
یوں تو کشمیر صوبے کے ساتھ ساتھ جموں صوبے کے چناب ویلی میں بہت سارے مقامات سحایوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی کرونا وائرس کی وبا نے ملک کے اندرون کو کمزور کر دیا۔ملک کی اقتصادی حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ سیاحتی مقامات کی آمد و رفت میں بھی بہت کمی دیکھنے کو مل رہی تھی۔آمدورفت کی کمی سے سیاحتی مقامات پر کاروبار کرنے والے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ساتھ کرونا وائرس دنیا بھر کے ساتھ ساتھ ملک میں بھی کیسوں کی کمی دیکھنے کو ملی۔اب اس میں نرمی کے حالات نے ایک بار پھر سے سیاحتی مقامات کی رونق کو لوٹا دیا ہے اورسیاح پھر سے ان مقامات کا رخ کرنے لگے ہیں۔
واضح رہے یہاں یہ بات قلمبند کرنا ضروری ہے کی چناب ویلی کے بیس فیصد لوگ پہاڑی علاقوں میں کاروبار کرتے ہیں۔جن کے کاروبار کو کامیاب بنانے میں صرف سیاحتی و کا کردار رہتا ہے۔اگرچہ ملک میں دو یا تین سال سے کرونا وائرس کی بیماری نے تمام لوگوں کو گھر بیٹھنے پر مجبور کر دیا تو تو پہاڑی علاقوں کے وہ تمام کاروبار بند ہونے کی آڈ پر تھے۔اس سلسلے میں سماجی و سیاسی کارکن شاہنواز میر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ عرصہ دراز سے کرونا وائرس کی اس لاعلاج بیماری نے تمام لوگوں کے ساتھ ساتھ طالب علم کو بھی سیر و تفریح کے ساتھ ساتھ اپنی روز مرہ کی زندگی کا جو اہم کردار ہے، اسے بالکل برطرف کر دیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ کہ چناب ویلی کے بیس سے زائد فیصد لوگ پہاڑی علاقوں میں اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ جس کو کامیاب بنانے میں صرف سیاحت ہی اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جبکہ دو سے تین سال کے ایام گزر رہے ہیں تو پہاڑی علاقوں میں کاروبار کرنے والے کاروباری شدید مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب حالات بہتر ہونے کے بعدسیروتفریح کے مقامات پر کچھ لوگ اپنے گھوڑے لے کر وہاں پہنچنے لگے ہیں تاکہ سیر و تفریح کرنے والے لوگوں کو ان پر سوار کر کے ان سے کچھ پیسے حاصل کر سکیں۔ جس سے وہ اپنے گھر کا خرچ پورا کر سکیں۔جبکہ گذشتہ دو سال کے ایام میں کوئی بھی سیر و تفریح کے لیے تیار نہیں تھا اور حکومت کی طرف سے بھی کچھ گائیڈ لائن دی گئی تھی۔
وہیں سیاحتی مقام کرلا سے تعلق رکھنے والے چودھری عباس نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کے دوسرے سیاحتی مقامات کی طرح غذا بھی ایک اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر مختلف اسکولوں کے طلباء سیروتفریح کے لئے آتے تھے۔لیکن ان تمام علاقوں میں اعلی حکام نے سیروتفر یح کی اجازت نہیں دی تھی۔انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے ایام میں میں سیاحتی مقامات میں رہنے والے لوگوں کومختلف طریقے کی مشکلات سے دوچار ہونا پڑاتھا۔انہوں نے کہا کہ سیرو تفریح کے دوران یہاں کے لوگوں کا روزگار بہت اچھا تھا۔کیونکہ ان علاقوں میں رہنے والے لوگ دودھ، دہی اور پنیر کے ساتھ ساتھ پھل وغیرہ بھی فروخت کیا کرتے تھے۔جس سے ان کی مالی امداد میں کافی اضافہ ہوا کرتا تھا۔انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے اس دور نے جس طرح سیاحتی مقامات پر برے اثرات کی جو شروعات کی وہ کافی اور بے حد د مشکلات کا دور گزرا۔انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ سیروتفریح بند رہنے کی وجہ سے سیاحتی مقامات پر کئی طرح کے جانوروں کا گزر بسر ہونے لگا۔
ان کے علاوہ سماجی کارکن محمد امتیاز نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ سیر و تفریح کے بند ہونے سے سیاحتی مقامات پر بھی اثر پڑنے کے ساتھ ساتھ طلبہء کی تعلیم پر بھی کافی زیادہ اثرات پڑے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت افزا مقامات پر بھی رہنے والے لوگوں کے کاروبار میں بھی کھلل دیکھنے کو ملا۔جب کی جائی اور بال پدرھی کے کئی مقامات پر بہار اور ہماچل پردیش کے لوگ مکھیر بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو سال سے ان کا مکھیر کسی نے نہیں خریدا۔جس کی وجہ سے ان کو لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے یہ لوگ نہ ہی اپنی شہد کی مکھیوں کو بہار واپس لے جا سکے بلکہ سردیوں میں بھی یہاں رہنے کی وجہ سے ان کو کافی زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔
اس سلسلہ میں ضلع ترقیاتی کونسلرمھراج ملک نے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ ایک سال سے سیاحتی مقامات پر پھر سے وہی چہل پہل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جو کرونا وائرس کی وبا سے قبل تھی۔انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ کہ سیاحتی مقامات پر نیٹ ورک جیسی بنیادی سہولیات کا انتظام کیا جانا چاہئے۔جس سے بیرون ریاست سے آنے والے لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔انہوں نے ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈ ہ سے بھی اپیل کی کہ وہ فوری طور پر ان مقامات کا دورہ کرے اوریہاں پر آنے والی مشکلات کا ازالہ کریں۔انہوں نے کہا کہ جائی اور بال پدرھی جیسے مقامات پر نیٹ ورک کی بہت زیادہ قلت رہتی ہے۔جس سے سیر و تفریح کرنے والے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایسے مقامات ہیں جو جموں و کشمیر کے نہایت خوبصورت مقامات میں شمار کیے جاتے ہیں۔ضرورت ہے ان علاقوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی تاکہ سیاح یہاں زیادہ تعداد میں آیں۔جس سے نہ صرف یہ پورا علاقع ترقی کرے گا بلکہ اس سے مقامی لوگوں کو روزگار بھی مل سکے گا۔(چرخہ فیچرس)
