• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم

فصلُ گل میں راکھ ہوئے

Online Editor by Online Editor
2022-10-02
in ادب نامہ, کالم
A A
فصلُ گل میں راکھ ہوئے
FacebookTwitterWhatsappEmail
تحریر:صارم اقبال

لالی کےشباب کے چرچے نہ صرف اس کے آبائی گاؤں میں مشہور تھے بلکہ دور دور تک لالی کی خوبصورتی اور اس کی ادائیں مشہور تھی.لالہ صاحب کو اپنی اکلوتی بیٹی پہ بلکل ناز تھا.ایک باپ کی حیثیت سے لالہ صاحب نے لالی کو لاڈلی جیسا برتاؤ اور ماں جیسا پیار دیا ہے, کیونکہ لالی کی ماں کا انتقال ہوا تھا جب لالی چھ سال کی تھی.اب لالی بیسں برس کی جوان ہو چکی ہیں. چونکہ یہ ایک دستور ہے جب گھر میں جوان بیٹی ہو تو بیٹی کی رشتے کے لئے ضرور کوئی نہ کوئی اس کا ہاتھ مانگنے ضرور آتا ہے. لالہ صاحب کو اپنی عزیز بیٹی لالی کے رشتے کے لئے اپنے عزیز اقارب کے ساتھ شہر کے ریس لوگ بھی آتے تھے.مگر لالہ نے سب کو دوٹوک جواب دیا”ابھی لالی کی عمر ہی کیا ہے؟ لالہ صاحب کو لالی کی عقلمندی,چالاکی اور حسن پہ بلکل ناز تھا. لالہ خود دار قسم کا انسان تھا.لالہ کی خود داری اور انا کا یہ حال تھا کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا جائے، اپنے قوتِ بازو سے اپنے حالات کو بدلنے کی سعی کی جائے. کسی کے انا کے سامنے سرخم تسلیم نہ کیا جائے اور انکار کردیا جائے، چاہے پھر کچھ بھی ہو جائے.ایک دن ایسا ہوا شہر کا حاکم جو ابھی کنوارا تھا نے جب لالی کے حسن و خوبصورتی کے متعلق سنا تو آپ نے لالی کو ہر قیمت پر پانے کی ٹھان لی. حاکم وقت نے لالہ صاحب کو لالی کے لئے اپنے نکاح کا پیغام بیھجا… مگر لالہ نے اس رشتے کو بھی یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ابھی لالی کی عمر ہی کیا ہے.. حالانکہ لالی شادی کی عمر کو پار کر رہی تھی. حاکم وقت بھی کافی گھمنڈی قسم کاتھا ایک طرف جوان دوسری طرف اسے سلطنت کا نشہ سوار تھا. حاکم نے جب لالہ کا انکار سنا تو وہ آگ بگولہ ہو گیا.وقت کے حاکم نے اپنی سلطنت کے تمام عہداران کا اجلاس بلا کر اپنی سلطنت میں ایک سخت بلکہ عجیب حکمنامہ جاری کیا… "میری سلطنت میں تمام لالی کے ہم عمر لڑکوں بلکہ لالی سے بڑے عمر کےجو بھی کنوارے ہیں انہیں ایک ہفتے کے اندر اندر نکاح کیا جانا چاہیے مگر کوئی یہ جرات نہ کرے کہ وہ لالی کے گھر اس کے رشتے کے لئے کوئی ہاتھ آگے بڑھائے.خلاف ورزی کرنے والے کا ہاتھ ہی نہیں, اس کا بازوں ہی نہیں بلکہ اس کاسر کآٹا جایگا”. حاکم نے اسی حکم نامہ کے مطابق اپنا نکاح بھی اسی ہفتے شہر کے ایک معزز گھرانے میں انجام دیا.. گویا حاکم کی سلطنت کے ہر ایک گھر جو حکنمنامے کے زمرے میں آتے تھے سب کی شادی مختصر وقت میں طے پا کر انجام دی گئی .مسلسل ایک ہفتے تک ہر طرف نکاح کی تقریبات کا سلسلہ شروع ہوا.شہر و گاؤں میں دولھا دلھن,ولیمے میں لوگوں کی بھیڑ نظر آنے لگی. پوری سلطنت میں فرمان روا کے حکم کی تعمیل کی گئی. حاکم کے حکم کے مطابق لالی کے ہم عمر لڑکوں کی شادی کی گئی بلکہ ان نوجوانوں کا بھی نکاح بھی پڑھایاگیا جو لالی کے دوسال چھوٹے اور ان کے عمر کے بڑے بھی تھے..لالی اب پوری حاکم کی سلطنت میں واحد لڑکی رہ گئی جو اب کنواری ہیں. لالہ نے جب وقت کے حاکم کا فرمان سنا اور دیکھا تو وہ کافی ذیادہ شش و پنج میں مبتلا ہوا..کیونکہ لالہ نے ایسا کبھی بھی سوچا نہ تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ لالہ اپنی انا میں گرفتار تھا اسے یہ یاد ہی نہیں رہا تھا کہ حاکم وقت اس کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے… لالہ اپنے کئے پر سخت نادم ہوا.