تحریر:ترنم صدیق
میرے پیارے بابا، راج دلارے بابا، پیاری آنکھوں والے پیارے بابا۔۔۔۔ آپ کو اس دنیا سے گیے ہوے آج دو ماہ اور آٹھ دن ہونے کو ہیں۔ آپ کی جدائی میں اب آنسوں بھی خشک ہونے لگے۔ اگرچہ دل میں ابھی بھی آپ کے جانے کہ غم سے شور مچا ہے، دل ابھی بھی بےچین ہے، آپ کو یاد کرنے سے دل بہت جلتا ہے اور سینے میں گٹھن محسوس ہوتی ہے-
"آنسوں تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے”
مجھے ڈر ہے جیسے آنسوں ان انکھوں ںسے خشک ہوے کہیں یہ درد بھی سینے میں خشک نہ ہو جائے۔ انسوں بھلے ہی خشک ہو جائیں مگر یہ درد ہمیشہ سینے میں رہنا چاہیے ۔ یہ آپ سے وفا کی نشانی بن کہ سینے میں ہمیشہ جلتا رہے، کبھی نہ بجھنے والی شمع کی طرح۔ اردو کی غزلوں میں محبوب کی جدائی میں لکھا گیا ہر ایک شعر، جن پر پہلے كبھی میری دوسری نگاہ نہ گیی تھی، اب سب کہ سب اچانک سے بامعنی ہو کر اُبر ی ۓ ہیں۔
ہر عشق کے منظر میں تھا اک ہجر کا منظر
اک وصل کا منظر کسی منظر میں نہیں تھا
بابا پیارے بابا آپ میری پہلی محبّت ہیں اور ہمارے درمیان فقط محبّت اور دوستی نہیں تھی عشق بھی تھا جو آپ کہ جانے کہ بعد تل تل مجھے تڑپا رہا ہے ، راتوں کو جگا رہا ہے ۔ آپ کہ جانے کہ بعد سب منظر پھیکے ہیں۔ سب دھوکھہ اور فریب لگ رہا ہے ۔
مجھے کبھی کبھی یقین ہی نہیں ہوتا کے آپ واقعی اس دنیا سے رخصت ہوے ہیں۔ میرا دل کبھی کبھی چاہتا ہے کے میں آپ کو تفصیل سے خط لکھوں، اپنی کیفیت بتاؤں۔ اور پھر آپ کے خط کی منتظر رہوں۔ یا کم سے کم دل کو اتنی تسلی ہو کے آپ وہ خط پڑھ رہے ہیں اور مسکرا رہے ہیں ۔
بچپن سے لے کر آج تک آپ کی سرپرستی میں رہنا ہمارے لئے خود میں ہی ایک اعزاز ہے۔ آپ ہمارا قیمتی اثاثہ تھے۔
آپ کسی بھی لحاظ سے ایک عام انسان نہ تھے۔ ادب کے رشتے پر ہمارا دوستی کا رشتہ حاوی تھا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو آپ میرے پہلے استاد ہوئے۔ آپ نے ہم سب بچوں کو قرآن پاک پڑھایا، دین کی تعلیم دی اور ہماری تربیت کا ذمہ اپنے سر لے لیا جو آپ اس دنیا سے رخصت ہونے تک نبھاتے رہے۔ جس کو ادا کرنے میں آپ نے کوئی کَسَر باقی نہ رکھی۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ آپ سے کتنا جلدی ہم نے قران پڑھنا سیکھا۔ آپ کی شیریں زبان میں کوئی جادو تھا۔ اور یہ لکھتے لکھتے مجھے کہیں چھوٹی چھوٹی باتیں یاد آ رہی ہیں کہ کیسے ہم بچے مسجد میں کسی دوسرے استاد کہ آنے پر خوش نہیں ہوتے تھے اور آپس میں تبصرہ کرتے تھے کہ آپ ان سے بہتر پڑھاتے ہیں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ آپ کو اس بات پر بڑا فخر تھا کہ میں نے عم پارہ حفظ کرلیا تھا۔( جو کہ اصل میں میں نے یاد کیا نہیں تھا مجھے یاد ہو گیا تھا اس قدر شیریں زبان تھی آپ کی ) اور اس بات کو آپ بعد زندگی بہت دہرایا کرتے تھے کے یاد ہیں وہ دن بیٹا تمہیں۔ بیٹا قرآن پڑھا کرو۔ قرآن گھروں میں بند رکھنے کے لئے نہیں ہے۔ اور ایسی بہت ساری باتیں سکھائیں اور بتائیں جو شاید کوئی نہیں بتاتا۔ مجھے یاد ہے بڑھتی عمر کے ساتھ میری آپ کے ساتھ دوستی بھی گہری ہو گئی تھی۔ میں آپ کو سمجھنے لگی تھی اور آپ مجھے سمجھنے لگے تھے۔ اسکول اور کالج کے دوران میں اپنے دوستوں میں بڑے فخر سے آپ کا ذکر کیا کرتی تھی۔ جیسے ایک دوست اپنے دوسرے دوستوں سے اس کا تعارف کرا رہا ہوتا ہے۔ میری زندگی میں آپ سے جڑی کتنی ہی حسین یادیں ہیں، کتنے ہی خوشنما رنگ ہیں۔ مجھے آج بھی بھی یاد ہے جب میرے کالج کہ امتحان ہوتے تھے تو میں آپ سے کہتی تھی "بابا آج آپ کو میرے لئے خصوصی دعا کرنی ہے صرف میرے لیے۔بس آج پورا دن اب میرے لیے دعا کریں گے ۔ اور جب میں کالج سے واپس آتی تھی مسجد کے برآمدے میں نظریں راستے کی طرف ٹکائے ہوئے؛ مسکراتے لبوں کے ساتھ پوچھتے تھے ‘اچھا پہلے یہ بتاؤ کہ تمہارا امتحان کیسا ہوا؟’ اور میں کہتی تھی پہلے آپ بتائیں آپ نے میری لئے دعا کی تھی۔ اگر آپ نےدعا کی ہوگی پھر اچھا ہی ہوا ہوگا اور اس کے بعد ہمیشہ جواب میں اچھا ہوا ‘ ٹھیک ہوا ‘کہتی تھی اور آپ مسکرا کہ الحمداللہ کہتے تھے۔
بچپن میں ہم سب بچے آپس میں لڑ لیا کرتے تھے کہ نہیں ہم سوئیں گے بابا کے پاس ہم سوئیں گے بابا کے پاس۔۔ اور پھرآپ کےارد گرد آپ کی رضاعی میں بیٹھے لیٹے آپ سے کہانیاں سنا کرتے تھے۔ کچھ مزاحیہ اور کچھ سبق آموز۔ وہ ڈائن اور چالاک گنجے کی کہانی ،شال کاک مال کاک کی کہانی (کشمیری میں مشہور کہانی ) شیطان اور ہوٹل والے کہانی۔ اور پھر مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے آپ نے لگ بھگ اسلام میں سارے مشہور پیغمبروں سے جڑے واقعات اور قصے ہمیں سُناے۔ حضرت یوسف اور حضرت یعقوب کی جدائی سے لیکر ملنے تک کا مکمل قصہ، حضرت نوح علیہ السلام کا کشتی بنانے والا قصہ، حضرت یونس کا مچھلی والا قصہ، حضرت ایوب کی بیماری کا قصہ، حضرت آدم کا جنت سے زمین تک کا سفر ، موسی اور ہارون علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ، عیسی علیہ السلام اور مریم علیہ السلام کا واقعہ، حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام اور نمرود کا واقعہ ، اور پھر حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت زکریا اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زندگی کے واقعات اور ان کے صحابہ کے بہادری کے قصے سن سن کے ہمارا بچپن گزرا۔ کبھی کبھی تو ہم بچوں کا دیر رات تک من ہی نہیں بھرتا تھا اور ہم آپ سے کہتے تھے نہیں ایک اور سنائیں ایک اور سنائیں ۔جواب میں آپ کہتے تھے آج کے لیے کافی ہے اب میں تھک گیا ہوں اب میں کل سناؤں گا ۔اور پھر ایسے ہی ہمیں نیند پڑ جایا کرتی ہوگی ۔سوچتی ہوں ہم کتنے خوش نصیب تھے نا آپ جیسے پیارے انسان ہمارے دادا تھے۔
چھوٹے بچوں کے ساتھ آپ کو بہت لگاؤ تھا۔ اپ بچوں کے ساتھ بچے بن جایا کرتے تھے اور بڑوں کے ساتھ بڑے۔ آپ کی باتیں گہری اور اثر انداز کرنے والی ہوتی تھی۔ آپ کی صحبت سے سب لطف اندوز ہوتے تھے۔
اٹھتے بیٹھتے آپ کا ہمیں نصحیتیں کرنا ۔۔کردار کو خوبصورت بنانے کی باتیں کرنا صبر اور تحمل سے کام لینے کی تلقین کرنا اور آپ کی باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنے کا کہنا ۔۔۔آہ بابا آہ
اور پھر مجھے ایک اور قصہ یاد پڑتا ہے جو مجھے کبھی بولا ہی نہیں تھا۔ جب ہماری اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی تو ایک رات جب آپ سوئے تھے، میں نے آپ سے پوچھا تھا ” بابا مرنا تو ہے ہی۔ تو آپ مجھے ایک جگہ بتائیں جہاں ہم بعد میں ملیں گے۔ یہ سن کر آپ ہنس پڑے تھے۔ اور آپ نے کہا تھا کہ "بیٹا اُس روز کوئی کسی کو پہچانے گا نہیں، نفسا نفسی کا عالم ہوگا ۔ میں نے کہا تھا نہیں بابا پھر بھی !!!!!اور میری آنکھوں سے دو آنسو نکل گئے تھے۔
میری زندگی میں آپ سے جڑی کتنی حسین یادیں، باتیں ہیں، کتنے ہی خوشنما رنگ ہیں۔ اب مڑ کے پیچھے دیکھتی ہوں تو ماضی میں محبت و شفقت، پیار بھری نظر ، ہمدردی، احساس، اپنایت، رفاقت، فکر وخیال چمکتی آنکھیں اور آپ کہ مسکراتے لب ، چند ایسی آسائشیں جو ہر کسی کو میسر نہیں، جن کی کوئی قيمت نہیں، انمول اور خالص محبّت ۔ایسی بے لوث محبّت جسے کوئی سلا نہیں چاہیے۔ کبھی نہ کم ہونے والی محبّت۔ ایسی محبت جس کا دل سونے کا، جس کا مقام بہت اعلی بہت اونچا۔
ماہ رمضان کی ستارہ تاریخ (١٩ اپریل ٢٠٢٢ بروز منگل ) کو آپ اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کا چہرہ دیکھ کہ سب سبحان اللّه کہتےچلے جاتے۔ دل مطمئن تو تھا کہیں حوالوں سے مگر پھر بھی کہیں خواب ارمان اور باتیں رہ جاتی ہیں ۔
مجھے یہ ڈر تو ہے کہ وقت کے ساتھ آپ کی کہیں باتیں مجھے بھول جائیں گی۔ مگر میں چاہتی ہوں کے اگر مجھے سب کچھ بھول بھی جائے تو کوئی بات نہیں بس آپ کے مسکراتے لب اور کھلکھلاتا چہرا یاد رہے تو مجھے سب یاد رہے گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ کا جانا ہمارے لئے اللہ سے نزدیکی کا سبب بنے گا۔ میرا ایک حصہ ہمیشہ کہ لئے آپ کہ ساتھ چلا گیا اور آپ کا ایک حصّہ ہمیشہ کہ لئے اب میرے ساتھ رہے گا ۔
اس یقین اور ایمان کے ساتھ کہ ہم پھر ملیں گے ۔تب تک کے لئے اللہ حافظ پیارے بابا ۔
