
30 ستمبر میرے دل، روح اور دماغ کے بہت قریب ہے کیونکہ اس دن میرے دو زبان و ادب کے استاذ پیدا ہوئے: عظیم الشان رومی اور شمس الرحمن فاروقی۔ اول الذکر 815 سال پہلے پیدا ہوئے تھے اور مؤخر الذکر 30 ستمبر 1935 کو دنیا میں تشریف لائے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ چند مغرور قارئین کو فاروقی کو رومی سے جوڑنے کی میری ‘جسارت’ پسند نہیں آئے گی لیکن میں ان دو دو باوقار حضرات کا موازنہ نہیں کر رہا ہوں۔ ہر زرہ اپنی جگہ پہ آفتاب ہے۔
شمس الرحمن فاروقی
———-
فاروقی کو جو چیز خاص بناتی ہے وہ تخلیقیت اور تنقید کو اچھی طرح سے ضم کر کے پیش کرنے کی صلاحیت تھی۔ اس لحاظ سے اور اس سیاق و سباق میں وہ ڈاکٹر میتھیو آرنلڈ اور ولیم ہیزلٹ کی طرح تھے، دونوں ہی عظیم شاعر، ادیب، مضمون نگار اور سنجیدہ نقاد تھے۔
اکثر نقاد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایسا شخص ہے جو آپ کو دوڑنا سکھاتا ہے لیکن اس کی ٹانگیں نہیں ہیں۔ یعنی نقاد اس چیز کی تعلیم سب سے بہتر طریقے سے دیتے ہیں جو انہیں (خود) سب سے زیادہ سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
صرف ایک نقاد جو خود ایک تخلیقی شخص ہو اور اس نے نمایاں طور پر امتیازی حیثیت سے بہت کچھ لکھا بھی ہو، وہی دوسروں کی تخلیقات میں خامیوں اور نفاست کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ مشہور قول کہ نقاد ایک فنکار آدمی ہوتا ہے اس کا اطلاق ماہر علوم و فنون فاروقی پر نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے تمام کرداروں کو یکساں مہارت کے ساتھ ادا کیا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی ایک نامور ادیب، نظریہ نگار اور شاعر تھے۔ ان کی تصانیف مثلاً افسانے کی حمایت میں، لُغتِ روز مرہ، اقبال کو کیسے پڑھیں، شیرِ شور انگیز، تفہیم غالب مشہور ہیں لیکن چند ایک نے ان کی تخلیقی صلاحیت کو ثابت کیا اور ساتھ ہی ساتھ ان کے ان تنقیدی مطالعہ کی ساکھ کو بھی قائم کیا جس میں انہوں نے کبھی کسی خاص مصنف یا شاعر کا ساتھ نہیں لیا۔ ان کے نزدیک سب برابر تھے اور وہ کسی پر زیادہ توجہ دینا پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ایک بار کہا، آپ کیا ہیں اور کون ہیں سے زیادہ، آپ کا کام کیا کہتا ہے، اس میں میری زیادہ دلچسپی ہے (مجھے آپ کی شخصیت سے زیادہ آپ کے کاموں میں دلچسپی ہے)۔
اسی صاف گوئی کی وجہ سے، وہ الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے اپنے پر وقار پروفیسر، فراق گورکھپوری کی اردو شاعری پر بجا تنقید کی اور وہ ہمیشہ اس بات کی تردید کیا کرتے تھے کہ فراق بنیادی طور پر ایک ایسا شاعر تھا جو جسمانی ساخت اور خوبصورتی میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اوقات، فراق عورتوں کے دماغی پہلوؤں اور صلاحیتوں سے کہیں زیادہ اس کی زیبدیدہ سرین اور خوبصورت پستانوں کا جنون تھا۔
فاروقی نے اپنے ڈاکٹریٹ گائیڈ ڈاکٹر ہری ونش رائے بچن سے قطع تعلق کر لیا اور اپنی پی ایچ ڈی مکمل نہیں کی۔ یہ بات اہم ہے کہ انہوں نے شاعر ہری ونش رائے بچن کے بطور نگران کے انگریزی علامت اور فرانسیسی ادب میں ڈاکٹریٹ کی پڑھائی کی، لیکن بچن کے ساتھ اختلاف کے بعد اسے چھوڑ دیا۔ اس سے ان کی دیانتداری اور یقین کی جرات ظاہر ہوتی ہے۔
مجھے خوشی ہوتی اگر انگریزی اخباروں میں فاروقی کی 87ویں سالگرہ کے موقع پر ان کے بارے میں کچھ ٹھوس باتیں شائع کی جاتیں۔ لیکن آج کل اردو کا کارنامے کون پڑھتا ہے؟ بلکہ اس سطحی دور میں پڑھتا ہی کون ہے؟
(بشکریہ نیوایچ اسلام )