لالہ کو اب لالی کے تابناک مسقبل کے لئے کوئی امید باقی نہیں رہی . لالہ کے آنکھوں کے سامنے وہ تمام منظر آرہیے تھے , وہ دھوم دھام کی شادیاں ,وہ گلی کوچوں میں ہر طرف شادمانیاں …اسے وہ اپنا انا یاد آرہا ہے جس انا نے اسے پورے شہر و گاؤں میں رسوا کیا.. لالہ یہ سب باتیں سوچ کر اند ہی اندر سے سڑنے لگا. لالہ کو یہ اب احساس ہوا ہے تمام ظاہری خوب صورتی، شان و شوکت اور ایسی دیگر خوبیاں اور اختیارات جو کسی کو دوسرے انسان کے مقابلے میں حاصل ہیں، یہ سب قدرت کی عطا ہیں، اور یہ اس کی آزمائش و امتحان ہے۔ لالہ کو جب حاکم وقت کے طاقت کا اندازہ ہوا تو اس نے لالی کے نکاح کے لئے لڑکا ڈھونڈنے کی بھر پور کوشش کی لیکن لالہ کی سب کوششیں رائیگاں ہوگی.. اب لالہ تھکا ماندہ سوچتا رہا کہ کبھی کبھار ہماری ضد اور انا میں رشتے ہی نہیں بلکہ انسان دوسروں کے مقابلے میں خود کو افضل و برتر سمجھ کر اپنی حصیت سے ذیادہ پرواز کر کے منہ کے بل گر کر تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ لالہ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ,اسے ماضی کی وہ تمام غلطیاں یاد آ گئی جب لالہ صرف اپنی ذات اور انا کے محدود دائرے کے گرد چکر کاٹتا تھا. لالہ بھی گھمنڈ، غرور، اکڑ اور صرف اپنی ذات کو اہم جانتا تھا. کیونکہ اسے اب سمجھ آ گیا کہ اپنے فیصلوں کو بہترین تصور کرنا اور دوسروں کی رائے کو اہمیت نہ دینا ایک ایسی عادت ہے جس میں اکثر گھر کے گھر ہی نہیں بلکہ پوری بستی ویراں ہو جاتی ہیں.لالہ کو اب لالی کے تابناک مسقبل کے لئے کوئی امید باقی نہیں رہی .لالہ انا کی جنگ بلکل ہار چکا ہے. لالہ کے آنکھوں کے سامنے جب وہ تمام منظر آرہیے تھے جو دھوم دھام اس نے شادیوں میں دیکھی ,وہ گلی کوچوں میں ہر طرف شادمانیاں …اسے وہ اپنا انا یاد آرہا ہے جس انا نے اسے پورے شہر و گاؤں میں رسوا کیا.. لالہ یہ سب باتیں سوچ کر اند ہی اندر سے سڑنے لگا. لالہ کو یہ اب احساس ہوا ہے انسان انا کی جنگ میں جب گرفتار ہوتا ہے تو وہ اپنے حریف کو نیچا دکھانے کی لاکھ کوششیں کرتا ہے اور اسے ہر محاذ پر ناکام ہو جاتا ہے.
لالہ کے ذہن میں وہ تمام خوشیاں اور شادمانیاں گردش کر رہی ہیں جو آپ نے ہفتے کے اندر اپنے اِردگرد آنکھوں سے دیکھی تھی جس میں واحد لالہ کا گھر تنہارہ گیا تھا جہاں ماتم ہی ماتم تھا. لالہ نے خود کو اتنا بے بس پایا جہاں کوئی اس کے غم کو ہلکا کرنے میں مددنہ کر سکا,اب وہ اکیلا تنہا رہ گیا جو لالہ کے لئے سخت ترین مشکل بن گیا….. اور لالہ زندگی کی جنگ بھی ہار بیٹھا..وہ تمام دھن دولت شہرت سب ضایع ہوگئ جو لالہ نے لالی کے لئے چھوڑ دی تھی .. بیچاری لالی کے وہ تمام خواب مٹی میں مل گئے جو اس نے اپنے ہمسفر کے لئے دیکھے تھے. ایک طرف باپ کے ہجر کا غم اسے کھائے جانے لگا تو دوسری طرف وقت کےحاکم کی وہ بے دردی اسے مایوس کر گئی.
اب لالی بیچاری اکیلی ہی رہ گئی. لالی کی پوری جوانی ضائع ہوگئی..
لالی کا وہ حسن و شباب دن بہ دن بگڑتا گیا اور اب بھی وہ ایک محتاجی کی زندگی بسر کر نے لگی.
یہ سب لالہ کی انا کی وجہ سے ہوا.
لالہ نے کاش اپنے انا کو مٹا کر شہر و گاؤں کے دستور کے مطابق خود کو ضم کیا ہوتا…

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

کشمیر میں اتوار سے الیکٹرک ٹرین چلائی جائے گی

Next Post

گلشن افسانچہ

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
Next Post
معشوق احمد: لفظوں کا ساحر

گلشن افسانچہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan