تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے کنزر میں ایک نام نہاد مولوی کو گرفتار کیا ۔ مولوی کے خلاف الزام ہے کہ اس نے ایک کم سن لڑکی سے زیادتی کی ۔ لڑکی حاملہ ہوئی اور ایک بچے کو جنم دیا ۔ اس بچے کو قتل کرکے بڑی راز داری سے مقامی قبرستان میں دفن کیا گیا ۔ راز فاش ہونے کے بعد پولیس نے کاروائی کی اور مولوی کو گرفتار کیا ۔ خدشہ ہے کہ اس معاملے میں مولوی کے کئی دوسرے مددگار بھی گرفتار کئے جائیں گے ۔ مقامی تھانے میں مقدمہ درج کرتے ہوئے بتایا گیا کہ بچے کو دفن کرنے میں دوسرے دو نوجوانوں نے دھوکے میں آکرمولوی کی مدد کی ۔ بعد میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی اصل معاملے سے پولیس کو خبردار کیا ۔ جس کے بعد پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے مولوی کو گرفتار کیا ۔
مولوی بھی دوسرے لوگوں کی طرح اپنی خواہشات رکھتے ہیں ۔ مخالف صنف کے حوالے سے ان کی جذبات اور خواہشات وہی ہیں جو کسی عام شخص کی ہیں ۔ اس دوران انہیں خواتین کے ساتھ جو نزدیکی تعلق رہتا ہے اس میں ان کے بھٹکنے کے زیادہ امکانات ہیں ۔ اس حوالے سے کنزر میں پیش آیا واقع کوئی غیر معمولی حادثہ نہیں ہے ۔ بلکہ ایک ایسا واقع ہے جو اس طرح کی صورتحال کے اندر کہیں بھی پیش آسکتا ہے ۔ نبی ﷺ کے دور میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آئے ۔ ان پر حد قائم کرکے انہیں سزا دی گئی ۔ وہاں مرد وزن خاص کر پیرو ں اورمرید وں کے مابین اس طرح کا نزدیکی تعلق نہیں تھا ۔ اختلاط مرد وزن کو پسند نہیں کیا جاتا تھا ۔ اس کے باوجود ایسے واقعات پیش آئے ۔ آج اس معاملے میں کھلی چھوٹ ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مولویوں کا خواتین کے ساتھ اس طرح کا تعلق پایا جاتا ہے جیسا کہ یہ ایک دوسرے کے محرم ہیں ۔ بلکہ محرم عورت کے ساتھ بھی اس طرح تنہائی میں ملنے کی اجازت نہیں جیسا کہ مولوی کرتے ہیں ۔ مولویوں کیا کثریت طلبہ کے بجائے طالبات کو پڑھانا پسند کرتے ہیں ۔ آج بھی بیشتر مولوی طالبات کے مدرسے قائم کرنے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ بنات کے نام سے جو درس گاہیں چلائی جاتی ہیں ان کے پیچھے دین کے بجائے ذاتی اغراض ومقاصد زیادہ کارفرما ہیں ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ان باتوں کو سمجھتے نہیں ۔ بلکہ خود سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ کسی دوسرے کی بات ماننے کو تیار ہیں ۔ پچھلے کئی سالوں کے دوران یہاں مولویوں کے ہاتھوں عصمت دری کے جتنے واقعات پیش آئے ان کے بعد ہماری آنکھیں کھلنی چاہیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔ بلکہ ہم اندھی تقلید کے شکار ہیں اور اس معاملے میں کوئی حد ماننے کو تیار نہیں ۔ انسانی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول نے جو حدود و قیود قائم کئے ہیں ہم انہیں پھاند چکے ہیں ۔ ایک زمانے میں کلیسا ایسی حرکات کا مرکز بنا ہوا تھا ۔ مندروں کی اس طرح کی خرافات کی آماجگاہ بنایا گیا تھا ۔ مندروں کے پجاریوں نے عورتوں کے ساتھ زیادتیوں کے جو کرتب دکھائے اب مسلمان مولوی اسی نقش وقدم پر آگے بڑھ رہے ہیں ۔ کتنے ہی سادھو اور پجاری آج ایسے ہی الزامات کے تحت جیل کاٹ رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے مولوی بھی پیچھے نہیں ہیں ۔ سرینگر میں مقیم کئی مولویوں نے عورتوں کے ساتھ معاشقے کو لے کر اپنے حریفوں کو قتل کیا تاکہ ان کی بیوائیں اور بہنیں ان کے نرغے میں آجائیں ۔ یہ بڑی شرمندگی کی بات ہے کہ ایسے درجنوں واقعات پیش آنے کے بعد بھی ہم باز نہیں آتے ہیں ۔ بڈگام میں گلزار پیر نے درسگاہ کے نام پر ایک چکلہ قائم کیا تھا ۔ اس کا راز فاش ہونے کے باوجود اس کے حواری اس کی مدد کرتے رہے ۔ اس نے درسگاہ میں مقیم لڑکیوں کو جس بے حیائی سے اپنے ہوس کا شکار بنایا وہ پرانی داستانوں کے افسانوں سے بھی پرکشش اور حیران کن ہے ۔ امرائو جان ادا کے ناول میں ایسے فحش مناظر دیکھنے کو نہیں ملتے ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ فحاشی کے یہ اڈے دین کی مدد کے نام پر چلائے جاتے ہیں ۔ ان کے قیام کے لئے عام لوگوں سے صدقہ اور زکوات حاصل کی جاتی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ والدین ایسے فحاشی کے اڈوں کو فروغ دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔ کنزر میں پیش آئے واقعے کے بعد بھی اگر لوگ احتیاط سے کام نہ لیں تو ان سے بڑے بیوقوف کوئی نہیں ۔ دین نے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی ہے کہ پرکشش جوان بالغ لڑکیوں کو قرآن حدیث کی تعلیم دیں ۔ بغیر پردے کے انہیں دین کے مسائل سکھائیں ۔ دین تو اسی غرض سے نازل ہوا ہے کہ معاشرے میں پنپنے والی برائیاں ختم کی جائیں ۔ فحاشی کا قلع قمع کیا جائے اورعورتوں کے استحصال پر روک لگادی جائے ۔ دینی مدارس ایسا کرنے میں ناکام رہے ۔ سماجی خدمت اور سماجی اقدار کی حفاظت کے حوالے سے ان کا رول زیرو ہے ۔ بلکہ ان مدارس کے فروغ سے الٹا معاشرتی اقدار کی تباہی میں اضافہ ہوا ۔ لوگوں کو الٹی پٹی پڑھائی گئی کہ یہی دین کی اصل حفاظت ہے ۔ جبکہ ان کے ذریعے ذاتی مفادات کی حفاظت کی گئی ۔ ذاتی ملکیت میں اضافہ کیا گیا ۔ اسلام کو رہبانیت میں تبدیل کرکے مخصوص طبقے کے لئے تجارت کا ذریعہ بنادیا گیا ۔ اس طرح کے اداروں سے فحاشی کو فروغ اور معیشت کو زوال بخشنے والے مسخرے ہی نکل آئیں گے ۔یہ ایک قدرتی عمل ہے ۔
