تحریر:از قلم اعجاز بابا
واقعی چلو گاؤں کی اور ( back to village) کا مطلب امن،چین ،سکون اور خوشحالی کی طرف واپسی ہے، میں اپنے شہروں اور گاؤں کی ترقی کے تصور سے کافی ناامید ہوں، غلط تصور کی وجہ سے ہمارے گاؤں نہ گاؤں رہے اور نہ قصبہ یا شہر بنے، اسی طرح ترقی کے غلط نقطہ نظر کی وجہ سے شہروں کا ڈھانچہ تبدیل ہوا، جہاں آثار قدیمہ جو ہماری ثقافت سے وابستہ تھے کی حفاظت کرنی تھی وہاں لوگوں نے وہ چیزیں ہٹا کر نئے کمپلکس تعمیر کئے بہرحال میں تعمیر و ترقی کے خلاف نہیں ہو لیکن کچھ چیزیں نہایت اہمیت کے حامل ہوتی ہیں جن کی حفاظت کرنا ہماری اولین ضمہ داری ہے ۔
حکومت نے سب سے اچھا اقدام اٹھایا (back to village programm) چلو گاؤں چلیں , جس میں اچھی حکمرانی کا اصل جوہر ہےجہاں تک ترقی کا تعلق ہے،
یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کا مقصد انتظامیہ اور شہریوں کے درمیان مواصلاتی فرق کو ختم کرنا ہے۔گورننس کو دیہی اور ناقابل رسائی علاقوں کی دہلیز تک لے جائیں اور قابل بھروسہ اور تجرباتی تاثرات پیدا کریں۔ یقیناً یہ بنیادی سطح پر پنچایت راج کے نفاذ کے لیے ایک اچھی بات ہے۔
جہاں تک پروگرام کے پہلے ایڈیشن کا تعلق ہے، لوگ اتنے پُر امید تھے کہ ان کے مسائل کا فوری ازالہ ہو جائے گا، لوگوں کی شرکت اچھی تعداد میں تھی ایسا لگتا تھا دیہی علاقوں میں نچلی سطح پر عوام میں ترقی کی نئی صبح شروع ہو گئی ہے۔ پولیٹیکل سائنس کا طالب علم ہونے کے ناطے اس اچھے اقدام کی تعریف کرتا ہوں میں نے بہت سے عام آدمیوں ,پنچوں اور سرپنچوں سے بات کی جنہوں نے اچھا جواب دیا کہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ دیہاتیوں کو سرکاری افسران تک رسائی حاصل ہوئی اور ہم اپنی شکایات کو کھلے دل سے پیش کر رہے ہیں۔
حال ہی میں حکومت نے اس کا چوتھا ایڈیشن شروع کیا ہے میں خود کافی پر امید تھا کہ حکومت اس ایڈیشن میں طویل عرصے سے زیر التواء تمام مطالبات کو حل سے تعبیر کرے گی لیکن اس ایڈیشن میں لوگوں کی آمد کم ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے گاؤں کے بہت سے عام لوگوں سے بات کی کہ چوتھے ایڈیشن کے اس اچھے پروگرام میں شرکت کریں ,اپنی شکایات درج کریں لیکن مجھے کچھ مایوس کن جواب ملے کہ یہ افسران کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے بجائے صرف فوٹو گرافی کرتے ہیں،پنچوں اور سرپنچوں کی طرف سے بھی یہی تبصرہ تھا کہ اب چوتھی بار ہے کہ ہم اپنے درپیش مسائل کی رجسٹریشن کر رہے ہیں۔ مسئلہ لیکن ہم نے اس پروگرام پر اعتماد کھو دیا ہے۔
میں اب بھی اس الجھن میں ہوں کہ اس تعریفی پروگرام میں کہاں کمی ہے حالانکہ حکومت گراس روٹ لیول پر مسائل کو حل کرنے اور گورنمنٹ اور گاؤں کے لوگوں کے درمیان فاصلوں کو دور کرنے کی بہت خواہش مند تھی۔ کیا لوگ مناسب مسائل کو رجسٹر نہیں کر رہے ہیں، یا تو یہ پروگرام صرف ان لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے جو افسران کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں ,یا تو حکومت رجسٹرڈ مسائل پر نرمی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔فی الحال یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ گاؤں والوں کی طرف سے پیش کردہ مسائل ابھی تک زیر التوا ہیں۔ اور لوگوں نے مکمل طور پر اس اچھے پروگرام پر اپنا اعتماد کھویا ہے۔
