیہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو ساتھ پیشہ وارانہ کورسز جن میں کم سے کم کمپیوٹر، سلائی کڈھائی، پلبرنگ، الیکٹریشن، کارپینٹری کی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ مدارس اسلامیہ کے طلبا کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لئے اگر جامع کوششیں کی جائیں تو وہ تحقیق، ایجادات اور سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دے سکتے ہیں۔جموں وکشمیر محکمہ اوقاف کو بھی چاہئے کہ وہ مدارس اسلامیہ میں پیشہ وارانہ کورسز کے لئے جامع منصوبہ تیار کرے۔ نجی سطح پر شعبہ تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے والے صاحب استطاعت افراد کو چاہئے کہ وہ ایسے اداروں کے قیام پر توجہ مرکوز کریں جس سے دین کی خدمت بھی ہواور دُنیاوی اعتبار سے بھی ہم بہترین افرادی قوت تیار کریں۔ صرف 2فیصد تک دین کی تعلیم نہیں بلکہ بیشتر سماج کو دین کی صحیح سمجھ وفکر عطا کرنے کے لئے انفرادی اور اجتماعی مخلصانہ کوششیں وقت کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک ہمیں اِس کی توفیق عطا فرمائے! آمین۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

بچوں اور عورتوں پر زیادتیوں کے واقعات

Next Post

سابق مس ورلڈ ایشوریہ رائے بچن نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ماڈل کیا تھا

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
Next Post
سابق مس ورلڈ ایشوریہ رائے بچن نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ماڈل کیا تھا

سابق مس ورلڈ ایشوریہ رائے بچن نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ماڈل کیا تھا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan