
اُردو زبان میں حروف تہجی کی اصلیت ایک ایسا موضوع بحث رہا ہے جس پر بھرسوں سے بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔جہاں تک ہماری ریاست/یونین ٹریٹری جموں و کشمیر کا تعلق ہے یہاں کے طلبہ خاص کر اردو سبجکٹ(ادب) کے میں اکثر و بیشتر یہ ذہنی انتشار دیکھنے کو ملتا ہے کہ آخر حروف تہجی کیا ہے؟آخر انکی کل تعداد کتنی ہے؟کن کن آراؤں سے حروف تہجی گزری ہے۔ میرے اس مقالے کے لکھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ طلبہ ہزیائی پن سے محفوظ رہیں۔اس موضوع کو معرضِ وجود بخشنے کا ایک اور مقصد یہ بھی ہے کہ ملک گیر سے اردو زبان سے تعلق رکھنے والے دوست احباب اس حقیقت امر سے آشنا ہو جائیں کہ اردو زبان کی بنیاد حروف تہجی پرکیسے رکھی گئی ہے۔سچ یہی ہے کہ کسی چیز کو وسعت دینے سے ہی اس کی ترویج کارگزار ثابت ہو سکتی ہے۔
اردو حروف تہجی کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی ایک پیچیدہ اور ملک گیر مسئلہ رہا ہے۔اردو املا پر ہندوستان اور پاکستان کے کئی علما نے اظہار خیال کیا ہے۔املا کے موضوع پر مباحث ہوئے ہیں،کتابیں لکھی گئی ہیں۔جن محقیقین نے اردو املا پر زورِ قلم صرف کیا ہے ان میں قابلِ ذکر ابو محمد سحر،گوپی چندنارنگ،رشید حسن خان،غلام مصطفیٰ خان،عبدلستار صدیقی،ٖغلام رسول،انشا،عبدلحق،پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی ہیں وغیرہ۔مقتدرہ قومی زبان(پاکستان) اور ترقی اردو بیورو(ہندستان) نے املا کے مسائل پر متعدد کتابیں شائع کیں۔
اردو چونکہ ایک جدید ہند آریائی زبان ہے اور یہ شورسینی اَپُ بھرنش کی کھڑی بولی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ماہرین لسانیات نے زبانوں کو صوتی، صرفی اورنحوی خصوصیات کی بنا پر آٹھ خاندانوں میں تقسیم کیا ہے۔(۱) سامی (۲) ہند چینی (۳)دراوڑی (۴) بانتو (۵) مینڈا (۶) امریکی (۷) ملایائی (۸) ہند یورپی۔ ہماری اردو زبان کا تعلق اسی ہند یورپی خاندان سے ہے۔کھڑی بولی کو اردو کی ماں کہا جاتا ہے۔اس پر برج،ہریانی،میواتی، پنجابی ارو جنوبی ہند کی بولیوں کے اثرات ہیں۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اردو ایک ملی جلی زبان ہے۔
ابتدا میں اردو کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا جیسے ہندوی،ہندوستانی،دکنی،گجری،ریختہ وغیرہ۔اردو زبان کو جن لوگوں نے معرضِ وجود بخشا ہے وہ فارسی بولتے تھے اور عربی زبان کا ان پر اثر بھی تھا۔یہ لوگ اردو زبان کو فارسی رسم الخط میں لکھنے لگے۔لیکن عہد حاضر میں اس زبان کا رسم الخط عربی و فارسی دونوں ہیں۔ ایران کے میر علی تبریزی نے عربی کے دو رسم الخط”نسخ “ اور”تعلیق“ کو ملا کر ایک نیا رسم الخط ایجاد کیا جو ”نستعلیق“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اردو کے لئے آج یہی رسم الخط مروج ہے اور یہی اب اردو کا اپنا رسم الخط بن گیا ہے۔
اردو زبان میں بہت سی آوازیں ایسی تھیں جن کے اظہار کے لئے فارسی میں حروف موجود نہ تھے۔اس لئے فارسی حروف میں ہی ردّ و بدل کر کے ان آوازوں کے اظہار کی صورت نکالی گئی۔فارسی میں اردو کی کوز آوازوں (معکوسی) کے لئے حروف موجود نہ تھے۔اس لئے قدیم حروف میں ترمیم کر کے نئے حروف بنائے گئے جیسے(ٹ) کے لئے حروف (ت) کی شکل معروضِ وجود میں آئی اور دو نقطوں کی جگہ چار نقطے(::) لگائے گئے پھر چار نقطوں کے بجائے دو نقطوں کے اُوپر ایک لکیر کھینچی گئی(.-.) لیکن آگے چل کر دو نقطوں اور ایک لکیر کو ہٹا کر (ط) کی شکل دی گئی۔اس طرح ہمارے رسم الخط میں ٹ ڈ ڑ جیسے حروفوں کا اضافہ ہوا۔اردو میں ہکاری آوازوں کو پیش کرنے کے لئے دو چشمی(ھ) سے مدد لی گئی۔عربی اور فارسی میں ہکاری آوازوں کا وجود نہیں ہے۔اردو میں کل گیارہ(11) ہکاری آوازیں ہیں جیسے بھ،پھ،تھ،ٹھ،جھ،چھ،دھ،ڈھ،ڑھ،کھ،گھ،لھ،مھ،نھ لیکن جدید تحقیق یہ بتاتی ہے کہ لھ،مھ،نھ کو فونیمی حیثیت حاصل نہیں ہے اسلئے ان کو ہکاری آوازوں میں شامل نہیں کر سکتے۔بعض عالموں کا خیال ہے کہ صوتاتی نقطئہ نظر سے رھ،لھ،مھ،نھ کو بھی ہکاری آواز مانا جاتا ہے۔
اردو قواعد کا نظام فارسی اصولوں پر مرتب کیا گیا ہے۔اردو قواعد کی پہلی تصنیف فارسی زبان میں انشا اللہ خان انشا کی لکھی ہوئی”دریائے لطافت“ہے۔مرزا قتیل،خان آرزو،امام بخش صہبائی نے بھی اردو کی قواعد و بلاغت پر متعدد کتابیں تصنیف کیں۔بیسویں صدی میں جلال لکھنوی،حسرت موہانی،عبدلحق،برج موہن دتاتریہ کیفی وغیرہ نے اس موضوع پر تصانیف پیش کیں۔پندت برج موہن دتاتریہ کیفی لکھتے ہیں ”اردو ایک غیر صرفی اور پنج میل زبان ہے“۔ان کے مطابق اردو حروف تہجی کی کل تعداد 47 ہے۔انشا نے دریائے لطافت میں اردو حروف تہجی کی کل تعداد85 بتائی ہے۔مولوی عبدلحق نے قاعد اردو میں 36کے بجائے حروف تہجی کی تعداد50بتایا ہے کیوں کہ انہوں نے ہکاری آوازوں کو بھی حروف گردانا ہے۔عہد حاضر میں جدید لسانیاتی اسولوں اور سائنسی انداز پر اردو کے جو قاعد ترتیب دئے گئے ہیں ان میں حروف تہجی کی کل تعداد 36 متعین کی گئی ہے جن کی ترتیب اس طرح سے ہے:
ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ دڈذ ر ڑ ز ژس ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ی ے
اس طرح ان حروف کی کل تعداد 36ہے لیکن اگر ہمزہ(ء) کو بھی ملایا جائے تو اردو حروف تہجی کی کل تعداد37 بن جاتی ہے۔
حروف تہجی کی ترتیب اس طرح سے ہے:
خالص عربی حروف: عربی حروف تہجی کی کل تعداد28ہے:
ا ب ج د ہ و ز ح ط ی ک ل م ن س ع ف ص ق ر ش ٹ ث خ ذ ض ظ غ
خالص فارسی حروف: اردو میں فارسی حروف تہجی4ہیں: پ چ ژ گ
خالص اردو حروف: اردو میں جو نئے4 حروف واضع کیے گئے ہیں وہ اس طرح ہیں:ٹ ڈ ڑ ے
اور اس طرح سے عہد حاضر میں جدید لسانیاتی اصولوں اور سائنسی تحقیقات نے از کار رفتہ آراوؤں کے دوش بہ دوش حروف تہجی کی کل تعداد 36 کو واضع کر دیا ہے۔
بادی النظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو حروف تہجی کی کل تعداد صرف 36 ہے جسے جدید سائنسی تحقیق نے مختلف اردو قاعدوں کو ترتیب دے کر ثابت کر دیا ہے۔انشا کے85،پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی کے 47 اور عبدلحق کے50 محض ان کی آرائیں ہیں جو فی الزمانہ بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔ قرائن قیاس یہی ہے کہ اردو حروف تہجی کی اصل تعداد 36 ہے۔
