تحریر:نذیر احمد مومن
مسلمان علماء ہنوز نئے دور کی اصلیت اور ٹرینڈ سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے نے دنیا میں جو ایک نیا ورلڈ آرڈر تشکیل دیاتھااور صنعتی انقلاب سے مل کر ،پرانے نظام کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی ،وہ ابھی تک ہمارے علمائے کرام کی سوچ و فہم سے بالاتر تغیروتبدل کاپروسیس ھے ۔ یہ اس بات کی عکاسی کیلئے کافی و شافی دلیل ھے کہ ہم بحیثیت قوم کتنے نااہل اور روئے زمین پر بوجھ بنے ہوئے ھیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتاھے کہ ھماری قیادت و سیادت ،ائمہ اور لیڈرشپ زمانے کی نبض سے کتنے لاعلم اور لاتعلق بنتے پھرتے ہیں۔ افسوس یہ ھے کہ آج تک ان لوگوں کواس چھوٹی سی حقیقت کا ادراک تک نہیں ہو سکا ھے کہ یہ دنیا دارالحرب، دارالکفر، دارالاسلام جیسی پرانی تقسیم اور دیوار کو کب کا ڈیلیٹ کرچکا ھے اور نئے عالمی نظام میں کسی ایسے سسٹم کی گنجائش ہی موجود نہیں رہی ھے کیونکہ آج کی دنیامیں ٹیری ٹوریل کی فرقہ وارانہ حد بندی سے آگے کچھ نئی حقیقتیں جنم لے چکی ھیں اور زبردست اہمیت اختیار کرچکی ھیں ۔ جدیدمالیاتی نظام، اقتصادی قوت و شوکت ، قدرتی وسائل پر دسترس اور اسکابھرپور استعمال ، سائینس و تجارت کا مرکزی رول نیز انسانی وسائل کی اہمیت و افادیت سے دنیا میں جو نیا آرڈر وجود میں آیا ھے ھمارے علماء آج بھی اس چیز سے ناواقف نابلد ھیں۔ تعلیم اور علم و ہنر بطور وسیلہ’ دنیا میں قوموں کا نقشہ حیات بدل رہاھے۔ آپ سیاسی کُشتی اور جنگوں کو چھوڑ بھی دیں تب بھی آپ کے پاس ایسے ذرائع ہیں جن سے آپ دنیا کو کنٹرول کرسکتے ھو اور حکومت کرسکتے ہیں ۔میڈیا کاپاور ،اقتصادی اور معاشی پھیلاو، ہنرمندوں اور ٹیکنوکریٹس کی فوج تیار کرکے آپ ہر جگہ ہر ملک کے مالک بن سکتے ھیں ۔جغرافیہ کا حلیہ بدل گیاھے گلوبل ولیج نے سارا کھیل الٹ پلٹ دیاھے اب آرٹیفشل انٹلی جنس جیسی بہت ساری ایسی چیزیں ھیں جس نے قدیم فقہی دنیا اور مباحث کو بے اثر بنادیاھے ۔ لیکن شومئی قسمت ھم آٹھ دس گئی گزری صدیوں سے آگے نکل کر نہیں سوچ سکتے ھیں ، جی نہیں سکتے ھیں۔ آج آزادی کے معنی بدل چکے ھیں ، سیادت و قیادت کا پیمانہ تبدیل ہوچکاھے اور غلبہ و اختیار کی اصطلاح ایک نیے فہم وادراک کو جنم دے چکاھے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ھے کہ مسلمان اس جدید دنیا میں مس فٹ ہوا ھے ۔ وہ اس کے فریم ورک میں سما نہیں پاتاھے۔ اس جدید نقشے میں جگہ پانے کیلئے مسلمانوں کو نئے علوم سیکھنے ہوں گے۔ نئی کتابوں کو پڑھنا ہوگا۔اسلام کی تعبیر جدید تقاضوں کے عین موافق اور مطابق کرنا ھوگا ۔قدیم فقہی دنیا سے آگے نکل کر نئے اصول اور ضابطے تشکیل دینے ھوں گے۔ غرض ایک نئی دنیا بسانی ہوگی۔
نورپور کے ایک انٹرویو سے دھماکہ ھوگیا ۔ حالانکہ اس جیسے دھماکے بہت بار ہوگئے تھے مگر ھم نے ہر بار گالیاں کسی اور کو دی لیکن اندرونی غلطی کو درست نہیں کیا۔ جب سلمان رشدی نے سیٹنک ورسز میں حدیث کو بنیاد بناکر بات کو بہت کھینچ دیا تب بھی ھم نے اصل بات کی طرف دھیان نہیں دیا۔ اب جبکہ ایک ہندو لیڈی نے بخاری شریف کی حدیث کو موضوعے بحث بنادیا ھم بخاری کے اندر کی خامیوں کو دور کرنے کے بجائے لڑنے جھگڑنے پر اتر آتے ھیں ۔
آج کی دنیا میں زبردستی نہیں چلتی ھے۔ آج آپ حرفوں کو انگلیوں کے نیچے دباکر اصلیت چھپانہیں سکتے ھیں۔ آپ اپنی کتابوں کے اندر نقائص کو دور نہیں کروگے تو دنیا انہیں ایکسپوز کرکے رہے گی جب آپ کی متھس اور خرافات کونئی نوجوان نسل کے سامنے لایاجائے گا تو لوگ اسلام کو ہی چھوڑ دیں گے ۔آپ نازیبا باتوں اور اسلامی اخلاقیات کے منافی چیزوں کو حدیث کی کتابوں سے خارج نہیں کروگے تو دنیا آپ پر ہنسے گی ، آپ کے دین کو جھوٹا بتائے گی اور آپ کا میڈیا میں کھلے عام مذاق اڑادیاجائے گا۔ مذہبی کتابوں کے اندر حدیث کے نام پر جومواد جمع کیاگیا ھے اسے میڈیا میں لایاگیا تودنیا اسلام کو ایک فراڈ اور دقیانوسی مذہب قرار دے گا۔ تب آپ نئی نسل کو یہ نہیں بتاسکوگے کہ یہ "حدیث” نہیں ھے کیونکہ وہ حدیث کی کتابوں میں موجود ھوگا۔ اسے پہلے کہ سیلاب سر سے اوپر گزرے گا بہتر ھے کہ سکریننگ کی جائے اور غلطیوں کو دور کیاجائے۔ مولویوں کے فتوے اور احتجاج سے دین کی حفاظت نہیں ہوگی سورس کی درستی کرو۔
