تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
اسلام نے سماجی اقدار پر بڑا زور دیا ہے ۔ مختلف طبقوں کے حقوق مقرر کئے ہیں ۔ بچوں سے شفقت پر زور دیا ۔ بڑوں کا ادب کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ عورتوں کے حقوق کی نشاندہی کی ہے ۔ غریب اور ضرورت مندوں کے اخراجات کی حفاظت کی ہے ۔ یہاں تک کہ جانوروں اور درختوں کے ساتھ بہتر رویے کی تلقین کی ہے ۔ اولین اہمیت انسانی ضروریات کو دی ہے ۔ انسان کے لئے بہت سے جانور حلال رکھے اور ان کا ذبیحہ جائز قرار دیا ۔ ان کا گوشت کھانا پسندیدہ عمل بتایا ہے ۔ اس کے باوجود انہیں تکلیف دینے سے دور رہنے کے لئے کہا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور فرمایا کہ جو جانوروں پر رحم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ اسی طرح درختوں کو بلا وجہ کاٹنے سے منع کیا ہے ۔ نئے درخت لگانا ثواب کا کام قرار دیا ۔ یہاں تک کہ جنگ کے دوران درخت کاٹنے ، عبادت گاہیں اڑانے اور معصوم بچوں کا خون بہانے سے منع کیا ۔ اسی طرح بہت سے ایسے اعمال پر زور دیا جو کسی بھی معاشرے اور بستی کو ترقی یافتہ بنانے میں مدد دے سکتے ہیں ۔ ایک بستی کو مثالی بستی بنانے کے لئے جو اصول ضروری ہیں اسلام نے ایسے اصول اپنانے پر زور دیا ہے ۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ مسلمان ان اعمال اور قواعد و ضوابط کو ترک کرچکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بستیاں مثالی بستیاں نہیں ۔ اصحاب رسول ؐ اور بزرگان دین جن بستیوں میں گئے وہاں اپنے کردار سے دوسروں کو متاثر کیا اور دین اپنانے پر راغب کیا ۔ صوفیااور اولیائے کرام نے کوئی جنگ لڑی اور نہ دعوتی مجالس منعقد کیں ۔ اس کے باوجود لوگوں کو بڑی تعداد میں اسلام کے دائرے میں لانے میں کامیاب ہوئے ۔ ان کے مثالی کردار کو دیکھ کر لوگوں نے اسلام کو پسند کیا ۔ لوگوں نے ان کے ایمان کو نہیں پرکھا ۔ بلکہ ان کی دیانت اور سچائی سے متاثر ہوئے ۔ ان کی صفائی پسند شخصیت سے مرعوب ہوئے ۔ ان کے اچھے لباس ، ان کی شیرین زبان اور ان کے حلم کو دیکھ کر ان کے گرویدہ بن گئے ۔ لیکن آج ایسا کچھ بھی نہیں ۔ مسلمان نہ ایمان دار ہیں نہ دیانت دار ۔ مسلمان اعلیٰ کردار کے مالک ہیں نہ اعلیٰ اقدار کے پابند ہیں ۔ سماج میں کوئی اہمیت رکھتے ہیں نہ ریاست کے لئے قابل قبول ہیں ۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا پسندیدہ ہے نہ اعلیٰ سوچ کے مالک ہیں ۔ ان کا انفرادی کردار متاثر کن ہے نہ بستیاں مثالی بستیاں ہیں ۔ اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔
ملک کی انتظامیہ اس بات پر ور دے رہی ہے کہ صفائی کی مہم چلاکر پورے ملک کو گندگی سے صاف کیا جائے ۔ وزیراعظم کی طرف سے سوچھہ بھارت ابھیان کا بار بار اعلان کیا جارہاہے ۔ اس کے لئے بڑے پیمانے پر لوگوں کو متحرک کیا جارہاہے ۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ مہم جاری ہے ۔ اس کے ابھی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے جس کی کئی وجوہات ہیں ۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ بیداری کی ایک مہم شروع ہوئی ۔ صفائی مسلمانوں کے لئے آدھا ایمان ہے ۔ لیکن اب یہ صفر کے برابر باقی رہا ہے ۔ ذات صاف ہے نہ معاشرہ گندگی سے مبرا ہے ۔ مسلم بستیاں صفائی کی علامت نہیں رہی ہیں ۔ اس نے مسلمانوں کی امیج تباہ کی ہوئی ہے ۔ مغربی معاشروں کے اندر جو صفائی نظر آتی ہے وہ اعلیٰ درجے کی ہے ۔وہاں کی گلیاں صاف ہیں ۔ سڑکیں صاف و شفاف ہیں ۔ بستیاں گندگی سے دور ہیں ۔ جہاں کہیں بھی دیکھیں وہاں صفائی اعلیٰ درجے کی نظر آتی ہے ۔ کئی مسلم شہر بھی صفائی کے لحاظ سے نمایاں ہیں ۔ وہاں بھی گندگی کا نام و نشان نہیں ہے ۔ لیکن یہ شہر بھی مغرب کی نقالی سے یہاں تک پہنچ گئے ہیں ۔ ایسا نہیں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے صفائی کا نظام قائم کیا ۔ اس سے جو دنیا کو پیغام جانا تھا وہ نہیں گیا ۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ اسلام کی وجہ سے یہ شہر صاف اور آلودگی سے پاک ہیں ۔ مسلم بستیوں کے بارے میں یہی تاثر عام ہے کہ گندگی سے بھری پڑی ہیں ۔ آج بھی دہلی کی جامع مسجد کا علاقہ دیکھئے تو جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آئیں گے ۔ صحیح ہے کہ اس طرح کی گندگی دوسری عبادت گاہوں کے آس پاس بھی نظر آتی ہے ۔ لیکن اسلام کے بغیر کوئی مذہب یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اس کے پاس صفائی کا کوئی حیات بخش پیغام ہے ۔ بلکہ کچھ مذہبی اکابر یہ بھی سکھاتے ہیں کہ ٓدمی کی ذات جتنی گندگی سے بھری ہو روح اتنا ہی صاف و شفاف ہوگا ۔ کچھ لوگ بال کاٹنے سے منع کرتے ہیں ۔ کئی ایک کی روحانیت گندگی سے جڑی ہے ۔ رہبانیت یہی سکھاتی ہے کہ خود کو آلودگیوں اور مشقتوں میں ڈال دو تو مکتی پائو گے ۔ ایسے مذاہب سے خیر کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ لیکن اسلام نے جو تعلیمات دی ہیں وہ معاشرے کو صاف و پاک بنانے کے لئے کافی ہیں ۔ اسلام نے معاشرے کو جس راہ پر چلانے کی تعلیم دی ہے وہ جدید زمانے کے تمام تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔ لیکن مسلمان خود اس کی مثال نہیں ہیں ۔ مسلمان معاشرے کے اندر اس کی جھلک نہیں ملتی ۔ بلکہ دوسرے معاشرے ان اصولوں کو اپنانے میں آگے آگے ہیں ۔ ان کی تجارت اسلامی تعلیمات کا پرتو ہے ۔ ان کے کارخانہ دار اسلام کے آئینہ دار ہیں ۔ ان کے دفاتر اللہ سے ڈرنے والوں کے دفاتر نظر آتے ہیں ۔ ان کا پورا معاشر خدا پرستوں کا معاشرہ معلوم ہوتا ہے ۔ وہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہے ۔ وہاں افراتفری نہیں ۔ وہاں ظلم و جبر نہیں ۔ یہاں تک کہ وہاں ایسی بے حیائی بھی نہیں جو ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ مسلم معاشرے مثالی معاشرے نہیں ۔ ایسی کوئی کوشش بھی نہیں کی جاتی کہ مسلم معاشرے مثالی معاشرے بن جائیں ۔
