تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
رسول اللہ ﷺ نے جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا وہ ان کی تعلیمات پر عمل ہے ۔ ان کا فرمان ہے کہ محض زبانی دعووں سے کوئی ایمان کے اصل مقصد تک نہیں پہنچ سکتا ۔ بلکہ اس کے لئے عمل ضروری ہے ۔ رسول اللہ ؐ کے جو اپنے گھر والے تھے ان سے نصیحت کیا کرتے تھے کہ آخرت کے لئے اتنا کافی نہیں کہ آپ میرے رشتے دار ہیں ۔ آل رسول ہونا جنت جانے کا ویزا نہیں ۔ آل رسول سے محبت اور عقیدت اپنی جگہ ۔ ان کا بلند درجہ ہونا اپنی جگہ ۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی رسول ؐ کی تعلیمات کو نظر انداز نہیں کیا ۔ ان کے لئے شفاعت مشکل نہیں ۔ بلکہ یقینی ہے ۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی زندگی اس طرح گزاری کہ لوگ انہیں معصوم قرار دے رہے ہیں ۔ انہیں اپنے لئے سب سے مقدم ہستیاں قرار دیتے ہیں ۔ اس کی پہلی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کسی بھی حالت میں رسول کی تعلیمات کو نظر انداز نہیں کیا ۔ جب ان کی جان کے لالے پڑے تھے ۔ ان کی گردنوں پر تلوار کی نوک تھی ۔ سارا بدن زخموں سے چور چور تھا ۔ آخری سانسیں لے رہے تھے ۔ ایسے میں بھی نماز ادا کرنے کو پہلی ترجیح دی ۔ رسول اللہ ﷺ کی عظمت اور ان کی تعلیمات کو اولیت دی ۔ تلواروں کے سائے میں اور زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہوئے بھی اپنے نبی کو فراموش نہیں کیا ۔ یہی ان کی شان ہے اور یہی ان کا تحفہ ہے ۔یہ سب باتیں ہم جانتے ہیں ۔ان باتوں کی اہمیت سے ہم واقف ہیں ۔ ان کی عملی صورت سے ہم بے خبر نہیں ۔ صحابہ کا حال ہم جانتے ہیں ۔ تاریخ اسلام میں درج ایسے واقعات سے ہم پوری جانکاری رکھتے ہیں ۔ مسجدوں اور مجلسوں میں ان کا خوب بیان ہوتا ہے ۔ لوگ اس پر عش عش کرتے ہیں ۔ خوب واہ واہ کرتے ہیں ۔ آنسو بہاتے ہیں اور ان کو لے کر سر اور بدن ہلاتے ہیں ۔ لیکن عملی دنیا میں اس کا کہیں اطلاق نہیں ۔ مسلمانوں کی زندگی میں ان باتوں کا کوئی عمل دخل نہیں ۔ سڑکوں پر چلتے ، دکانوں پر جاتے ، دفتروں میں بیٹھتے اور گھروں میں حلقہ بناتے ہوئے ہماری دنیا الگ ہے ۔ دین کی باتیں کتابوں میں درج ہیں ۔ ان کا سبق پڑھایا اور پڑھا جاتا ہے ۔ ان کی امیت کو اجاگر کیا جاتا ہے ۔ دنیا میں بہتری لانے اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے نبی کی تعلیمات کو وقت کی ضرورت قرار دیا جاتا ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں سدھار کے لئے نبی کی تعلیمات کا خوب چرچا کیا جاتا ہے ۔ کفر کی دنیا کو اسلام کی طرف پلٹنے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ پریشانیاں دور کرنے کے لئے اسلام کا نسخہ بہترین نسخہ بتایا جاتا ہے ۔ لیکن خود اس پر عمل کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ۔ اس نسخے کو اپنے لئے اختیار کرنا پر کوئی آمادہ نہیں اپنی ذاتی زندگی میں اس پر عمل کرنے کو کوئی تیار نہیں ۔ یہ تضاد اسلام کی را ہ میں بڑی رکاوٹ بتائی جاتی ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کے اعلان نبوت سے لے کر آج تک برابر ان کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہاہے ۔ ان کی شان میں گستاخیاں کی جاتی رہی ہیں ۔ لیکن ان باتوں سے اسلام کے فروغ کو کوئی رکاوٹ ڈالی جاسکی نہ نبی کی عظمت کو کم کیا جاسکا ۔ اس کے بجائے اسلام کے لئے نقصان کی واحد وجہ مسلمانوں کی دو عملی ہے ۔ مسلمانوں نے جب سے دو رنگی اختیار کی اسلام بھی کمزور ہوتا گیا ۔ مسلمان جب اسلام کی تعلیمات کو اپنانے سے منہ موڑنے لگے اسلام کا اثر دنیا میں کم ہونے لگا ۔ اسلام اس کے خلاف محاذ بنانے سے کمزور نہیں ہوا ۔ اسلام کافروں کی سازشوں سے کمزور نہیں ہوا ۔ اسلام اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے سے نہیں مٹ سکا ۔ یہ تاتاریوں کی یلغار اور کلیسا کے سیلاب سے مٹ نہیں پایا ۔ اس کو دشمنوں کی سازشوں نے کمزور نہیں کیا ۔ اس کے اندر اگر کمزوری آئی تو صرف اور صرف مسلمانوں کے اپنے عمل نے اس کے غبارے سے ہوا نکالی ۔ آج اسلام کا قلعہ اگر زمین بوس ہورہاہے تو اس کی واحد وجہ مسلمانوں کی اس سے دوری ہے ۔ مسلمانوں کے ہاتھوں اسلام کی حفاظت نہ ہوسکی ۔ ان کے ذریعے اس کی آبیاری نہ ہوئی ۔ مسلمانوں اس کا ذمہ دار دشمنوں کو قرار دیتے ہیں ۔ امریکہ اور روس کی سازشوں کو اسلام کے قلعے کو کمزور کرنے کا باعث مانتے ہیں ۔ لیکن ان سازشوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے بجائے ہمیشہ مدد پہنچائی ۔ ان سازشوں کے جواب میں مسلمان متحد ہوگئے ۔ سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے صف آرا ہوئے ۔ البتہ اپنے عمل کو اسلام کے سانچے میں ڈالنے کے لئے تیار نہ ہوئے ۔ مسلمان نبی کی شان اور ان کی ذات پر مر مٹنے کو تیار ہیں ۔ گستاخان نبی کے خلاف اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں ۔ ایسے موقعوں پر یہ نبی کے سب سے قریبی ساتھی ہیں ۔ لیکن پر امن ماحول اور خاموشی کے موقعوں پر نبی کی تعلیمات کو اپنانے کے لئے تیار نہیں ۔ مسجد میں کمر کس کر درود پڑھتے ہیں ۔ مسجد سے باہر ان کے نام پر ایک لمحہ قربان کرنے کو تیار نہیں ۔ کافروں کے سامنے شیر دل ہیں ۔ لیکن نبی کو ٹھنڈک پہنچانے کے لئے ایک سجدہ ادا کرنے کو تیار نہیں ۔ ان کی ذات کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہیں ۔ لیکن ان کی تعلیم اور ان کے احکام کو ماننے پر آمادہ نہیں ۔ ان کے ایک ھکم کو اپنی زندگی پر حاو ی کرنے وک تیار نہیں ۔ ان کی شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے تیار نہیں ۔ شان نبی پر جان دینے کو تیار ہیں لیکن تعلیمات نبی کو ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ جب تک دونوں میں مماثلت نہ ہو اسلام کی کوئی خدمت کرنا ممکن نہیں ۔
