• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم

رمسا اساتذہ روزگار سے محروم کیوں؟

Online Editor by Online Editor
2022-06-15
in کالم, مضامین
A A
رمسا اساتذہ روزگار سے محروم کیوں؟
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:سرفراز احمد ٹھکر
ہندوستان بھر میں نظامِ تعلیم میں بہتری لانے کے لئے اگرچہ مرکزی سرکار نے بہت سی اسکیمیں عمل میں لائیں اور بہت سے ایسے منصوبہ جات بنائے جن سے معیاری تعلیم کو فروغ مل سکے۔ مرکزی سرکار کی ان اسکیموں کا فائدہ بہت سی ریاستوں نے اٹھاتے ہوئے اپنے تعلیمی نظام کو کافی حد تک بہتر بنایا۔ مرکز کی شعبہ تعلیم کے لیے متعارف کردہ اسکیموں میں سے ہی 2009 میں لائی گئی ایک اسکیم”راشٹریہ مادھیمک شکشا ابھیان“(رمسا) بھی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد تعلیم کے معیار کومزید بہتر بنانا تھا۔ باقی ریا ستو ں کی طرح یوٹی جموں و کشمیر میں بھی رمسا اسکیم بڑی ہی امیدوں کے ساتھ شروع کی گئی تا کہ یہاں کے نظامِ تعلیم کو بھی بہتر بنایا جا سکے۔ اس اسکیم میں یہاں بہت سارے اسکولوں کا درجہ بھی بڑھایا گیا اور وہاں پر اضافی عملہ بھی تعینات کیا گیا۔ سال 2014 میں جموں و کشمیر میں رمسا اسکیم کے تحت 110 مڈل اسکولوں کا درجہ بڑھا کر ہائی اسکول کیا گیا اور ان 110 ہائی اسکولوں کے لیے 2017 میں ایک اشتہار نکالا گیا جس کے مطابق ان اسکولوں میں مضامین مخصوص اساتذہ کو تعینات کیا گیا۔ 110 ہائی اسکولوں میں 550 اساتذہ کی تقرری کے عمل کو پورا ایک سال لگا۔
پہلے ان اساتذہ کی تقرری کے لئے بنیادی قابلیت اپنے مخصوص مضمون میں ماسٹر اور ساتھ میں بی ایڈ بھی لازمی تھی، نہ صرف ایم اے بی ایڈ بلکہ بہت سارے اساتذہ ایم فل، پی ایچ ڈی، نیٹ، سیٹ وغیرہ بھی تھے، ان اساتذہ کا ریاستی سطح کا اسکریننگ امتحان بھی لیا گیا۔ اس کے علاوہ گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن وغیرہ میں بھی میرٹ چیک کیا گیا۔ گویا ان اساتذہ کی تقرری کا پورا عمل انتہائی شفافیت کے ساتھ انجام دیا گیا اور اس پورے عمل کو برابر ایک سال کا وقت لگا۔ بالآخر فروری 2018 میں ان اساتذہ کو باضابطہ اسکولوں میں بھیجا گیا تاکہ وہاں کے تعیمی نظام میں بہتری لائی جا سکے اور ایسا ہوا بھی۔بہت قلیل وقت میں ان اساتذہ نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا کر نہ صرف ان اسکولوں کے نتایج میں بہتری لائی اور تعداد طلاب کو بڑھایا بلکہ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ زائد از نصاب بھی بہت سی سرگرمیوں میں طلبا کی رہنمائی کی جس سے والدین و طلبا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
رمسا قواعد کے مطابق ان اساتذہ کو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر توسیع دی جانی تھی۔جیسا کہ کسی بھی پروجیکٹ میں یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ جب تک پروجیکٹ رہتا ہے تب تک اس کے ملازمین کام انجام دیتے ہیں۔ رمساا سکیم کو جموں و کشمیر میں 2026 تک توسیع ہو چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اس میں اور کچھ دیگرا سکیموں کو ضم کر کے اس کا نام ”سمگر“کر دیا گیاہے، مگر بنیادی مقاصد ایک ہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اسکیم ابھی بند نہیں ہوئی ہے تو رمسا اساتذہ کو کیوں ایک سال کے بعد ہی روزگار سے محروم کر دیا گیا؟ حالانکہ رمسا اساتذہ کی سو فیصد اجرتیں مرکزی سرکار واگزار کرتی ہے اور یوٹی بجٹ پر اس کا کوئی دباو بھی نہیں ہے۔ رمسا اساتذہ میں اس بات کو لے کر سخت مایوسی اور ناراضگی ہے کہ ہمیں ہمیشہ مرکزی سرکار سے یہی سننے کو ملا کہ جموں و کشمیر کی ہر طرح کی ترقی اور خاص کر یہاں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ترقی کی راہ میں اگر کوئی سب سے بڑا کانٹا ہے تو وہ دفعہ 370 اور 35A ہے۔ مرکزی سرکار نے ہمارے ساتھ بار ہا وعدے کیے کہ ایک بار دفعہ 370 اور 35A ختم ہو جائے تو ہم ترقی کے سارے راستے جموں و کشمیر کی طرف موڑ دیں گے اور یہاں کے پڑھے لکھے بے روزگاروں کو روزگار دیں گے۔
