• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم

اعجاز اسد کے تخلیقی اظہارات

Online Editor by Online Editor
2022-06-19
in ادب نامہ, کالم
A A
اعجاز اسد کے تخلیقی اظہارات
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:پرویز مانوس
خطئہ پیر پنچال کو قُدرت نے یہ شرف بخشا ہے کہ یہاں کا ذرّہ ذرّہ تغزل، ترنم اور نغمگی سے سرشار نظر آتا ہے _ پہاڑوں سے نکلتی ندیاں کل کل کرکے وحدت کے نغمے گاتی ہیں _جنگلات کی سوندھی سوندھی ترنم ریز ہوائیں انسان تک محبت کا پیغام پہنچاتی ہیں _ اگر یوں کہا جائے کہ ادب پونچھ کی فضاؤں میں رچا بسا ہے تو بے جا نہ ہوگا _ واضح رہے کہ اسی پونچھ کے لئے ایڈیٹر "زمیندار "مولانا ظفر علی خان نے تقسیم اسناد کے ایک جلسے میں کہا تھا :-
خطئہ پونچھ کو کشمیر کے عارض کا تل کہئیے
اسے ہندوستاں کی جاں کہئیے یا دل کہئیے
اسی مٹی کے سپوت کرشن چندر نے اپنی نثر نگاری سے برصغیر میں جھنڈے گاڑ کر پونچھ کا نام روشن کیا _سند باد جہازی کے نام سے معروف مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنی شاعری اور صحافت سے برِ صغیر میں نام پیدا کرکے پونچھ کا وقار بڑھایا _ اُن کے بعد آنے والی نسل نے اس علم کو تھامے رکھا اور رفتہ رفتہ یہ کارواں بڑھتا گیا جس نے ہمیں پرتپال سنگھ بیتاب ، بشیر حُسین بٹ، شیخ سجاد پونچھی لیاقت جعفری اور زُلفقار نقوی جیسے شعراء دئیے، اگرچہ اس خاکے میں رنگ بھرنے والے چند اور افراد بھی تھی لیکن وہ کارواں سے بھچھڑ کر روٹی روزی کی دوڑ دھوپ میں جُٹ گئے اور اُن کا یہ شوق ادھورا رہ گیا البتہ یہ منظرنامہ وقت کے ساتھ ساتھ نکھرتا ہی رہا اور اب اس کارواں میں ایک اور جواں سال شاعر کا نام شامل ہو چکا ہے میری مُراد "اعجاز اسد” سے ہے جس نے نہایت ہی قلیل وقت میں اپنے کلام کی بدولت خود کو اردو دُنیا میں متعارف کروا کے کرشن چندر اور چراغ حسن حسرت کا نام زندہ رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، اعجاز اسد کی پیدائش پونچھ کے ایک ایسے علاقے میں ہوئی جسے "مینڈر” کے نام سے جانا جاتا ہے یہاں کی زمین ادب کے لئے کافی زرخیز مانی جاتی ہے جہاں سے مختلف زبانوں میں کئی قلمکار منظر عام پر آئے _اعجاز اسد کی شاعری کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کا رحجان طالب علمی سے ہی شاعری کی جانب تھا کیونکہ 2018 میں اُن کا ایک شعری مجموعہ "برف زار ” کے نام سے منظر عام پر آیا جبکہ وہ صرف 33 سال کے تھے ایسا نہیں کہ یہ مجموعہ راتوں رات لکھا گیا اس میں شامل کلام کو لکھنے میں وقت درکار ہے _چونکہ وہ منکسر مزاج واقع ہوئے ہیں اسی لئے خاموشی سے لکھتے رہے حالانکہ اردو اُن کا سبجیکٹ نہیں ہے وہ بی ٹیک_ مکینیکل انجینئر نگ کے طالب علم رہ چُکے ہیں لیکن شوق کا کیا کیجئے گا_ادرو زبان سے اُنہیں والہانہ محبت ہے اسی لئے وہ کہتے ہیں :-
ابھی میں ہارا نہیں ہوں پلٹ کے آؤں گا
یہ تیری جیت سہی میری مات تھوڑی ہے
لگا کر گھات بیٹھے تھے ہماری راہ میں دُشمن
ہمارا ہی کلیجہ تھا کہ ہم بچ کر نکل آئے
سوال دوستو عظمت کا ہے، سروں کا نہیں
ہمیں وقار کا پرچم سنبھالنا ہوگا
اور وہ اردو زبان کے اس پرچم کو سنبھالنے میں کامیاب بھی رہے_ آج کے اس دور میں جہاں ہر طرف ہاہا کار، ہنگامہ آرائی، اور خون آلودہ فضاء چھائی ہوئی ہے ایسے میں اعجاز اسد کی شاعری ہمارے منتشر ذہنوں کو فرحت اور سکون بخشتی ہے اُن کا کلام پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ ریشم کے تاروں چھو رہے ہوں اور آپ چلتے چلتے کسی پُر سکون وادی میں پہنچ گئے ہوں___ ،،
نظر ملا کے مجھے یوں ہی مست کرتا جا
تیری نگاہ کا جادو سرور میرا ہے
وہ شوخ ہے، باتوں میں لگا رہتا ہے اکثر
سُنتا ہوں مجھے بات بنانی، نہیں آتی
زندگی میں یہی تمنا تھی
دمِ آخر تیرا وصال تو ہو
اس کو اکثر میں سوچتا ہوں
مری غزل کی جو آبرو ہے
سُخنوری کا سلیقہ ضرور میرا ہے
غزل میں عکس تمہارا، شعور میرا ہے
اعجاز اسد کے کلام میں یہی خوبی ہے کہ وہ ذہن پر دباؤ نہیں ڈالتے بلکہ طراوت فراہم کرکے تازہ دم کر دیتے ہیں اُن کی شاعری کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں :-
اعجاز اسد ان چند شعراء میں سے ہیں جو اپنے موضوعات کو اپنی تخلیقیت کے سہارے کچھ نیا عطا کرنے کی خوبصورت کوشش کرتے ہیں اور وہ اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں _،، اُن کی شاعری میں ایسے بے شمار اشعار مل جاتے ہیں جو ناتواں انسان کے اندر بھی حوصلہ بھر دیتے ہیں اور یہ کہنے مجبور کردیتے ہیں :-
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خُدا کیا کرتا ہے
وہ کہتے ہیں __،،
اندھیری رات کی ظُلمت سے ٹکرانا میری فطرت
چراغِ عزم کو میں راہ کی مشعل بناتا ہوں
ہمیں آسانیوں سے کب ملی ہیں منزلیں اپنی
بڑی مشکل سے ہم نے بھیڑ میں رستے نکالے ہیں
یہاں پر وہ علامہ اقبال کے اس شعر کی تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ:-
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اُنکی شاعری کے متعلق نامور شاعر اور نغمہ نگار "گلزار فرماتے ہیں : – اعجاز اسد کی غزل کی شعریت کی سادگی غالب، اقبال اور حسرت کی یاد دہانی کراتی ہے _ ان کے کلام میں بُلند خیالی، احساس و جذبات کی شدت کا نُور ہے _ اعجاز اسد کے یہاں محبت کے اشعار کے ساتھ ساتھ معاشرے کی خامیوں پر طنز بھی ملتا ہے _ کہیں کہیں اعجاز اسد کے شعروں میں روایتی خوبیوں کے علاوہ نئی فکر بھی نظر آتی ہے _ ان کے کئی اشعار ان کی اپنی نئی سوچ کا اظہار ہیں”
وہ اپنے اشعار میں انسان کو دُنیا کی صحیح تصویر دکھانے کی از حد کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں _
چلو اب سچ بھی کہہ کر دیکھتے ہیں
یہاں شورِ پذیرائی بہت ہے
اختیار ایک سانس پر بھی نہیں
اور دُنیا خُدا بنی ہوئی ہے
ہے زمیں اُس کی آخری منزل
ابھی شہرت کے آسمان پہ ہے
ایسے اشعار سے اُن کی بُلند خیالی، احساس و جذبات کی شدت کا نُورا اور زبان و بیان کی کی جھلک صاف جھلکتی ہے _ بے شک آج ہر چوتھا فرد شاعری پر طبع آزمائی کر رہا ہے اور لُغت کی بیراگیوں کے سہارے منظر عام پر آنے کی سعی کر رہا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ موجودہ دور میں کسی کے پاس لُغت دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے اسی لئے اعجاز کی شاعری کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی شاعری کو لوگ اپنے قریب پاتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی شاعری میں ثقیل اور دقیق الفاظ برتنے سے اجتناب کرتے ہیں اور عام قاری تک پہنچنے کے لئے سہل اور عام فہم الفاظ کا استعمال کرتے ہیں _
کرشن کُمار طور بعد از مطالعہ اعجاز اسد کی شاعری کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح سے کرتے ہیں :-
اعجاز اسد کے کلام کا سنجیدگی سے تخلیقی اور تنقیدی مطالعہ ان کے پڑھنے والوں پر ایک حیرت انگیز دَر وا کرتا ہے _ فکر، مزاج، موضوع اور اسلوب سے یکسر الگ اور مُفرد ہے _نہ وہ اپنی ذات کے خلاء کا بین کرتے ہیں اور نہ ہی جارحانہ اثباتی روّیہ اپناتے ہیں لیکن اس کے باوجود اُن کی شاعری زیست کے صادق جذبوں اور لطافت سے ہمکنار ہے _ان کی تخلیقیت اُن کی غزلوں میں بے پناہ توانائی، وابستگی اور جذباتی بالیدگی کی عمدہ ترین مثال کی وجہ بن کر متحرک ہوتی ہے _
اعجاز اسد کو زمانے کے رنگوں کے بدلنے کو پورا ادراک ہے اور اس بات سے بھی وہ بخوبی آشنا ہیں کہ ایک انسان کسی کو کچھ نہیں دے سکتا کیونکہ اُس کی اپنی سانسیں اُدھار کی ہیں اسی لئے وہ کہتے ہیں :-
خُدا سے مانگ جہاں والے خوار کر دیں گے
اگر وہ چاہے تو قسمت بدل بھی سکتی ہے
یہ بد گمانی تجھے بے قرار کردے گی
ہر ایک دوست پہ آخر تجھے شبہ ہوگا
ایک پل بھی نہیں مرا اپنا
زندگانی ادھار ہے کیا ہے
یونہی چلتی نہیں مری کشتی
وہ ہوا بن کے بادبان میں ہے
عام انسان جس بات کو سوچتا ہے حساس شاعر اُسی کو اپنے فن اور شعر کے پیکر میں ڈھال کر زندگی کا حق ادا کرتا ہے _ اعجاز اسد بھی شعراء کے اُسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو جمال آرائی اور خیال آفرینی کے ساتھ ساتھ اظہار کی پاکیزگی ہور جذبے کے طہارت پر کامل یقین رکھتے ہیں _یہی سبب ہے کہ اُن کا ایسے نظریہ فکر سے کبھی واسطہ نہیں رہا جس سے لفظ معانی کا تقدس مجروح ہوتا ہے اسی لئے اُن کی سوچ یہ کہنے پر اُنہیں مجبور کرتی ہے :-
دُنیا میں کسے آگ لگانی نہیں آتی
افسوس مگر سب کو بُجھانی نہیں آتی
میں خود بھی کھلونوں کا طرفدار رہوں گا
جب تک مرے بچوں پہ جوانی نہیں آتی
موجودہ دور میں جبکہ ہر لکھنے والے کو شہرت کی بھوک لگی رہتی ہے ایسے میں اعجاز اسد کو تشیہری حربوں کے بل بوتے پر آگے بڑھنے، گروہ بندی کے سہارے نام کمانے اور تعلقات کی بیساکھیوں پر کھڑا ہوکر قد اونچا کرنے کا فلسفہ کبھی متاثر نہ کرسکا _اُن کے تحقیقی شعور کی بنیاد ہمیشہ جذبے کی نفسیات اور خیال کے اُجلے پن پر رہی، وہ گوشہ نشینی اختیار کرکے اپنے دل کی بھڑاس خاموشی سے صفئحہ قرطاس پر بکھیرتے رہے شاید اُنہیں بھیڑ سے کوفت ہے اسی لئے کہا ہے :-
پتھر میں ڈھل گیا ہے ہر اک پھول سا مزاج
فتنہ گروں کے واسطے آسان ہوگیا
ان چینلوں کے شور مچانے کے باوجود
بیٹا ہمارا حافظِ قرآن ہوگیا
ایسی ہی شاعری سے متاثر ہوکر پروفیسر ارتضی کریم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:-
اعجاز اسد کی خوبی یہ ہے کہ انہیں جدید انسان کے وجودی بحران کا احساس ہے اور کائنات کے مسائل کا ادراک بھی _ اُنہیں اپنے گردوپیش میں ہونے والے واقعات و واردات سے بھی آگہی ہے اور باطن میں موجزن جذبات کا احساس بھی _ اسی لئے آج کے جو سماجی اور سیاسی سروکار ہیں وہ ان کی تخلیق کا حصہ بنے ہیں ان کی شاعری جہاں حالات کے جبر، دُنیا کے دُکھ اور عالمی درد سے روشناس کراتی ہے وہیں سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کا بھی احساس کراتی ہے _ اعجاز اسد نے تنہائی، برہمی، خفگی، اور اس طرح کے دیگر منفی جذبات کو بھی اپنی شاعری میں ڈھالا ہے گو کہ ان کی شاعری میں رومانیت کا عُنصر بھی ہے مگر عصری مسائل سے انہوں نے انحراف نہیں کیا ہے اور ایک سچے فنکار کا فرض ادا کیا ہے ”
وہ چشم دید گواہوں کو مار ڈالیں گے
سیاسی لوگ، کہاں قاعدے سے چلتے ہیں
ہر ایک شخص کو رہبری کا ہے دعویٰ
ذرا پوچھئے تو قیادت کہاں ہے
عوامی مسئلے سنجیدگی سے کون دیکھے گا
بھری سنسد میں چلانا اگر معیار ہو جائے
جسے دورِ جمہوریہ کہہ سکیں
کہیں ایسا طرز حکومت کہاں ہے
ہے امن و آشتی مسلک ہماری درس گاہوں کا
سیاست داں یہاں آئے تو باکردار ہو جائے
نفرت کی فصل بونے لگے، شرم تو کرو
وعدہ کیا تھا امن کا، تم نے عوام سے
ہمارے ووٹ کی چاہت ہے اور کچھ بھی نہیں
اسی لئے تو وہ جھک کر سلام کرتے ہیں
ان اشعار کا پسِ منظر ہر ذی شعور انسان کی سوچ کو اُس سطح تک پہنچاتا ہے جہاں انسانی قدریں پامال ہوتی ہے اور جذبات روندے جاتے ہیں _دراصل فنکار وہی ہے جو محبتوں کے چراغ روشن کرنے کا ہُنر جانتا ہو دُنیا میں لاکھ نفرتیں ہوں مگر شاعر کا کام تو تُند آندھیوں میں چراغ جلاکر ناتواں خواہشات کو حوصلہ بخشنا ہے یہی اعجاد اسد کا خاصا ہے کہ وہ خاموشی سے قاری کے کان میں اپنی بات الفاظ کے ذریعے ڈال دیتے ہیں _ اس بات کا علم ہم سب کو بخوبی ہے کہ پیار، محبت اور عشق روزِ ازل سے ہی انسان کی رگ رگ میں رچا بسا ہوا ہے اور شاعری تب تک وجود نہیں پاتی جب تک آپ مجازی یا حقیقی جذبے سے سرشار نہ ہوں تب تک ایسے اشعار دل سے نہیں نکلتے:-
اعجاز! تمہارے لئے ساحل پہ کھڑا ہے
دریائے وفا میرے لئے پار کرو نا
ستم تو یہ کہ وہ میرا نہ ہوا
جسے میرا بتایا جارہا ہے
تمہارے دل کی زمیں جل چکی مگر اعجاز
اسی سے نخلِ محبت نکالنا ہوگا
اعجاز اسد کی شاعری کو سمجھنے والے ہی اُس پر بات کر سکتے ہیں جیسے فرحت احساس نے سمجھا ہے کہتے ہیں :-
اعجاز اسد دیوانوں کے اسی قبیل اور تازہ دم کھیپ سے وابستہ ہیں _ایک مقتدر اور اعلی منصب پر فائز ہونے کے باوجود اپنی انسانی بنیادوں کے وجدانیات کو محفوظ رکھ پانا مشکل کام ہے مگر ان کی شاعری میں یہ مشکل آسان ہوتی نظر آ رہی ہے _ اعجاز اسد بھرپور امکانات کے ساتھ اس وادئ پرخار میں اترے ہیں ”
مرے ہمراہ تم دو گام بھی چلنے نہ پاؤ گے
تمہیں قالین کی عادت میرے پیروں میں چھالے ہیں
یہاں سے کوچ کرنا ہی پڑے گا
ترے کوچے میں رُسوائی بہت ہے
یہ زُلفِ پیچاں عبث چوُمتی ہے تیرے لب کو
ہٹا اسے کہ مری جان جل بھی سکتی ہے
ان اشعار کے تناظر میں ڈاکٹر مشتاق قادری رقمطراز ہیں :-
اس دور میں لفظوں کو جوڑ توڑ کر شاعری کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن اندونی جذبات، داخلی محسوسات، ذاتی تجربات اور گہرے مشاہدے کو آسان اور عام فہم الفاظ میں پیش کرنے والے شعراء خال خال ہی نظر آتے ہیں _ اعجاز اسد کا کلام پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ ایسے تجربات احساسات کو عام فہم اور سادہ زبان میں اشعار کی شکل میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے _ایک شاعر کے لئے عوامی زبان میں شعر کہنا کافی مشکل ہوتا ہے لیکن اس مشکل پسندی کو بھی اعجاز اسد نے بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا ہے _یہ اُن کے فن کی کامیاب علامت ہے ان کے یہاں ایسے اشعار کی کثرت ہے جن ميں سادگی بھی ہے اور فنکاری بھی_اعجاز اسد کو الله تعالیٰ نے تمام آسائش اور وسائل عطا کئے ہیں لیکن ان تمام کے ہوتے ہوئے بھی ان کی فکر اور سوچ میں عجیب قسم کی منکسر المزاجی ہے _ان کے یہاں خلوص بھی ہے اور جھکاؤ بھی، بُردباری بھی اور حلم بھی، وہ حساس طبیعت کے مالک ہیں اور نوجوان نسل کے ترجمان بھی ”
علم کی موجودہ ترقی اور سائنسی کی پیش رفت کا اسد کُھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں لیکن اس صورتحال کے منفی پہلوؤں تک بھی اُن کی رسائی ہے _ اُنہیں علم کی بے لگامی اور سائنس کی بے پناہی کو بھی جنم دیا ہے تبھی اُن کی نوک کلک سے ایسے اشعار نکلتے ہیں :-
واٹس ایپ، فیس بُک، ٹویٹر پر
چند بے نام دھمکیاں دے دو
جو شاہ تھے اُنہیں کاسہ بدست دیکھا ہے
تباہیوں کے یونہی سلسلے سے چلتے ہیں
پھیلا تھا نفرتوں کا عجب زہر خون میں
مہر و وفا کا جام اُٹھانا پڑا مجھے
جوں جوں شاعر کی عمر بڑھتی ہے تو ساتھ میں تجربہ بھی بڑھتا ہے پھر وہ الفاظ کی صورت اختیار کرجاتا ہے اعجاز اسد کی شاعری پر بعد از مطالعہ ڈاکٹر لیاقت جعفری کہتے ہیں :-
” اعجاز اسد کی شاعری کا مطالبہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی شاعری دلوں کی شاعری ہےاور اُن کی غزلوں کا آہنگ وقت کی آواز ہے _روز مرہ کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات و تجربات ان کے شعری اسلوبِ میں ڈھل جاتے ہیں _ انہوں نے دل کی ہر کسک، ہر احساس اور ہر تڑپ کو شعری پیکر میں ڈھابے کی کوشش کی ہے_ ان کی شاعری معیار ی اور جدیت کے رنگ سے میں ہے جدید تصورات کے رحجانات کی عکاسی ان کے اشعار میں نمایاں طور پر موجود ہے_ مندرجہ ذیل اشعار میرے ان تاثرات کی تصدیق کرتے نظر آئیں گے:-
میرے پہلو تُو نہیں نہ سہی
میرے شانے پہ تیری شال تو ہے
اگر عشق روحوں کا بندھن ہے پیارے
تو اس میں بدن کی ضرورت کہاں ہے
مجھے افسوس ہوتا ہے مرے چاکِ گریباں پر
تری تصویر میں جب ریشمی آنچل بناتا ہوں
خوشبو سے مہکتی ہی نہیں رات ہماری
خوابوں میں اگر رات کی رانی نہیں ہوتی __،،
اعجاز اسد کے کلام کا مطالعہ کرنے سے شدت کا احساس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں وہ تمام اوصاف موجود ہیں جو کہ ایک اچھی شاعری کے لئے لازم ہیں اور ان کے یہی شعری اوصاف انہیں دوسرے ہمصر شعراء سے منفرد مقام عطا کرتی ہے _ وہ اپنی بات شعری پیرائے میں بہت ہی سلیقے سے رکھنے کا ہُنر بخوبی جانتے ہیں _ ان کی شاعری میں سادگی، شگفتگی اور تسلسل و روانی ہر جگہ دکھائی دیتی ہے _ان کی شاعری میں تشبیہات و استعاراکی بھر مار بھلے ہی نہ ہو لیکن ضرورت کے تحت ان کا بر محل استعمال کرنے کا ہُنر وہ خوب جانتے ہیں _غزلوں میں ہر طرح کی بحروں کا استعمال بھی کرتے ہیں اور مضامین کی ادائیگی میں انہیں کوئی دشواری پیش نہیں آتی __
اگر کسی شاعر کا شعری سفر ایسے اشعار سے شروع ہو تو قاری اُس کی انجام کا اندازہ بخوبی لگا سکتا ہے_
نادان میری میز کے شیشے پہ گرے ہیں
اشکوں کو بھی تصویر بنانا نہیں آتا
مرے ہمراہ تم دو گام بھی چلنے نہ پاؤ گے
تمہیں قالین کی عادت میرے پیروں میں چھالے ہیں
اسد شہروں کی نفرت میری آنکھوں میں کھٹکتی ہے
تخیل میں سدا تنہائی کا جنگل بناتا ہوں
پہلے صحرا سے نکالیں دریا
شعر کہنے کا جو ڈھب پوچھتے ہیں
پرندوں کو کرتے ہو گلشن بدر
ہوا پر حکومت تمہاری ہے کیا؟
اس چھوٹی سی عمر میں ہی اُن کوبیرون ممالک میں اپنی شاعری سُنا کر دادِ تحسین حاصل کرنے کا موقعہ بھی نصیب ہو ہے جو کہ ہر شاعر کا خواب ہوتا ہے لیکن خواب تب ہی پورے ہوتے جب آپ کا کلام دوسروں کو متاثر کرے _،،
مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اعجاز اسد نئی نسل کے شعراء میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں اور قارئین کو مستقبل میں اُن سے کافی توقعات وابستہ ہیں اور وہ اردو زبان سے اپنے اس عشق کو ہمیشہ قائم رکھیں گے

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

سبسڈی خاتمے کے بعد بھی حج مہنگا نہیں ہوا:مختار عباس نقوی

Next Post

بھکشو جس نے اپنی فراری بیچ دی (قسط 13)

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
Next Post
The monk

بھکشو جس نے اپنی فراری بیچ دی (قسط 13)

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan