تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
متحدہ مجلس علما نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ سرکار کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کو بھجن اور دوسرے ہندوانہ رسوم ادا کرنے پر مجبور کیا جارہاہے ۔ مجلس علما نے اپیل کی ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں پر روک لگادی جائے اور ہند توا ایجنڈا کو آگے بڑھانے سے احتراز کیا جائے ۔ اس اپیل سے سرکار پر کیا اثر پڑا یا دیکھنا باقی ہے ۔ علما کی یہ اپیل کوئی خاطر خواہ اثرات ڈالے گی اس کا امکان کم ہی ہے ۔ ان علما کے پاس ایسی کوئی صلاحیت ہے اور نہ طاقت کہ سرکاری اداروں کے اندر جاری سرگرمیوں کو روک سکیں ۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے بیشتر علما پر دنیا کا آرام اور آسائشیں غالب آچکی ہیں ۔ ان کے اندر خود ساختہ اسلامی لباس کے سوا ایسی کوئی صفت نہیں پائی جاتی جس کو علما ء اسلام کی نشاندہی قرار دیا جاسکے ۔ ایسے بیشتر علما عوام سے حاصل کئے گئے خیرات و صدقات اور سرکار سے وصول کئے گئے وظیفے پر زندگی گزارتے ہیں ۔ انہوں نے عوام سے چندہ لے کر جو حویلیاں تعمیر کیں اور سرمایہ جمع کیا اس کو کھولنے کے خوف سے یہ علما سنجیدہ حلقوں کے اندر کھلونے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ ایسے علما دنیا کے آرام اور آسائشوں کے اتنے عادی بن گئے ہیں کہ اسلام ان کے لئے ثانوی درجے کی چیز رہ گئی ہے ۔ انہوں اسلام کو تجارت کا ذریع بناکر اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے کافی سرمایہ جمع کررکھا ہے ۔ اس سرمایہ کو کھونا اب ان کے بس کی بات نہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ انہوں نے زرق و برق لباس پہن رکھا ہے اور دستار و جبے سے یہ دکھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسلام کے اصل محافظ یہی لوگ ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے علما اسلام کے لئے وبال جان بنے ہوئے ہیں ۔ اسلام کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جارہاہے اس کا سبب یہی نام نہاد علما ہیں ۔ انہوں نے اسلام کو یرغمال بناکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اسلام ان کی جاگیر ہے ۔ اس پر ان کے سوا کسی اور کا حق نہیں ۔ فتوے جاری کئے گئے کہ ان کے سوا کوئیا سلام کی حفاطٹ اور اس کی پہچان ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرے ۔ یہاں تک کہ ان کی وجہ سے اسلام اور مسلمان گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے ۔ اب یہ اسلام کی حفاظت کے لئے میدان میں آگئے ہیں ۔ یہ اسلام کے ساتھ کسی بڑے مزاق سے کم نہیں کہ وہ لوگ اسلام کی حفاطت کے لئے سامنے آئیں جن کے ہاتھوں اسلام کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ۔ اسلام کی تشریح اور تعریف میں انہوں نے پہلے ہی اسلام کو ایک تنگ دائرے کے اندر محدود کیا ہوا ہے ۔ اب بات یہ ہے کہ کشمیر کے مسلمان وینٹی لیٹر پر لیٹ کر سانسیں گن رہے ہیں ۔ مسلمانوں کو اس نازک حالت تک پہنچانے میں علما کا بنیادی کردار رہا ۔ اب دکھاوے کے لئے کوئی بیان دیتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام کی لاج رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کے بیان کا اسلام کی اصل روح سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ مسلم متحدہ مجلس علما کے رہنمائوں نے اس وقت بیان جاری کیا جب اسکولوں کے اندر طلبہ کو گاندھی جینتی کے حوالے سے پرائر کا اہتمام کرنے اور دعائیہ گیت گانے کے لئے کہا گیا ۔ اس موقعے پر ہندورسم ورواج کے مطابق بھجن گائے گئے اور ترانے پڑھے گئے ۔ اس پر علما نے کچھ احتجاج کیا ۔ اس کے باوجود سرکاری ا سکولوں میں سرگرمیاں ختم ہوئیں نہ علما کا کوئی وقار برقرار ہوگیا ۔
متحدہ مجلس علما ایسے افراد پر مشتمل ہے جو بہ ظاہر ایک مضبوط اتحاد کی عکاسی کرتا ہے ۔ لیکن یہ حقیقت عیاں ہے کہ ایسے علما ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں ۔ ان کی آپسی مخاصمت کسی سے چھپی نہیں بلکہ سب پر عیاں ہے ۔ یہ نام نہاد علما ایک دوسرے پر الزام لگانے اور پھبتیاں کسنے سے کبھی بھی خاموش نہیں رہتے ۔ یہاں تک کہ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے جاری کرنے سے باز نہیں آتے ۔ اس مقصد کے لئے مسجدوں کے منبر و محراب بھی استعمال کرتے ہیں ۔ لوگوں کو آپس میں لڑانے اور مسجدوں کو جنگ کا میدان بنانے سے گریز نہیں کرتے ۔ اس طرح کی صورتحال کے اندر یہ چیز لازمی ہے کہ دشمن اسلام شیر بن کر مسلمانوں کو ہڑپ لینے کی کوشش کریں ۔ مسلمان اس وقت دنیا کی سب سے کمزور قوم ہیں ۔ انہیں دبانے اور مغلوب بنانے کے لئے پوری دنیا میں سازشوں اور منصوبوں کی بڑے زور وشور سے تیاریاں کی جارہی ہیں ۔ ہندوستان پر پہلی بار ان عناصر کی گرفت ہے جومسلمانوں ملک دشمن سمجھتے اور قرار دیتے ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی بڑے پیمانے پر کوششیں جاری ہیں ۔ ایسی کوششوں کا لازمی نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے کلچر کو زک پہنچایا جائے ۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ مسلم کلچر کوکمزور بنانے میں سب سے پہلے اسلامی مدارس نے کام کرنا شروع کیا ۔ ان مدارس کے اندر لوگوں کو بتایا گیا اسلام محض چند رسم ورواج اور عبادات کا نام ہے ۔ قرآن کو سمجھنے اور حدیث کو عملی زندگی میں لانے پر پابندی عائد کی گئی ۔ ایسے اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ اسلام کو بھجنوں اور سجنوں سے بچائے رکھا جائے ۔ ایسی سرگرمیاں سرکاری اداروں کی زینت سمجھی جاتی ہیں ۔ نام نہاد علما ان سرگرمیوں سے دور رہ کر زندگی نہیں گزارسکتے ۔ یہی آج کی حقیقت ہے ۔