اگست 2019 جب اس وقت کے ریاستی گورنر ستیہ پال ملک نے رمسا اساتذہ سے یہ وعدہ کیا تھا’ہم نہ صرف رمسا اساتذہ کی خدمات میں توسیع کریں گے بلکہ باقی ریاستوں کی طرح انہیں ان کی کارکردگی کی بنا پر مستقل بھی کیا جائے گا۔‘ لیکن مستقل کرنا تو دور کی بات تھی!جب 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 اور 35A کو ختم کیا تو ٹھیک 10 اگست 2019 کو رمسا اساتذہ کو ان کی عارضی روزگار سے بھی برطرف کر دیا گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب پورا ملک آزادی کی خوشیاں منانے کی تیاری زور و شور سے کر رہا تھا ادھر رمسا اساتذہ کے 550 کنبے اپنے منہ سے نوالہ چھینے جانے پر ماتم کناں تھے اور حکومت اور انتظامیہ سے یہی سوال کر رہے تھے کہ آخر کیوں انہیں استعمال کر کے پھینک دیا گیا؟ کیوں ان کے کیریئر کو داو پہ لگایا گیا؟ بہت سے رمسا اساتذہ ایسے بھی تھے جنہوں نے روزگار کی خاطر اپنی آعلی تعلیم کو چھوڑ کر یہ پوسٹ جوائن کی تھی۔ اس سلسلے میں جموں و کشمیر کے رمسا اساتذہ سے بات کی تو مختلف اضلاع کے اساتذہ نے الگ الگ انداز میں اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔
سرحدی ضلح پونچھ سے تعلق رکھنے والے ایک ہونہار نوجوان مشتاق احمد صدیقی کا کہنا تھا کہ انہوں نے رمسا جوائن کرنے کے لئے مشہورِ زمانہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری چھوڑ دی تھی تاکہ وہ روزگار پا سکیں۔ لیکن محکمہ تعلیم نے انہیں استعمال کر کے پھینک دیا۔ شمالی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک رمسا استاد محمد اقبال زرگر نے سوال کیا کہ”آخر کون سی ہماری بات ہے جو انتظامیہ کو پسند نہ آئی اور ہمیں بر طرف کر دیا گیا؟ ہم نے دور دراز کے علاقوں میں خدمات انجام دیں،کیا حکومت کو یہ بات پسند نہ آئی؟ ہم نے شرحِ خواندگی میں اضافہ کیا، کیا ہماری یہ بات انتظامیہ کو پسند نہ آئی؟ ہم نے نتائج میں بہتری لائی کیا ہماری یہ بات پسند نہ آئی؟ہم نے بچوں کو معیاری تعلیم دلوائی، کیا ہماری یہ بات انتظامیہ کو پسند نہ آئی؟ ہم نے اپنے کیریئر تک کو داو پہ لگا دیا اور خدمات کو سر انجام دیا تا کہ ہمیں ہماری محنت کا کوئی سلہ مل سکے لیکن ہمیں یہ سلہ ملا کہ محکمہ نے ہمیں بر طرف کر دیا اور اس وقت ہم آعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی بے روزگار ہیں۔“
ضلح کپوارہ سے تعلق رکھنے والے ایک رمسا استاد محمد آصف کا کہنا ہے کہ”میں دو بچوں کا باپ ہوں، میں ایم فل پی ایچ ڈی ہوں مگر بدقسمتی سے میں مزدوری کرنے جاتا ہوں، مزدوری نہ کروں تو بچوں کو کیا کھلاوں گا؟، لیکن میرا ایل جی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم سے یہ سوال ہے کہ کیا ہم نے صرف مزدوری کرنے کے لیے ایم فل،پی ایچ ڈی کی تھی؟“ادھم پور سے رمسا استاد پون ٹھاکر کا کہنا تھا”ہم میں سے بہت سے اساتذہ ملازمت کی عمر کی آخری حد کو پار کرنے والے ہیں، مقابلے کے اس دور میں ہمیں کہیں اور سے امید کی کوئی بھی کرن نظر نہیں آ رہی۔ اس لیے انتظامیہ ہمارے ساتھ انصاف کرے اور ہماری خدمات کو بحال کرے۔“ضلح جموں سے تعلق رکھنے والی چاند سودن اور شیتل آنند کہتیں ہیں ”10 اگست 2019 سے لے کر آج تک کوئی بھی ایسا در نہیں جو ہم نے نہ کھٹکھٹایا ہو اور جہاں انصاف کی دہائی نہ دی ہو کہ مستقل نہ سہی لیکن جب تک یہ پروجیکٹ ہے تب تک کم سے کم ہمیں عارضی بنیادوں پر ہی خدمات انجام دینے کا موقع دیا جائے۔ لیکن سوائے فرضی یقین دہانیوں کے ہمیں زمینی سطح پہ کچھ بھی دیکھنے کو ملا“۔
رمسا مضامین مخصوص اساتذہ اس بات کو لے کر بھی برہم ہیں کہ صرف مضامین مخصوص اساتذہ کو ہی کیوں انکی خدمات سے برطرف کیا گیا۔جبکہ ان کے ساتھ ہی ایک ہی معاہدے کے تحت اور ایک ہی حکم نامے کے مطابق کمپیوٹر پروگرامرزاور ایس ای ٹی وغیرہ بھی تعینات ہوئے تھے اور وہ ابھی بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جبکہ مضامین مخصوص اساتذہ کو برطرف کر کے یوٹی انتظامیہ و محکمہِ تعلیم نے نہ صرف دوہرے معیار کا مظاہرہ کیا ہے۔بلکہ سرکاری حکم نامے کی کھلے عام خلاف ورزی بھی کی ہے۔ ضلع ریاسی سے ایک خاتون استاد نیشا شرما کا کہنا ہے کہ”جب اپنے ساتھ ہو رہی ناانصافی کی روئداد ہر جگہ سنا سنا کر تھک ہار گئے اور ہمیں کچھ بھی نہ ملا تو مجبوراً ہم نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عرضی دائر کی کہ ہمارے ساتھ انصاف کا معاملہ کروایا جائے۔اس حکم نامے کے تحت تعینات باقی اساتذہ کی طرح ہماری خدمات کو بھی بحال کیا جائے۔“
اس حوالے سے جب چیف ایجوکیشن آفیسر، پونچھ عبدالمجید سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی تو وہ کسی مصروفیات کی وجہ سے بات نہ کرپائے۔البتہ ڈپٹی چیف ایجوکیشن آفیسرنریندرموہن سوری سے بات کی گئی تو ان کا صاف کہناتھاکہ اس بارے میں ابھی کوئی واضح پالیسی انتظامیہ کے زیر نظر نہیں ہے اور اب رمساء نام کی کوئی پالسی یاا سکیم رہی ہی نہیں ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ محکمہ کے کسی اعلیٰ آفیسر اس سے قبل زبانی یقین دہانیاں ہی دیتے رہے اور اب جواب دے رہے ہیں۔یہی معاملہ جب کوٹ کا سہارا لیکر محکمہ کو گھیراگیاتو اور نوٹس بھیجے گئے تو پہلے تو کئی دنوں تک محکمہ نے اس کا جواب دینا ہی ضروری نہ سمجھا۔ لیکن جب ان تھکے ہارے نوجوانوں نے تنگ آ کر محکمہ کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ درج کروایا تو اس وقت ان کا جواب تھا کہ”اب رمسا نام کی کوئی اسکیم ہے ہی نہیں اور نہ ہی ہمارے محکمہ میں کوئی خالی آسامیاں ہیں۔ جہاں ان اساتذہ کو بھرتی کیا جا سکے“
سوال یہ ہے کہ اگرا سکیم نہیں ہے تو اس اسکیم کے تحت باقی تعینات لوگ کس اسکیم کے تحت کام کر رہے ہیں؟ انہیں کس اسکیم کے تحت اجرتیں مل رہی ہیں؟ اور رہی بات کہ محکمہ تعلیم میں کوئی بھی خالی آسامیاں نہیں ہیں تو یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ زمینی صورتحال تو یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے نوے فیصد اسکولوں میں خالی آسامیاں پڑی ہیں۔ ان کے مطابق کورٹ سے بار ہا نوٹس بھیجے جانے کے باوجود بھی محکمہ تعلیم کا لیت و لیل سے کام لینا اور رمسا اساتذہ کی خدمات کو بحال کرنے میں تاخیر کرنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔جس سے نہ صرف طلبا، والدین و رمسا اساتذہ کے ارمانوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کامستقبل بھی دھندلا دکھائی دے رہا ہے۔ (چرخہ فیچرس)

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

ملی ٹنٹ مخالف کاروائیوں میںسو کا آنکڑا پار

Next Post

شوپیاں انکاؤنٹر: لشکر طیبہ کے دو جنگجو ہلاک،مہلوکین میں سے ایک بینک منیجر کی ہلاکت میں ملوث تھا: پولیس

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
Next Post
امسال 52 افراد عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل

شوپیاں انکاؤنٹر: لشکر طیبہ کے دو جنگجو ہلاک،مہلوکین میں سے ایک بینک منیجر کی ہلاکت میں ملوث تھا: پولیس

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan