تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
کئی روز سے حجاج کرام کی مکہ مکرمہ سے واپسی جاری ہے ۔ قافلوں کا بڑے پر تپاک انداز میں استقبال کیا جارہاہے ۔ اس موقعے پر روح پرو ر مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہورہاہے ۔ بلکہ عازمین حج کی روانگی اور واپسی کے ایسے ہر موقعے پر اس طرح کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ مکہ مکرمہ کی زیارت کا سفر بہت ہی عظمت اور برکت والا سفر ہے ۔ اسلام نے اس سفر کی تاکید کی ہے اور حج کو بنیادی فرائض میں شامل کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حجاج کی اس سفر پر رخصتی اور واپسی کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ۔ عزیز واقرب کی طرف سے شاندار طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے اور واپسی پر شاندار استقبال کیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے رسول ﷺ کی حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں حاجی کو گناہوں سے صاف وپاک قرار دیا گیا ہے ۔ اس سفر کے دوران عازمین کئی اہم ارکان ادا کرتے ہیں ۔ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے ۔ غلاف کعبہ سے لپٹا جاتا ہے ۔ حجر اسود کو بوسے دئے جاتے ہیں ۔ شیطان پر پتھر پھینکے جاتے ہیں ۔ رمی اور سعی کی جاتی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قربانی دیتے وقت ابراہیم ؑ اور اس کے اہل خانہ کی طرف سے حکم الٰہی کی تابعداری کو یاد کیا جاتا ہے ۔ اس وادی کے اندر ابراہیم اور اس کے اہل خانہ کی ایک ایک حرکت کو اللہ تعالیٰ نے ریکارڈ کرکے آنے والی نسلوں کے لئے باعث تقلید بنایا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے سنت ابراہیمی کی تقلید کی اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو اس پر چلنے کی تاکید کی ۔ جب تک اسلام اور مسلمان دنیا میں موجود ہیں ان سنتوں کی تعمیل ہوتی رہے گی ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کی محبت کا حق ادا کیا ۔ مسلمانوں سے کہا گیا کہ اللہ کی محبت کے اظہار کے لئے جو احکامات دئے گئے ہیں ان کی تاقیامت پیروی ہونی چاہئے ۔ اسی محبت اور پیروی کا نام و اظہار حج بیت اللہ ہے ۔ حج بیت اللہ کا ایک ایک قدم اور ایک ایک حرکت ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔ یہ جذبہ ایمانی کا نتیجہ ہے کہ آدمی اللہ کی راہ میں نکلنے اور اس راہ میں سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے ۔ گھربار چھوڑتا ہے ۔ اپنے وطن کو خیرباد کہتا ہے ۔ ایسی دوڑ دھوپ کرتا ہے جس سے کچھ ملتا نظر نہیں آتا ۔ اپنی اولاد کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے خود لٹا دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ پورے کا پورا خاندان اس راہ میں قربانی کے لئے تیار ہوجات ہے ۔ یہی وہ جذبہ ہے جس نے ہر دور میں اللہ کے دین کو زندہ رکھا اور اس کو قوت بخشی ۔ اسلام کے دشمنوں کو حیران و پریشان کیا ۔ حج اسی لئے فرض کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے اندر جذبہ ایمانی پیدا ہوجائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی عمرمبارک کے دوران ایک ہی حج کیا ۔ یہی حجۃ الوداع بن گیا ۔ اس موقعے پر انہوں نے جو خطبہ دیا وہی اسلام کی ابدی بقا کا ضامن بنا ۔ انہوں نے حکم دیا کہ اسلام کی تعلیمات کو وہاں تک پہنچادو جہاں میں نہ پہنچا سکا ۔ انہوں نے صاف اعلان کیا اور وہاں موجود صحابہ سے تائید کرادی کہ میں نے دین پورے کا پورا آپ تک پہنچا دیا ۔ حاضرین نے اس کی تائید کی تو فرمایا کہ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ دین کو دوسروں تک پہنچائیں ۔ صحابہ نے کمر کسا اور دنیا کے ہر کونے تک اسلامی تعلیمات پہنچادیں ۔ آج بھی حاجی حضرات وہیں سے اپنا واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں جہاں سے دس ہزار صحابہ نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا ۔ وہ صرف دس ہزار تھے ۔ آج دس ملین لوگ یہاں جمع ہوکر اعلان کرتے ہیں لبیک اللٰھم لبیک ۔ لیکن ان کی آواز کوئی نہیں سنتا ۔ ان کی آواز سے شیطان کانپ نہیں اٹھتا ۔ ان کے نعروں سے اسلام دشمن لرزتے نہیں ۔ ان کی دوڑ سے فرعوں اور نمرود پریشان نہیں ہوتے ۔ ان کی قربانی سے کوئی نئی تحریک پیدا نہیں ہوتی ۔
مسلمان کی زندگی میں سفر حج سب سے زیادہ دلچسپ ، پسندیدہ اور مشکلات سے بھرا ہوتا ہے ۔ ایک مسلمان ساری عمر اس کی خواہش کرتا ہے ۔ اس کے لئے دعائیں مانگتا ہے ۔ تیاری کرتا ہے اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اللہ کی راہ میں نکلتا ہے ۔ واپسی پر کیا کوئی سوچتا ہے کہ کعبہ سے نکل کر وہ کیا اپنے ساتھ لیتا ہے ۔ کشمیر میں عجیب روایت ہے کہ تحفے تحائف پر سب کی توجہ ہوتی ہے ۔ زمزم کا پانی ، کھجوریں اور بازاروں میں بکنے والی اشیا ۔ یہی ایک حاجی کا اثاثہ ہوتا ہے ۔ یہی اس کا تحفہ ہوتا ہے ۔ عزیز و اقارب کے لئے یہی حج کی سوغات ہوتی ہے ۔ یہی وہاں کا پیغام ہوتا ہے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ حاجی خود بدلتا ہے نہ دوسروں کو بدل دیتا ہے ۔ خود پر حج کا کوئی اثر ہوتا ہے نہ دوسرے کوئی اثر قبول کرتے ہیں ۔ حاجی بننے کے بعد لوگ ضرور عزت کرنے لگتے ہیں ۔ ایک مرد مومن کی صورت میں دیکھتے ہیں ۔ مجلس میں اونچا مقام دیتے ہیں ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ درجنوں حاجی موجود ہونے کے باوجود معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ سوچ نہیں بدلتا ۔ کردار میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتے ۔ حاجی کے گھرانے کا رنگ ڈھنگ بدلتا نہ سماج میں اس کا کوئی اثر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس سے تجارت میں کوئی تبدیلی آتی ۔ نہ اٹھنے بیٹھنے کے طریقے بدلتے ہیں ۔ کہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سفر حج کے دوران صبر کی جو تلقین ہوتی وہ حاجی وہیں چھوڑ کر آتا ۔ ائر پورٹ پہنچتے ہی لڑائی جھگڑے شروع ہوتے ہیں ۔ گالی گلوچ کی عادت لوٹ آتی ہے ۔ معاف کرنے اور معاف کرانے کا جذبہ ختم ہوتا ہے ۔ قربانی دینے کے بجائے قربانی لینے کی عادت پڑجاتی ہے ۔ یہ بڑی مایوس کن بات ہے ۔
